0
Monday 30 Sep 2019 13:18

سانحہ 30 ستمبر، عقیدے پر مر مٹنے کی لازوال مثال

سانحہ 30 ستمبر، عقیدے پر مر مٹنے کی لازوال مثال
رپورٹ: ایس اے زیدی
 
ڈیرہ اسماعیل خان میں ملت تشیع کو کبھی دہشتگردوں نے بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے محبت محمد و آل محمد (ص) کی سزاء دی تو کبھی خود ریاست ہی گولیاں چلاتی نظر آئی۔ 30 ستمبر 1988ء پاکستان کی تاریخ کے سیاہ ترین دنوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس سانحہ کی بنیاد 22 اگست 1988ء کو اس وقت کی ضلعی انتظامیہ نے یہ کہہ کر رکھ دی تھی کہ شب عاشور کے جلوس کو ہم تحفظ دینے سے قاصر ہیں، کیونکہ بازار میں موجود تکفیری دکانداروں نے دھمکی دی ہے کہ اگر جلوس یہاں سے گزرا تو ہم کسی ایک شیعہ کو بھی زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ ضلعی انتظامیہ یہاں شدت پسندوں کے سامنے نہ صرف بے بس تھی، بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ دونوں ایک ہی پیج پر تھے تو غلط نہ ہوگا۔ تکفیریوں اور ضلعی انتظامیہ کی سرتوڑ کوششوں کے باوجود ملت تشیع ڈیرہ اسماعیل خان نے شب عاشورہ کے تمام جلوس پتھراو اور رکاوٹوں کے سائے میں برآمد کئے۔ یہ رات ڈیرہ اسماعیل خان کے شیعوں کیلئے کربلا کی شب عاشور کی طرح کی رات تھی، ڈیرہ کے ہر شیعہ گھر کا فرد یہ جان چکا تھا کہ انتظامیہ شدت پسندوں کے ہمراہ صبح جلوس روکنے کی کوشش کرے گی، تاہم انہوں نے بھی اپنے مولا حسین علیہ السلام سے یہ عہد کر رکھا تھا کہ ہم اپنے بچے تک قربان کردیں گے لیکن آپ کی یاد میں نکالے جانے والے جلوس کو ہرگز نہیں رکنے دیں گے۔
 
اگلے روز یعنی جب صبح عاشور کا سورج طلوع ہوا تو ڈیرہ اسماعیل خان شہر کے حالات بتا رہے تھے کہ آج حکومت بھی دہشتگردی کی تمام حدیں پار کرنے والی ہے، مرکزی جلوس جو کہ چاہ سید منور شاہ کے علاقہ سے برآمد ہوتا تھا، کے راستے میں حکومت نے کہیں گرم تارکول اور کہیں کانچ بچھایا تو کہیں احتجاجی مظاہرین کی طرح خود سڑک پر ٹائر جلا دیئے، واضح رہے کہ دستور پاکستان میں درج ہے کہ حکومت وقت تمام مذاہب و مسالک کو ان کی مذہبی عبادات کی ادائیگی میں ہر ممکن معاونت فراہم کرے گی۔ مگر ڈیرہ کے شیعوں کیلئے ریاست یزیدی روپ دھار چکی تھی۔ جب شیعہ عمائدین نے انتظامیہ سے رابطہ کیا تو انہیں شہر کالعدم جماعت کے کارندوں کے کنٹرول میں ہونے اور اپنی بے بسی کے اظہار سے آگاہ کر دیا گیا۔ جس پر اہل تشیع نے انتظامیہ کو پیغام دیا کہ جب تک ہمارے تمام جلوس کوٹلی امام حسین علیہ السلام تک نہیں پہنچ جاتے ہم روزانہ کی بنیاد پر عزاداری اور جلوسوں کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔
 
اہل تشیع کے اس پرعزم اور دلیرانہ ردعمل پر پولیس اور ایف سی حرکت میں آگئی اور عزاداری اور جلوسوں کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کی، تاہم حکومتی تمام تر کوششوں کے باوجود یوم عاشور سے صفر تک ڈیرہ اسماعیل خان کے شیعوں نے ریاستی جبر کے سائے میں مجالس اور جلوسوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ 20 ستمبر 1988ء بمطابق 10 صفر کو مرکزی سطح سے کال دی گئی کہ عاشور کا مرکزی جلوس جو کہ اداروں کی رکاوٹوں کے باعث برآمد نہیں ہوسکا تھا، وہی جلوس 30 ستمبر کو برآمد ہوگا۔ یہ خبر اب ڈیرہ تک محدود نہ رہی بلکہ ملک بھر میں آگ کی طرح پھیل چکی تھی، جس پر شیعیان پاکستان نے یک زباں ہوکر لبیک کہا اور ملک بھر سے قافلوں کا رخ ڈیرہ کی دھرتی کیطرف ہوگیا اور انتظامیہ کی رکاوٹوں کے باوجود شیعیان حیدر کرار (ع) ڈی آئی خان میں داخل ہونا شروع ہوگئے۔ 30 ستمبر صبح 9 بجے کفن پوش عزاداران امام حسین (ع) امام بارگاہ چاہ سید منور شاہ سے جلوس کی صورت میں برآمد ہوا۔
 
جلوس کا پہلا دستہ 14 جانثاران امام حسین (ع) پر مشتمل تھا۔ جیسے ہی پہلے دستے نے ریڈ لائن عبور کی، ریاست کے سکیورٹی اہلکاروں نے ان نہتے عزاداروں پر اندھا دھند فائر کھول دیا، کہ جن کے تحفظ کی یہ تنخواہ لیتے تھے۔ پہلے دستے کے بعد دوسرا حسینی دستہ قربانی پیش کرنے اور اپنے آقا و مولا (ع) سے ملاقات کی خواہش لئے آگے بڑھا، اس مرتبہ بھی قانون کے رکھوالوں نے سرعام ظلم اور قانون شکنی کرتے ہوئے نہتے شہریوں پر فائرنگ کردی۔ اس سانحہ میں 10 عزاداروں کی تمنا شہادت پوری ہوئی اور درجنوں زخمی ہوگئے۔ لیکن ان عظیم جانثاران امام حسین (ع) کی قربانی نے پاکستان میں عزاداری کو چار دیواری تک محدود کرنے کی ریاستی کوششوں اور سازشوں کو اپنے پیروں تلے روندھ دیا۔ ایک طرف یہ سانحہ جہاں ریاست کے ظلم و ستم کی سیاہ تاریخ رقم کرتا ہے تو دوسری جانب عظیم عزادار شہداء کی اپنے عقیدے پر مر مٹنے کی لازوال مثال قائم کرتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 819297
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش