1
0
Monday 30 Sep 2019 13:48

کیا جنرل راحیل شریف واپس آرہے ہیں؟

کیا جنرل راحیل شریف واپس آرہے ہیں؟
تحریر: ثاقب اکبر

سوشل میڈیا پر یہ افواہ بہت گرم ہے کہ اسلامک ملٹری کائونٹر ٹیررزم کولیشن (IMCTC) کے کمانڈر پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو اس عہدے سے برخاست کرکے واپس بھیجا جا رہا ہے۔ ہم اسے اس وقت تک افواہ ہی کہیں گے، جب تک یہ خبر نہ بن جائے، البتہ حقائق تک پہنچنے کے لیے چند خبروں کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ یمن کے خلاف 2015ء میں سعودی عرب نے فوجی یلغار سے پہلے انتالیس یا چالیس مسلمان ممالک پر مشتمل ایک ’’اسلامی فوج‘‘ قائم کرنے کا اعلان کیا اور پاکستان کو بتایا کہ وہ بھی اس اتحاد کا حصہ ہے۔ بہرحال مختلف مرحلوں سے گزر کر پاکستان نے اس اعلان کو تسلیم کر لیا اور مزید کچھ مرحلے طے ہوئے تو پاکستان کے اُس وقت کے فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف نے پاک فوج سے اپنی ریٹائرڈ منٹ کے بعد سعودی قیادت میں قائم مذکورہ بالا اتحاد کی سربراہی قبول کرلی۔ ان کے جانے کے بہت بعد انہیں اس کام کے لیے این او سی بھی جاری کر دیا گیا۔

گذشتہ ساڑھے چار سال میں یمن کے خلاف جاری تباہ کن اور ہولناک جنگ نے ایک بہت بڑے انسانی المیے کو جنم دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یمن کی تباہی اور بربادی عصر حاضر میں ہونے والی تمام تر تباہیوں اور بربادیوں سے زیادہ وسیع اور گہری ہے۔ بظاہر ایک کمزور اور فقر و مسکنت میں ڈوبی ہوئی قوم کے خلاف دنیا کی طاقتور ترین اقوام کے ایما پر خطے کے طاقتور ترین ممالک کی خوفناک یلغار نے اس ملک میں کیا باقی رہنے دیا ہوگا، ہاں جو چیز جارحین ختم نہیں کرسکے، وہ یمنیوں کا ایمان، حوصلہ اور آزادی کی تڑپ ہے، جس نے انہیں اس طویل مدت میں مزید قوی کر دیا ہے اور انہوں نے سر جھکانے کے بجائے اپنی سرزمین اور اپنے دفاع کا بڑے عزم سے استعمال کیا ہے۔ یہاں تک کہ آہستہ آہستہ جنگ کا پانسہ پلٹتا ہوا دکھائی دینے لگا ہے۔

14 ستمبر 2019ء کو سعودی عرب میں تیل کی سب سے بڑی تنصیبات آرمکو پر 10یمنی ڈرونز کے حملے نے تیل کی برآمدات پر ایسا اثر ڈالا کہ پوری دنیا ایک مرتبہ بھونچکا کر رہ گئی۔ سعودی عرب کے لیے بڑا مشکل تھا کہ وہ یہ تسلیم کر لے کہ ایک مفلوک الحال ملک کی فوج نے اس کے خلاف اتنی بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ اس کا الزام امریکا اور اس کے حواریوں سمیت سعودی عرب نے ایران پر ڈالنا مناسب سمجھا۔ 14 ستمبر 2019ء کے واقعہ کی ذمہ داری خود یمن کی برسر اقتدار حکومت نے تسلیم کی تھی۔ انصار اللہ کے کمانڈروں نے اس حملے کو اپنی ایک بہت بڑی کامیابی کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا۔ یہ بات ان کے قومی افتخار کے منافی تھی کہ جو معرکہ انہوں نے سر کیا ہے، اسے کسی اور کے نام کر دیا جائے، اگرچہ انصار اللہ اپنے آپ کو ایران کی موجودہ قیادت کے بہت قریب محسوس کرتی ہے، لیکن حقیقت یہی تھی اور یہی ہے کہ آرامکو کی تنصیبات پر جارحین کو دہلا دینے والا حملہ یمنیوں ہی نے کیا تھا۔ انہوں نے اس حقیقت کو ثابت کرنے کے لیے پھر اس سے بھی بڑا معرکہ سر کرنے کا فیصلہ کیا اور وہ بھی ایسا کہ جسے کسی اور کے نام نہ کیا جاسکے۔ آخر کار وہ اس میں کامیاب ہوئے۔

انصار اللہ کے فوجی ترجمان یحییٰ سریع نے گذشتہ اتوار (29 ستمبر 2019ء) کو اعلان کیا کہ 25 ستمبر کو سعودی صوبے نجران میں سعودی افواج اور اس کے اتحادیوں کے خلاف شروع کیا گیا زمینی حملہ 28 ستمبر کو کامیابی کے ساتھ مکمل کر لیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں 2000 سے زیادہ سعودی اور ان کے کرائے کے فوجی گرفتار کر لیے گئے ہیں۔ 350 مربع کلو میٹر علاقہ انصار اللہ کے قبضے میں آگیا ہے، جارحین کے 500 سے زیادہ فوجی قتل یا زخمی ہوئے ہیں۔ بہت بڑی تعداد میں فوجی مشینری اور اسلحہ انصار اللہ کے ہاتھ لگا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ 200 سے زیادہ سعودی بھاگتے ہوئے خود اپنے ہی ملک کے جنگی طیاروں کی بمباری کا نشانہ بن کر ہلاک ہو گئے ہیں۔ یہ خبر دنیا بھر کے بڑے بڑے نیوز چینلز نے جاری کی ہے، جس نے دنیا کو ایک مرتبہ پھر ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ اس وقت جب ہم یہ سطور لکھ رہے ہیں، کچھ ہی دیر پہلے انصار اللہ کے ٹی وی المسیرہ نے تقریباً ایک گھنٹے پر مشتمل ایک فلم جاری کی ہے، جس میں انصار اللہ کی کارروائیوں سے لے کر ہزاروں سعودی اور اس کے کرائے کے فوجیوں کی گرفتاری تک کے محیر العقول مناظر دکھائے گئے ہیں۔

اسی واقعے پر خبروں کے بیچ میں ایک اور خبر نے تجزیہ کاروں کو اپنی طرف متوجہ کیا اور وہ تھا سعودی بادشاہ کے چیف سکیورٹی آفیسر جنرل عبدالعزیز الفغم کا قتل، جس کے بارے میں مختلف لوگوں نے مختلف قیاس آرائیاں کیں، کسی کا خیال یمن کے انصاراللہ کی طرف گیا، کسی نے کہا کہ اسے اس کے ایک دوست نے مار دیا ہے، لیکن سعودی شاہی خاندان کے بارے میں مختلف راز اور حقائق افشا کرنے والے ایک ادارے مجتہد نے اپنے ٹویٹر اکاونٹ پر اتوار کے روز لکھا ہے کہ سعودی حکام کا یہ دعویٰ درست نہیں کہ جنرل عبدالعزیز الفغم کو اس کے ایک دوست کے گھر میں قتل کیا گیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ قتل کے موقع پر وہ محل میں موجود تھا، مجتہد نے مزید لکھا ہے کہ جنرل عبدالعزیز الفغم آل سعود کے تمام خاندان کا قدیمی وفادار سمجھا جاتا تھا، لیکن محمد بن سلمان کے نزدیک وہ قابل اعتماد نہیں تھا، لہذا محمد بن سلمان کئی مرتبہ کہہ چکا تھا کہ وہ اسے برکنار کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ مجتہد نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ اس بارے میں مزید تفصیلات جلد جاری کرے گا۔

یاد رہے کہ یمن کی سیاسی تنظیم انصار اللہ نے آرامکو پر ڈرون حملوں کے بعد یک طرفہ طور پر جنگ بندی کا اعلان کیا تھا، بشرطیکہ سعودی عرب بھی حملوں کو روک دے۔ اس اعلان کی پذیرائی اقوام متحدہ اور دنیا کے مختلف ملکوں کی طرف سے کی گئی۔ ایران نے بھی اس اعلان کا خیر مقدم کیا تھا۔ تاہم سعودی عرب کی طرف سے اس اعلان کا کوئی مثبت جواب تاحال نہیں آیا۔ گذشتہ روز انصار اللہ کے سیاسی دفتر کے ترجمان محمد البخیتی نے نجران کی کارروائی کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر جنگ بندی کی اپنی پیشکش کو دہرایا ہے۔ البتہ انہوں نے واضح کیا ہے کہ جنگ بندی جزوی نہیں بلکہ جامع اور مکمل ہونا چاہیئے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر سعودی ہماری جنگ بندی کی پیشکش کو قبول کر لیتے تو انہیں نجران کی ہزیمت نہ اٹھانا پڑتی۔

یمن کی تازہ بتازہ اور حیران کن فوجی کامیابیوں کے بعد گذشتہ روز ایران کی سپاہ پاسداران کے ایک کمانڈر جنرل علی فدوی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ یمن کے لوگوں نے گذشتہ برسوں میں اپنے وسائل پر انحصار اور اعلیٰ بصیرت سے حیران کرکے رکھ دیا ہے اور اس اسلامی ملک کی افواج نے خالی ہاتھوں عظیم معرکے سرانجام دیئے ہیں۔ انہوں نے پیش گوئی کی کہ جلد ہی یمن فوجی صنعت کے اعتبار سے ایک طاقتور ملک میں تبدیل ہو جائے گا۔ دنیا کے مختلف خبر رساں اداروں اور ایجنسیوں نے نجران میں سعودی قیادت میں لڑنے والی فوج کے تین بریگیڈز کی حیران کن اور عبرتناک شکست نیز ہزاروں فوجیوں کے ہتھیار ڈالنے کی خبر دیتے ہوئے اسے دہشت گردی کے خلاف عالمی اتحاد جس کی قیادت جنرل راحیل شریف کر رہے ہیں، کے ذکر کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اے این آئی کی سرخی یوں ہے:
 Yemen: Houthis claim hundreds killed of former Pakistan Army chief Raheel Sharif led IMCTC forces.
یمن: سابق پاکستان آرمی چیف راحیل شریف کی قیادت میں لڑنے والے(IMCTC) کی افواج کے سینکڑوں فوجی مارنے کا حوثیوں کا دعویٰ
ٹائمز آف انڈیا نے بھی اس سے ملتی جلتی سرخی لگائی ہے:
Houthis claim haeavy casualites on former Pakistan Army chief Raheel Sharif-led forces.

شاید ایسی ہی خبروں نے جنرل راحیل شریف کی واپسی کی افواہیں پھیلانے میں کردار ادا کیا ہے۔ تاہم IFENEWSDESK نے یوں رپورٹ کیا ہے:
Huge #BreakingNews: The Islamic Military Counter Terrorism Coalition's commandar in Cheif #RaheelSharif could be fired and sent back to #Pakistan. As reports coming in that 3 brigades of #Saudi troops under Ex #PakistanArmy chief Raheel Sharif surrendered to the #Yemen #Houthis
عظیم بریکنگ نیوز: کائونٹر ٹیررزم اسلامی اتحاد کے کمانڈر انچیف راحیل شریف کو ہٹایا جاسکتا ہے اور انہیں پاکستان واپس بھیجا جاسکتا ہے۔ ایسی رپورٹیں سابق پاکستانی آرمی چیف راحیل شریف کی قیادت میں لڑنے والے تین بریگیڈز کے یمنی حوثیوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے بعد سامنے آرہی ہیں۔

اس پس منظر میں ایسے اشارے ملنا شروع ہوئے ہیں کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان جنگ کے بجائے سیاسی حل کی بات کرنے لگے ہیں۔ انہوں نے رائٹر کے مطابق گذشتہ روز ایک انٹرویو میں کہا:
WASHINGTON (Reuters) - Saudi Arabia's crown prince warned in an interview broadcast on Sunday that oil prices could spike to "unimaginably high numbers" if the world does not come together to deter Iran, but said he would prefer a political solution to a military one. "سعودی عرب کے ولی عہد نے اپنے ایک انٹرویو میں جو اتوار کو نشر کیا گیا، متنبہ کیا کہ اگر دنیا نے مل کر ایران کو نہیں روکا تو تیل کی قیمتیں تصور سے بھی اوپر جاسکتی ہیں، البتہ وہ فوجی حل کے بجائے سیاسی حل کو ترجیح دیں گے۔" اس سے پہلے ایسے اشارے امارات کی طرف سے بھی آچکے ہیں بلکہ متحدہ عرب امارات کا ایک وفد ایران کا دورہ بھی کرچکا ہے اور کچھ عرصے سے جنوبی یمن کے محاذ سے امارات نکلتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ انصار اللہ نے بھی کوئی حملہ چند ہفتوں سے امارات کے خلاف نہیں کیا۔

ان خبروں میں یہ خبر بھی شامل کی جانا چاہیئے کہ بظاہر امریکی صدر ٹرمپ نے سعودی دفاع سے انکار کر دیا ہے، انہوں نے آرامکو پر حملوں کے بعد پیٹریاٹ میزائل کی چند بیٹریوں کے ساتھ صرف دو سو امریکی فوجی سعودی عرب بھیجے ہیں، جبکہ اضافی بیٹریوں کی قیمت بھی نقد ادا کرنے کو کہا ہے۔ تجزیہ نگاروں کی رائے یہ ہے کہ سعودی عرب امریکا کی طرف سے اس سے زیادہ کی توقع کر رہا تھا۔ شاید سعودی عرب کی خواہش تھی کہ آرامکو پر اتنے بڑے تباہ کن حملے کے بعد امریکا جواب میں ایران پر حملہ کر دیتا، لیکن جنرل اسمبلی کے اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے ٹرمپ نے نہ فقط یہ کہ سعودیوں کے دفاع کی کوئی ضمانت نہ دی بلکہ کہا ہے کہ امید ہے ہمارے اتحادی اپنے دفاع پر اٹھنے والے اخراجات میں اپنا پورا حصہ ڈالیں گے۔ گویا ٹرمپ کی نظر گائے کے دودھ پر ہے اور وہ بھی پورے دودھ پر۔

اس ساری صورت حال میں جبکہ امریکا دفاع کے لیے تیار نہیں، یمنی افواج دن بدن اپنی بڑھتی ہوئی پرعزم فوجی طاقت کا مظاہرہ کر رہے ہیں، جنرل راحیل شریف کی کمان میں فوجوں کو عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، امارات اب پہلے کی طرح دل کھول کر سعودی عرب کے ساتھ کھڑا دکھائی نہیں دیتا۔ سعودی عرب کی مالی طاقت بری طرح سے مجروح ہو رہی اور تنزل کا شکار ہے نیز مزید خطروں سے دوچار ہے۔ خود محمد بن سلمان اب سیاسی حل کو ترجیح دینے کی بات کر رہے ہیں تو پھر سوال تو پیدا ہوتا ہے کہ کیا جنرل راحیل شریف واپس آرہے ہیں۔؟
خبر کا کوڈ : 819215
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ابرار حسین
United Arab Emirates
جنرل راحیل شریف کو جلد از جلد بلایا جائے، کیونکہ ان کی وجہ سے پاکستان کی سلامتی کو بہت نقصان پہنچ جائے گا، ابھی نیوز میں آیا کہ آل سعود کے 1000 مسلح فوجیوں کو یمن نے حراست میں لے لیا ہے بلکہ ان کو قیدی بنا لیا ہے۔
ہماری پیشکش