0
Tuesday 1 Oct 2019 18:33

عمران خان کی تقریر، کیا کھویا کیا پایا

عمران خان کی تقریر، کیا کھویا کیا پایا
تحریر: ممتاز ملک

کشمیری عوام کی طرف سے اس تقریر کو سراہا گیا ہے، کشمیری نوجوانوں کو اس خطاب سے ایک نیا جوش و جذبہ ملا ہے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ جنرل اسمبلی میں کی گئی بات اثر انداز ہوئی ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں تقریر میں کچھ خاص نہیں تھا، جناب جب آپ کو موقع ملے گا، آپ کو بھی دیکھ لیں گے۔ اہلِ سخن کہتے ہیں کہ انداز بیاں وہی اچھا جو اثر رکھتا ہو، اس تقریر سے اگر کشمیری عوام ہی انگڑائی لے لیتی ہے تو سمجھ لیں کہ آپ نے اپنا کام کر دیا ہے، کیونکہ یہ تو حقیقت ہے کہ تحریک آزادی کشمیر اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی، جب تک کشمیری خود کھڑے نہیں ہوں گے اور اس ظلم و جبر کے حصار کو توڑ نہیں دیتے۔

جو تجزیہ نگار اور سفارتکار یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ جب تک امریکہ نہیں چاہے گا، اس وقت تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوسکتا، دماغ کے لحاظ سے یہ بات ٹھیک ہے، لیکن دل❤ کی آنکھ سے یہ لوگ دیکھتے تو استعماری طاقتوں کے چاہنے نہ چاہنے کی بات ہی نہ کرتے، کیونکہ آزادی کی قدر کو سمجھنے والے اہلِ دل جب اٹھ کھڑے ہوں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت انہیں روک نہیں سکتی۔ شرط یہی ہے کہ کشمیری خود دل و جاں کے ساتھ اٹھیں اور اس آہنی شکنجے کو توڑ دیں، پھر دیکھیں ان کے حق میں اٹھنے والی آواز کتنی توانا ہے اور پوری دنیا🌎 کشمیر کے درد کو محسوس کیسے کرتی ہے۔ باقی تقریروں سے آزادی ملنی ہوتی تو بھٹو صاحب اور محترمہ بینظیر بھٹو کی تقریر سے کشمیر آزاد ہو چکا ہوتا۔

جماعت اسلامی والے کہتے ہیں کہ تقریر اچھی تھی، لیکن عافیہ صدیقی کا تذکرہ کیا جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔ بلاول بھٹو کہتے ہیں، تقریر سے کچھ حاصل نہیں ہوا، سوائے وزیراعظم کی اپنی ذاتی تشہیر کے۔ نون لیگ کی طرف سے کہا گیا کہ تقریر تو اچھی ہوئی ہے، لیکن ڈر ہے عمران خان صاحب یو ٹرن نہ لے لیں۔ دنیا کے تمام بڑے میڈیا گروپس نے تقریر کو اپنے اپنے پرنٹ اور الیکٹرونکس میڈیا میں جگہ دی ہے، جو کہ پیغام پہچانے کے لیے کافی ہے۔ مختلف عالمی اداروں اور شخصیات سے 50 سے زائد ملاقاتیں بھی کامیاب دورہ کی عکاسی کرتی ہیں۔

باقی جنرل اسمبلی کے فورم پر بات کرنے کا مقصد اقوام عالم کو اپنا نقطہ نظر باور کرانا ہوتا ہے، جو کہ کافی حد تک ہوگیا ہے۔ ہاں البتہ اس بات میں اور ہی وزن بڑھ جاتا، اگر آپ کشمیر کے انسانی حقوق کی بات کے ساتھ ساتھ یمن کے انسانی حقوق کی قرارداد کے خلاف ووٹ نہ دیتے تو، کیونکہ وہاں سعودی عرب کی ایماء پر بھارت اور پاکستان ایک ساتھ کھڑے ہوگئے ہیں اور یہ کام پاکستان دوسری مرتبہ کرچکا ہے کہ یمن میں جب انسانی حقوق کی بات آتی ہے تو ہم بھارت کی طرح ہو جاتے ہیں، جس طرح وہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کر رہا ہے اور جن کی خاطر یہ دھبہ ہم قائد اعظم کے پاکستان پر لگاتے ہیں، وہ 100 ارب ڈالرز سے زائد رقم کی سرمایہ کاری بھارت میں کرنے جا رہے ہیں۔ عمران خان نے اپنے آپ کو ایک عالمی لیڈر کے طور پر متعارف کروا دیا ہے، اگر ان کی تقریر میں کسی کو کوئی کمی نظر آتی ہے تو اس کی صرف ایک وجہ ہے اور وہ ہے ان کا سیاسی کیئریر۔

اگر ان کی شروع سے تربیت ہی کھیل کے میدان کی بجائے سیاسی میدان میں ہوتی تو یہ کمی بھی نہ رہ جاتی اور مہاتیر محمد بنتے بنتے بھی وقت لگتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی اس وقت دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، کرپشن اور منی لانڈرنگ بھی ترقی پذیر اور غریب دنیا کو کھوکھلا کر رہے ہیں، اسلام فوبیا پر بات کرنا بھی انتہائی ضروری تھا، کیونکہ اسلام دشمن طاقتیں دہشت گرد گرہوں کو تیار کر کے ان کے تمام کالے کرتوتوں کا الزام اسلام پر تھوپ دیتی ہیں، پھر کشمیر کے ایشو سے بھی پوری دنیا کے امن کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے، جسے باور کرانے کی کوشش کی گئی۔ خان صاحب کی چار نکاتی تقریر بہت اعلیٰ تھی، لیکن یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیئے، تاکہ کشمیر کا مسئلہ زندہ رہے اور عالمی برادری کے ضمیر کو جھنجھوڑتا رہے۔ عظیم فلسفی اور طبیب بوعلی سینا نے کیا خوب کہا تھا "پانی چلتا رہے تو صاف بھی ہے اور زندگی بھی اور اگر رک جائے تو گدلا بھی ہے اور موت بھی۔"
خبر کا کوڈ : 819520
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش