QR CodeQR Code

تہران کے "جاسوسی کے مرکز" سے بغداد کے "امریکی سفارتخانے" تک

5 Oct 2019 10:00

کاش عراق میں بھی نوجوانوں کا کوئی گروہ اٹھے اور امریکی سفارتخانے پر ہلہ بول کر اس میں ہونے والی کارروائی کو طشت از بام کر دے۔ دنیا کے چند ممالک میں بھی اگر امریکی سفارتخانے پر قبضے کی انقلابی تاریخ کو دہرایا جائے تو بہت سے ممالک میں بغاوتیں، شورشیں اور تختے الٹنے کی کارروائیاں کم یا ختم ہو جائیں گی۔ امریکہ وہ بھوت ہے جو باتوں سے نہیں بلکہ لاتوں سے سمجھتا ہے، کاش عراقی بھی اس فلسفہ کو سمجھ جاتے۔


اداریہ
جان نیگرو پونٹے امریکہ کے کہنہ مشق سیاستدان و سفارتکار کہے جاتے ہیں، وہ کئی اہم عہدوں پر رہنے کے ساتھ ورجینیا یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں، ان سے کسی نے پوچھا کہ امریکہ میں بغاوت کیوں نہیں ہوتی اور کسی امریکی صدر کو آج تک سازش اور شورش کے ذریعے نہیں ہٹایا جا سکا، تو جان نیگرو پونٹے نے ایک ایسا تاریخی جواب دیا، جس کو دنیا کے سفارتی و سیاسی مراکز میں جلی حروف میں لکھنا چاہیئے اور بغاوتوں کی تاریخ مرتب کرنے والے مورخین کے لیے اسے ایک گرانبھا تحفے اور سند کے طور پر پیش کیا جائے۔ پونٹے نے اس سوال کے جواب میں کہ امریکہ میں بغاوت کیوں نہی ہوتی، کہا تھا کہ امریکہ میں بغاوت نہیں ہوسکتی، کیونکہ وہاں امریکی سفارت خانہ نہیں ہے، پونٹے کے اس تجزیہ کا دنیا میں ہونی والی مختلف بغاوتوں کے تناظر میں بخوبی جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ دور جانے کی ضرورت نہیں، پاکستان میں ایک مقبول وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹنے اور اسے پھانسی پر لٹکانے میں امریکہ کا کردار کسی سے پوشیدہ نہیں۔

ایران میں بھی ماضی میں ہونے والی بغاوتوں کا اعتراف خود امریکہ کرچکا ہے اور اسلامی انقلاب کے بعد بھی تہران میں موجود امریکی سفارتخانے نے بغاوتوں کی تاریخ کو دہرانا چاہا، لیکن انقلابی نوجوانوں نے اپنی الہیٰ بصیرت اور امام خمینی جیسی قیادت میں امریکی سفارتخانے کی اس سازش کو نہ صرف ناکام بنا دیا، بلکہ امریکی سفارتخانے میں ہونے والی تمام کارروائیوں کو ثبوتوں کے ساتھ طشت از بام کر دیا۔ امریکی سفارتخانہ عالمی سفارتی پروٹوکول کے سائے میں ایران اور علاقائی ممالک کے خلاف کیا کیا سازشیں انجام دیتا رہا، اس کے لیے ان خفیہ دستاویزات کو پڑھ کر باآسانی اندازہ ہو جاتا ہے، جنہیں ایرانی طلباء نے امریکی سفارتخانے سے برآمد کرکے ان میں سے بعض کو کتابی شکل میں شائع کیا تھا۔ امریکی سفارتخانے سے ان واضح ثبوتوں کے برآمد ہونے کے بعد ایرانی عوام و خواص نے اس امریکی سفارتخانے کو "جاسوسی کا مرکز" کا نام دے دیا تھا اور آج بھی تہران میں امریکی سفارتخانے کی وسیع و عریض عمارت کو "جاسوسی کے مرکز" کے نام سے بولا اور پکارا جاتا ہے۔

عراق کے موجودہ حالات و واقعات اور اشتعال انگیز جلسے جلوسوں کے انداز اور زمان و مکان کو دیکھ کر نیز بعض ثبوتوں کے بعد آسانی سے کہا جا سکتا ہے کہ اس ناامنی اور شورش میں امریکی سفارتخانے کے ملوث ہونے کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ بہت سے حقائق و شواہد سے اندازہ ہو رہا ہے کہ بغداد میں موجود امریکی سفارتخانے کے سائے میں سعودی عرب، اسرائیل اور امریکہ پر مشتمل شیطانی مثلث اپنے مذموم اہداف کے لیے سرگرم عمل ہے۔ کاش عراق میں بھی نوجوانوں کا کوئی گروہ اٹھے اور امریکی سفارتخانے پر ہلہ بول کر اس میں ہونے والی کارروائی کو طشت از بام کر دے۔ دنیا کے چند ممالک میں بھی اگر امریکی سفارتخانے پر قبضے کی انقلابی تاریخ کو دہرایا جائے تو بہت سے ممالک میں بغاوتیں، شورشیں اور تختے الٹنے کے کارروائیاں کم یا ختم ہو جائیں گی۔ امریکہ وہ بھوت ہے جو باتوں سے نہیں بلکہ لاتوں سے سمجھتا ہے، کاش عراقی بھی اس فلسفہ کو سمجھ جاتے۔


خبر کا کوڈ: 820186

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/820186/تہران-کے-جاسوسی-مرکز-سے-بغداد-امریکی-سفارتخانے-تک

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org