QR CodeQR Code

متشدد ہندو تنظیم آر ایس ایس، نظریہ اور نیٹ ورک (2)

6 Oct 2019 12:39

اسلام ٹائمز: حال ہی میں اس تنظیم نے ایک اور دعویٰ کیا ہے کہ صرف تین دن سے بھی کم وقفہ میں 20 لاکھ سیوم سیوکوں (کارکنوں) کو جمع کر کے میدان جنگ میں لا سکتی ہے، پارٹی لیڈر روز مرہ کے فیصلہ کرنے میں آزاد ہوتے ہیں۔ مگر اہم فیصلوں کے لیے ان کو آر ایس ایس سے اجازت لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بی جے پی میں سب سے طاقتور آرگنائزنگ جنرل سیکرٹری آر ایس ایس کا ہی نمائندہ ہوتا ہے اور اس میں ایک خاص حیثیت کے بعد صرف غیر شادی شدہ کارکنان کو ہی اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا جاتا ہے۔ آر ایس ایس میں شامل ہونے اور پوزیشن حاصل کرنے کے لیے ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی اہلیہ جسودھا بین کو شادی کے چند سال بعد ہی چھوڑ دیا تھا۔


ترتیب و تنظیم: ٹی ایچ بلوچ

گذشتہ سے پیوستہ

آر ایس ایس سے منسلک دھڑوں اور دوسری انتہاء پسند گروپوں نے اب خود کو سینا یعنی فوج کہنا شروع کر دیا ہے۔ ان تنظیموں کے حکمراں جماعت بی جے پی سے گہرے تعلقات ہیں۔ گائے کے تحفظ کے لیے بنائی گئی گؤ رکشا سمیتیوں اور اینٹی رومیو سکواڈ جیسے پرتشدد گروپوں میں انھی ملیشیا کے نوجوان شامل ہوتے ہیں۔ بجرنگ دل جیسی تنظیمیں پر تشدد واقعات میں ملوث رہی ہیں۔ ہندو قوم پرستی کا ایک اہم پہلو فوج کے کردار کو غیر معمولی طور پر اجاگر اور مشتہر کرنا ہے۔ فوج سے وابستہ پہلوؤں کو مذہبی قوم پرستی سے جوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ آر ایس ایس اپنی ابتدا سے ہی فوجی طرز کے نظم و ضبط کی پابند رہی ہے۔ اس میں نظریاتی تبلیغ کے ساتھ ساتھ کیڈروں کو لاٹھی چلانے اور اپنے دفاع کی تربیت بھی دی جاتی ہے۔ بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد آر ایس ایس کے ارکان کی تعداد میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ اس کے ارکان کی تعداد اب لاکھوں میں ہے جو تنظیم کے سربراہ کی ایک آواز پر منظم طریقے سے فوجی ڈسپلن کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔

معروف قلمکار اور قانون داں اے جی نورانی نے اپنی کتاب The RSS: A Menace to India میں آر ایس ایس کے حوالے سے کئی اہم انکشافات کیے ہیں کہ بی جے پی کی کمان اس کے اپنے ہاتھوں میں نہیں ہے، اس کی طاقت کا اصل سرچشمہ اور نکیل ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیویم سنگھ (آری ایس ایس) کے پاس ہے، جو بلاشبہ فی الوقت دنیا کی سب سے بڑی خفیہ تنظیم ہے، جس کے مالی وانتظامی معاملات کے بارے میں بہت ہی کم معلومات ابھی تک منظر عام پر آئی ہیں۔ گو کہ آر ایس ایس اپنے آپ کو ایک ثقافتی تنظیم کے طور پر متعارف کرواتی ہے، مگر حال ہی میں اس تنظیم نے ایک اور دعویٰ کیا ہے کہ صرف تین دن سے بھی کم وقفہ میں 20 لاکھ سیوم سیوکوں (کارکنوں) کو جمع کر کے میدان جنگ میں لا سکتی ہے، پارٹی لیڈر روز مرہ کے فیصلہ کرنے میں آزاد ہوتے ہیں۔ مگر اہم فیصلوں کے لیے ان کو آر ایس ایس سے اجازت لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بی جے پی میں سب سے طاقتور آرگنائزنگ جنرل سیکرٹری آر ایس ایس کا ہی نمائندہ ہوتا ہے اور اس میں ایک خاص حیثیت کے بعد صرف غیر شادی شدہ کارکنان کو ہی اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا جاتا ہے۔ آر ایس ایس میں شامل ہونے اور پوزیشن حاصل کرنے کے لیے ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی اہلیہ جسودھا بین کو شادی کے چند سال بعد ہی چھوڑ دیا تھا۔

اس لیے آر ایس ایس کی پوری لیڈر شپ غیر شادی شدہ لوگوں پر مشتمل ہے۔ آر ایس ایس کے سب سے نچلے یونٹ کو شاکھا کہتے ہیں۔ ایک شہر یا قصبہ میں کئی شاکھائیں ہوسکتی ہیں۔ ہفتہ میں کئی روز دہلی کی پارکوں میں یہ شاکھائیں ڈرل کے ساتھ ساتھ لاٹھی، جوڈو، کراٹے، اور یوگا کی مشق کا اہتمام کرتے ہوئے نظر آتی ہیں۔ ورزش کے ساتھ ساتھ یونٹ کا انچارج ذہن سازی کا کام بھی کرتا ہے۔ آر ایس ایس کے سربراہ کو سر سنگھ چالک کہتے ہیں اور اس کی مدد کے لیے چار راشٹریہ سبکرواہ یعنی معتمد ہوتے ہیں۔ اس کے بعد اس کے چھ تنظیمی ڈھانچے ہیں۔ جن میں کیندریہ کاریہ منڈل، اکھل بھارتیہ پرتنیدی سبھا، پرانت یا ضلع سنگھ چالک، بر چارک، پرانت یا صلع کاری کاری منڈل اور پرانت پرتیندی سبھا شامل ہیں۔ پرانت پرچارک جو کسی علاقے یا ضلع کا منتظم ہوتا ہے کا غیر شادی شدہ یا خانگی مصروفیات سے آزاد ہونا لازمی ہوتا ہے۔ بی جے پی کی اعلیٰ لیڈر شپ میں فی الوقت نریندر مودی اور امیت شاہ آر ایس ایس کے کارکنان رہے ہیں۔ اس کے باوجود آر ایس ایس نے اپنے دو سینئر پرانت اچارک رام مادھو اور رام لال کو بی جے پی میں بطور جنرل سیکٹری تعینات کیا ہو ا ہے، تاکہ حکومت کے ہر لمحہ کی خبر اس تک پہنچتی رہے۔

نورانی کے بقول اس تنظیم کی فلاسفی ہی فرقہ واریت، جمہوریت مخالف اور فاشزم پر ٹکی ہے۔ 1951ء میں جن سنگھ اور پھر 1980ء میں بی جے پی تشکیل دی۔ بی جے پی پر اس کی گرفت کے حوالے سے نورانی کا کہنا ہے کہ آر ایس ایس کی ایماء پر اس کے تین نہایت طاقت ور صدور ماؤلی چندراشرما، بلراج مدھوک اور ایل کے ایڈوانی کو برخاست کیا گیا۔ ایڈوانی کا قصور تھا کہ 2005ء میں کراچی میں اس نے بانی پاکستان محمد علی جناح کو ایک عظیم شخصیت قرار دیا تھا۔ آر ایس ایس کی تقریباً 100 سے زیادہ شاخیں ہیں، جو الگ الگ میدانوں میں سر گرم ہیں، جیسا کہ سیاسی میدان میں بی جے پی، حفاظت یا سکیورٹی کے لیے دوسرے لفظوں میں غنڈہ گردی کے لیے بجرنگ دل، مزدوروں یا ورکروں کے لیے بھارتیہ مزدور سنگھ، دانشوروں کے لیے وچار منچ، حتیٰ کہ پچھلے کچھ عرصہ سے آر ایس ایس نے مسلمانوں کو اپنے جھانسے میں لانے کے لیے مسلم راشٹریہ منچ اور جماعت علماء نامی دو تنظمیں قائم کیں۔ انتخابات کے دوران یہ تنظمیں مقبوضہ کشمیر میں خاصی سر گرم تھیں۔ ان سبھی تنظیموں کے لیے آر ایس ایس کیڈر بنانے کا کام کرتی ہے اور ان کے لیے سکولوں اور کالجوں سے ہی طالب علموں کی مقامی شاکھاؤں کے ذریعے ذہن سازی کی جاتی ہے۔

اس کی کل شاکھاؤں کی تعداد 84877 ہے، جو ملک اور بیرون ملک کے مختلف مقامات پر ہندو انتہا پسندی کے لیے کام کر رہی ہے۔ 20 سے 35 سال کی عمر کے تقریباً 1 لاکھ نوجوانوں نے پچھلے ایک سال میں آر ایس ایس میں شمولیت اختیار کی تھی۔ اس کے ساتھ ہی آر ایس ایس ہندوستان کے 88 فی صد بلاک میں اپنی شاکھاؤں کے ذریعے رسائی حاصل کر چکا ہے۔ قابل ذکر واقعہ یہ ہے کہ گزشتہ ایک سال میں آر ایس ایس نے 13431 تربیت یافتہ سوئم سیوک سنگھ تیار کیے ہیں۔ ہندوستان سے باہر ان کی کل 39 ممالک میں شاکھائیں ہیں۔ یہ شاکھائیں ہندو سوئم سیوک سنگھ کے نام سے کام کر رہی ہیں۔ ہندوستان سے باہر آر ایس ایس کی سب سے زیادہ شاخیں نیپال میں ہیں۔ اس کے بعد امریکہ میں اس کی شاکھاؤں کی تعداد 146 ہے۔ برطانیہ میں 84 شاکھائیں ہیں۔ آر ایس ایس کینیا کے اندر بھی کافی مضبوط حالت میں ہے۔ کینیا کی شاکھاؤں کا دائرہ کار پڑوسی ممالک تنزانیہ، یوگانڈا، ماریشش اور جنوبی افریقہ تک پھیلا ہوا ہے اور وہ ان ممالک پر بھی اثر انداز ہو رہی ہیں۔ ان کی پانچ شاکھائیں مشرق وسطی کے مسلم ممالک میں بھی ہیں اور وہاں کی شاکھائیں خفیہ طریقے سے گھروں میں مذموم عزائم میں مصروف ہیں۔

کتاب میں بتایا گیا ہے کہ بابری مسجد کی شہادت اور رام مندر کی تعمیر کے لیے سب سے زیادہ چندہ ان ہی ممالک میں بسنے والے ہندؤں نے بھیجا تھا۔ بیرون ممالک آر ایس ایس کی سرگرمیوں کے انچارج مادھو ہیں، جو اس وقت بی جے پی کے قومی جنرل سیکٹری ہیں۔ کشمیر امور بھی دیکھتے ہیں۔ اور وزیر اعظم کے بیرونی دوروں کے دوران بیرون ملک میں مقیم ہندوستانیوں کی تقاریب منعقد کراتے ہیں۔ آر ایس ایس بنیادی طور پر ایک فرقہ پرست اور اقلیت دشمن تنظیم ہے جس کا مقصد بھارت میں ہندو راشٹر کا قیام ہے، ایسا ہندو راشٹر جس میں اقلیتوں اور نچلی ذاتوں کی حیثیت دوسرے درجے کے شہری کی ہو گی۔ راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ ایک ایسی فرقہ پرست تنظیم ہے، جس کے ماتحت بہت سی چھوٹی انتہا پسند تنظیمیں بھی کام کرتی ہیں۔ سنگھ سے وابستہ رجسٹرڈ تنظیموں کی تعداد چالیس سے اوپر ہے۔ حالیہ دنوں میں سنگھ پریوار سے منسلک جن نئی جماعتوں کا نام سامنے آیا ہے ان میں دھرم جاگرن بھی ہے یہ جماعت مسلمانوں، عیسائیوں اور بدھوؤں کو ہندو بنانے کا کام کرتی ہے۔

اکھل بھارتیہ، ہندو مہا سبھا قدیم ترین ہندو توا دی تنظیم ہے، اس کا باقاعدہ طور پر سنگھ سے الحاق نہیں ہے۔ مگر نظریاتی طور پر ایک ہیں۔ نیشنل ہندو مومنٹ کی سر گرمیاں گوا اور مہاراشٹر میں جاری ہیں۔ راشٹریہ ہندو اندولن مہاراشٹر میں سرگرم ہے۔ راشٹر وادی سینا، ہندو جن جاگرتی سیمتی، ہندو دھرم سینا اترپردیش میں، ہندو مکل کاچھی تامل ناڈو اور ہندو راشٹر سینا مہاراشٹر اور پونے میں مذموم سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ تنظیم اور اسکا نظریہ برصغیر سمیت پوری دنیا کے امن کیلئے بہت بڑا خطرہ ہے، اسکا تدارک کشمیری مسلمانوں کی جد و جہد آزادی سے ہی ممکن ہے، جس کے لیے سب سے زیادہ ذمہ داری پاکستان کی ہے، دنیا اگر کشمیر اور پاکستان کی آواز پر کان نہیں دھرے گی تو اس کے منفی اثرات پورے کرہ ارض پر مرتب ہونگے۔

ختم شد۔۔۔۔۔


خبر کا کوڈ: 820224

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/820224/متشدد-ہندو-تنظیم-آر-ایس-نظریہ-اور-نیٹ-ورک-2

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org