QR CodeQR Code

بی بی سی، تمہیں پتہ ہے متعہ ہوتا کیا ہے؟؟؟

6 Oct 2019 16:00

اسلام ٹائمز: اللہ سید علی سیستانی کو لمبی عمر دے ان کا ایک ایک لفظ علم و حکمت کا سمندر ہوتا ہے۔ تمام لوگوں کے لیے ہمارا موقف یہی ہے۔ ایک بات  ذہن میں رکھیں آج خاتم الانبیاءؑ کی اولاد سے منسوب شہروں اور وہاں موجود اہل اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ فقیر کا لکھا یاد رکھیے گا یہ لوگ ان بڑے بڑے ہوٹلوں میں کچھ بھی فلما کر وائرل کر سکتے ہیں۔ جہاں سے حرمین نظر آتے ہیں۔ اللہ ان کے فتنے سے ہمیں محفوظ رکھے۔ مولوی کے روپ میں کچھ درندے ہر جگہ موجود ہو سکتے ہیں، وہ متعہ کے نام پر ذاتی خواہشات کی تسکین بھی کر سکتے ہیں اور اہل عقل و فہم اس بات سے آگاہ ہیں کہ اچھے برے افراد ہر جگہ ہوتے ہیں، ان کو قانون کے مطابق سزا ملنی چاہیے۔


تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس بلوچ

یہ متعہ نہیں دھوکہ ہے۔ بی بی سی والو! جسے تم لوگوں نے متعہ کے طور پر پیش کیا، یہ متعہ نہیں دھوکہ تھا؟ نکاح میاں اور بیوی کے درمیان ایک معاہدہ ہے، اس میں ہر دو کو اس کی شرائط کا علم ہونا ضروری ہے۔ عام طور پر نکاح کے صیغے بلند آواز کے ساتھ پڑھے جاتے ہیں اور ایک عام عربی جاننے والے کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ ان کا مطلب سمجھ نہ سکے۔ جیسے ایک اردو جاننے والی لڑکی سے نکاح کے وقت کہا جائے کہ تمہارا نکاح تین ہفتے کے لیے زید سے کیا جا رہا ہے، کیا تمہیں قبول ہے؟ لڑکی جتنی مرضی ان پڑھ ہو، جذبات میں ہو یا ضرورت مند ہو، یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے والے ان اہم ترین لمحات میں ان کا معنی نہ سمجھ سکے۔ دوسرا اس خاتون نے معاہدے پر دستخط کیے اور وہ معاہدہ بھی اس کی زندگی کا اہم ترین معاہدہ تھا، اسے نہ پڑھنا ایسی غفلت ہے، جس کے برے نتائج سے نہیں بچا جا سکتا۔ بی بی سی کے رپورٹر کا یہ لکھنا کہ اگر پڑھ بھی لیا جاتا تو اس میں کوئی خامی تلاش نہ کر پاتیں، یہ نتیجہ کہاں سے اخذ کیا گیا؟ جب یہ لکھا ہوا ہوتا کہ یہ نکاح  متعہ ہے، جو دو ہفتوں کے لیے منعقد ہو رہا ہے، تو اس میں کونسی سی ایسی بات ہے جو اسے سمجھ میں نہ آتی؟؟؟

اس سے  بی بی سی نے پوری دنیا کی مسلمان خواتین کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ جس نکاح نامے پر دستخط کر رہی ہوتی ہیں، ان کو سمجھ تو سکتی نہیں ہیں، لہذا دستخط کر دیں۔ کیا اس صورتحال کا یہ درست نتیجہ ہے؟ دوسرا اس روسل نامی خاتون کی کہانی کو درست بھی مان لیا جائے تو بھی وہ ایک غیر ذمہ دار خاتون ہیں، جس نے اپنے مستقبل کا صحیح تحفظ نہیں کیا۔ بالکل ایسے ہی جیسے کوئی خاتون جذبات اور پریشانی میں آنکھیں بند کر کے روڑ کراس کرنے لگے اور حادثہ کا شکار ہو جائے، اب کیا بی بی سی اس خاتون  کے حادثہ کا ذمہ دار ٹریفک قوانین کو یہ کہتے ہوئے قرار دی سکتی ہے کہ خاتون جذبات میں تھی، ٹریفک قوانین کی کتاب کا اس نے مطالعہ نہیں کیا تھا، بچی تھی، اب یہ ظالمانہ قوانین اس حادثہ کے ذمہ دار ہیں؟ اگر بی بی سی کا کوئی رپورٹر اس لوجک کے ساتھ آئے گا، تو ممکن ہے بی بی سی ایسے آدمی کے اپنے دفتر میں آنے پر ہی پابندی لگا دے۔ مگر متعہ کے موضوع  پر اس تحقیق کو ٹاپ سٹوری بنا دیا۔

شرعی قوانین کی خلاف ورزی:
 یہاں روسل نامی خاتون کو ایک  کنواری خاتون کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا شیعہ فقہ میں والد کی اجازت کے بغیر کنواری لڑکی نکاح کر سکتی ہے؟ تو جناب اس کا جواب ہے کہ نہیں، بلکہ بالکل بھی نہیں، ہمارے فقہا کا اس حدیث پاک کہ لانکاح الا بولی، کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہو سکتا، کی روشنی میں یہی فتوی ہے۔ جس بچی کا باپ اور باپ کے نہ ہونے کی صورت میں دادا موجود ہے، وہ ان کی اجازت کے بغیر نکاح کر ہی نہیں سکتی۔ اس پوری کہانی میں مولوی صاحب کی طرف سے یہ سوال نہ پوچھنا کہ محترمہ روسل تم کنواری ہو، بیوہ ہو یا مطلقہ ہو؟ ایک بنیادی سوال کو جنم دیتا ہے کہ یہ کہانی قابل اعتبار نہیں ہے، کیونکہ اس میں بنیادی چیز نہیں ہے، جو مدرسہ میں فقط تین ماہ کا ابتدائی کورس پڑھا ہوا طالب علم بھی جانتا ہے۔ نکاح متعہ یا نکاح دائمی ہو، وہ اس وقت تک درست ہی نہیں، جب تک والد کی اجازت نہ ہو۔ ہاں اگر یہ روسل نامی خاتون کسی ایسے مسلک سے تعلق رکھتی ہے، جس میں والد کی اجازت شرط نہیں تو مسئلہ ان کی فقہ کے مطابق دیکھنا ہو گا۔ لگ یہ رہا ہے کہ رپورٹ بنانے والا شیعہ نہیں ہے، اس لیے وہ اتنی بڑی غلطی کر گیا، جس نے پوری کہانی کی سچائی کو ہی مشکوک کر دیا۔

روسل کی باتوں میں یہ دکھایا گیا ہے کہ جیسے وہ کال کی منتظر ہوتی تھی اور جیسے ہر ہفتے متعہ کیا جا رہا تھا۔ کیا شرعی قوانین میں رہتے ہوئے ایسا ممکن ہے؟ تو  جناب یہ اس کہانی کا وہ حصہ ہے، جو اسے اور ناقابل اعتبار کر دیتا ہے۔ پہلے متعہ کی مدت ختم ہونے کے پنتالیس دنوں بعد ہی دوسرا متعہ کر سکتی ہے۔ اس خاتون نے کہا میں درجنوں لوگوں سے متعہ کر چکی ہیں۔ اب درجنوں کو ہم سب سے کم عدد تصور کر لیتے ہیں، جو کہ اہل علم کے نزدیک تین ہے۔ تین درجن کو پورا کرنے کے لیے اسے چھتیس متعے کرنا ہوں گے۔ یعنی ساڑھے چار سال تک یہ عورت مسلسل متعہ کرے گی اور اس کے لیے اسے محرم اور صفر کے دو مہینے بھی متعہ کرنا پڑے گا، جس میں عام طور پر شیعہ شادیاں نہیں کرتے۔ اگر اس خاتون نے تمام شرائط کے ساتھ متعہ کیا ہے، تو  میرے لیے یہ ایسے ہی ہے، جیسے کوئی خاتون دائمی نکاح کرے، ایک رات بسر کرے اور صبح طلاق لے لے، عدت گذارے، عدت کے ختم ہونے کے اگلے دن ایک اور آدمی سے نکاح کر لے، یہ سلسلہ ساڑھے چار سال چند ماہ تک چلے، تو اس کے بھی چھتیس شوہر پورے ہو جائیں گے۔ اس عورت نے شیعہ سنی دونوں کے فریم ورک کے اندر ایسا کیا ہو تو یہ جائز ہے، اسے حرام کہنے والا جہالت کا شکار ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ معاشرے میں اس کو کہاں تک اخلاقی سپوٹ ملتی ہے اور ایسی خاتون کو معاشرہ کس نظر سے دیکھتا ہے؟ متعہ کرنے والی بھی ایسی ہی ہے۔

ریاستی اور شرعی قانون میں تضاد:
بی بی سی کی کہانی میں بار بار بچیوں کی عمر کا مسئلہ اٹھایا گیا ہے۔ اس کے ذکر سے پہلے یہاں ایک بنیادی بات کرنے کی ضرورت ہے کہ شرعی قوانین میں فقہاء نے  بچی کے بالغ ہونے کی عمر کم از کم نو سال ذکر کی ہے، ممکن ہے کچھ فقہا تھوڑا بہت فرق سمجھتے ہوں، مگر یہ مدت تمام مسلمان مسالک میں پندرہ سال سے زیادہ نہیں ہے۔ عراق کا ریاستی قانون یہ کہتا ہے کہ لڑکی کی عمر اٹھارہ سال سے کم ہو تو شادی کرنا جرم ہے، جس پر سزا ہے۔ علمائے کرام شرعی عمر پوری ہونے پر نکاح کرا دیتے ہیں۔ پندرہ سال میں کیا گیا کہ نکاح ریاستی قانون کے مطابق جرم ہے۔ کیا یہ شرعی طور پر بھی جرم ہے؟ نہیں بالکل بھی ایسا نہیں ہے۔ ہمارے معاشرے میں بھی یہی ہے، پاکستان میں نکاح کی رجسٹریشن نہیں ہوتی، مگر لوگ نکاح کرتے ہیں اور یہ معمول کی بات ہے۔ متعہ والے مورد میں بھی یہی ہے، ہم یہ کہتے ہیں پندرہ سال کی بچی بالغ ہے وہ نکاح دائمی  اور نکاح متعہ اپنے والد کی اجازت کے ساتھ کر سکتی ہے۔ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے حلال زادہ بچے ہوں گے۔ اس حوالے سے ام المومنین حضرت عائشہ کی شادی کے وقت عمر کو مثال بنایا جاتا ہے۔ اس سنت کی روشنی میں دیکھیں گے تو عراقی اور پاکستانی قوانین میں عمر کا اس طرح تعین سنت رسولﷺ کے خلاف ہے۔ کم عمری کے مغربی پیمانوں کے مطابق کہ جہاں جنسی تعلق کے لیے شادی کی ضرورت بھی نہیں ہے، اٹھارہ سال ہے، اگر ان کو فالو کرنا ہے تو الگ بات ہے، اسلامی پیمانوں کے مطابق ایسا نہیں ہے۔ اسی لیے بچی کے لیے نکاح متعہ یا دائمی کرنے کے لیے والد کی اجازت کی شرط رکھی گئی ہے، تاکہ کوئی لڑکی ان مسائل کا شکار نہ ہو، جن کا روسل ہوئی، اس نے خدا کے حکم کو توڑا اور اپنی مرضی سے زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ کرنے کی کوشش کی، جس کا تجربہ اس کے لیے کہانی میں اچھا نہیں رہا۔

روسل کا نامناسب کردار:
تعجب ہے نکاح متعہ کے بارے میں پوری طرح معلوم ہونے کے بعد بھی یہ اس مولوی سے رابطے میں رہی اور بار بار اسے انجام دیتی رہی۔ یہ مولوی کا کام ہے کہ جب اس کے پاس کوئی نکاح کے لیے آئے تو وہ اس کا نکاح پڑھا دے، درحالانکہ اس کے لیے مولوی کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے معاشرے میں بھی ہوتا ہے کہ بچے اور بچیوں والے مولوی صاحب کو کہتے ہیں کہ کوئی اچھا رشتہ ہو تو بتائیں۔ مولوی دو طرفوں میں رابطہ کروا دیتے ہیں، جس سے ان کا مقصد دو ضرورت مند خاندانوں کی مدد کرنا ہوتا ہے۔ روسل کے مطابق پہلی بار تو فراڈ ہو گیا، چلیں مان لیتے ہیں، وہ بھی اس کی اپنی وجہ سے ہوا۔ اب دوسری بار مولوی نے آپ سے رابطہ کیا؟ نہیں بلکہ خود تشریف لے گئیں۔ آپ کی بات ہی مان لیتے ہیں کہ مولوی صاحب نے مزید نکاح متعہ کرنے کا کہا، درست ہو گیا، کیا انہوں نے مجبور کیا؟ بالکل بھی نہیں، کوئی بڑا لالچ دیا؟ بالکل بھی نہیں، کوئی جھوٹی تسلی دی، بالکل بھی نہیں۔ تو اس کا مطلب بہت واضح ہے، واپس پلٹنے اور بار بار اپنی مرضی سے متعہ آپ نے خود کیا ہے۔

علمی خیانت:
بی بی سی کے مطابق مقدس شہر کربلا میں شریعہ شادی دفتر کے سب سے سینیئر شیخ عماد السعدی سے جب بی بی سی نے دریافت کیا کہ وہ نکاحِ متعہ کے حق میں ہیں؟ تو ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ شریعت میں اس کی اجازت ہے، لیکن وہ کبھی ایسا نکاح نہیں پڑھائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسا کرنے والے کو جیل بھیج دیا جائے گا چاہے وہ مولوی ہی کیوں نہ ہو۔ جناب آپ اسے چیک کریں آپ نے پورا موقف نقل نہ کر کے علمی خیانت کا مظاہرہ کیا ہے۔ نکاح پڑھنا نہ پڑھنا ہر عالم کا اپنا حق ہے، اس سے شیخ عماد انکار کر سکتے ہیں، لیکن وہ  یہ کسی صورت میں نہیں کہہ سکتے کہ جو نکاح متعہ پڑھائے، میں سمجھتا تو جائز مگر اسے جیل بھیج دیا جائے، ویسے حماقت کی حد ہوتی ہے کم از کم بی بی سی والوں سے ایسی حماقت کی مجھے بالکل توقع نہیں تھی۔ انہوں نے اس خاص مورد میں پوچھے گئے سوال کہ والد کی اجازت کے بغیر نکاح متعہ پڑھنے والے مولوی کو جیل بھیجنے کی بات کی ہو گی، یہ ممکن ہے اور ایسا ہونا چاہیے، کیونکہ اس سے ایک شرعی قانون توڑا گیا، جس سے ایک بچی متاثر ہوئی۔ مگر تمام متعہ کا نکاح پڑھنے والوں کو جیل بھیجنے کی بات کرنا، کسی عام سڑک پر چلنے والے شیعہ سے بھی بعید ہے، چہ جائیکہ ایک علمی مرکز میں بیٹھے شیعہ عالم پر ایسا بہتان لگایا جائے۔

درست موقف:
خود بی بی سی نے اس سلسلے میں آیت اللہ العظمی سید علی سیستانی سے پوچھا، عراق کے نوے فیصد شیعہ جن کے فتوی پر عمل کرتے ہیں، تو ان کے دفتر کی جانب سے کہا گیا کہ اگر ایسا کچھ اس طریقے سے ہو رہا ہے، جو آپ نے بیان کیا ہے تو ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔ نکاحِ متعہ کو جنسی عمل کی فروخت کے لیے اس طرح استعمال نہیں کیا جا سکتا کہ اس سے کسی خاتون کی ناموس پر حرف آئے۔ جواب میں یہ بھی کہا گیا کہ کسی لڑکی کو ولی یا سرپرست کی اجازت کے بغیر شادی کی اجازت نہیں دینی چاہیے اور اگر شادی قانون کے خلاف ہے، تو اسے شادی نہیں کرنی چاہیے، کیونکہ اس سے وہ مشکل میں پڑ سکتی ہے۔ اللہ سید کو لمبی عمر دے ان کا ایک ایک لفظ علم و حکمت کا سمندر ہوتا ہے۔ تمام لوگوں کے لیے ہمارا موقف یہی ہے۔ ایک بات ذہن میں رکھیں آج خاتم الانبیاءؑ کی اولاد سے منسوب شہروں اور وہاں موجود اہل اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ فقیر کا لکھا یاد رکھیے گا یہ لوگ ان بڑے بڑے ہوٹلوں میں کچھ بھی فلما کر وائرل کر سکتے ہیں۔ ہاں سے حرمین نظر آتے ہیں۔ اللہ ان کے فتنے سے ہمیں محفوظ رکھے۔ مولوی کے روپ میں کچھ درندے ہر جگہ موجود ہو سکتے ہیں، وہ متعہ کے نام پر ذاتی خواہشات کی تسکین بھی کر سکتے ہیں اور اہل عقل و فہم اس بات سے آگاہ ہیں کہ اچھے برے افراد ہر جگہ ہوتے ہیں، ان کو قانون کے مطابق سزا ملنی چاہیے۔


خبر کا کوڈ: 820472

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/820472/بی-سی-تمہیں-پتہ-ہے-متعہ-ہوتا-کیا

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org