QR CodeQR Code

حالیہ پر تشدد مظاہرے اور عراق کا مستقبل (1)

15 Oct 2019 13:26

اسلام ٹائمز: عراقی حکومت عوام کو سہولیات پہنچانے اور انکی مشکلات کو حل کرنے کے وعدے کرتی ہے، لیکن ان کو پورا نہیں کرتی۔ حالانکہ عراق میں صرف تنخواؤں پر 51 ارب ڈالر سالانہ خرچ ہو رہے ہیں۔ تنخواؤں اور غیر ترقیاتی مسائل پر اتنا بڑا بجٹ صرف کرنے کی وجہ سے ترقیاتی بجٹ کے لیے کچھ نہیں بچتا اور عوام کو سہولیات فراہم نہیں کی جاتیں، جسکی وجہ سے عراقی سوشل سیکورٹی کے حوالے سے سخت تشویش میں مبتلا رہتے ہیں۔ اس بات کا جائزہ لینے کی اشد ضرورت ہے کہ عوامی مسائل کے حل کے لیے شروع ہونے والے مظاہرے اشتعال انگیزی میں کیسے تبدیل ہو گئے اور کونسا عنوان مظاہروں کو پر تشدد مظاہروں میں تبدیل کرنے کا باعث بنا۔ تجزیہ نگاروں کی نگاہ میں انکے داخلی اور خارجی عوامل ہیں۔ داخلی عوامل کے حوالے سے اگر جائزہ لیا جائے تو اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ عراقی معاشرہ ایک منسجم و ہم آہنگ و ہم فکر معاشرہ نہیں۔


تحریر: ڈاکٹر راشد عباس

عراق میں گزشتہ چند برسوں میں کئی بار ملک گیر مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا اور اکثر اوقات یہ مظاہرے تشدد میں تبدیل ہو گئے۔ اس حوالے سے ستمبر  2018ء میں بصرہ میں ہونے والے مظاہروں کی مثال دی جا سکتی ہے۔ جس میں ایران کے قونصلیٹ کو جلانے کی کوشش کی گئی تھی۔ عراق کے دیگر علاقوں میں مختلف ایشوز کو لیکر عوام نے حکومت مخالف مظاہرے کیے۔ لیکن چند دن پہلے ہونے والے مظاہروں کا پہلے ہونے والے مظاہروں سے واضح فرق محسوس ہو رہا ہے۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ان مظاہروں کو اس لیے بھی خصوصی اہمیت دی جا رہی ہے کہ اس میں سو سے زیادہ افراد جاں بحق اور چھ ہزار کے قریب زخمی ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے مظاہروں میں مرنے والوں کی تعداد اتنی زیادہ نہ تھی۔ یہ مظاہرے ماضی کے مظاہروں سے اس لیے بھی مختلف تھے کہ اس سے پہلے مظاہروں کی کال کوئی معروف سیاسی جماعت انجام دیتی تھی۔  ماضی کے اکثر مظاہروں کا اعلان مقتدیٰ صدر  کی سیاسی جماعت کیطرف سے ہوتا تھا۔ اس بار مظاہروں کی کال کسی جانے پہچانے گروہ کیطرف سے نہ تھی۔

یہاں تک مقتدیٰ صدر نے ان مظاہروں کو پرامن ختم کرنے کی اپیلیں کی تھیں۔ انہوں نے مظاہرین سے پر امن رہنے کی بھی تلقین کی۔ عراق میں اس سے پہلے ہونے والے مظاہروں میں  کبھی بھی مرجعیت کے خلاف نعرے نہیں لگائے گئے تھے، لیکن اس بار کے مظاہروں میں مرجعیت کو خصوصی طور پر نشانہ بنایا گیا۔ دنیا جانتی ہے کہ 2014ء میں مرجع  عالی آیت اللہ سید علی سیستانی کے فتویٰ نے عراق کو ایک بڑے فتنے سے محفوظ کر لیا تھا اور اب آپ کے فتاویٰ کی روشنی میں رضاکار فورس، حشد الشعبی تشکیل پائی اور اس نے داعش جیسے خطرناک گروپ اور اسکے پیچھے چھپی سازش کو ناکام بنا دیا۔ عراق کی مرجعیت نے ہمیشہ عوامی مطالبات کی حمایت کی ہے اور حکومت کو عوام کے مسائل حل کرنے پر تاکید کی ہے۔ عراق کی مرجعیت کو عراقی عوام میں خصوصی مقام حاصل ہے اور یوں بھی اس دفعہ جن علاقوں میں پر تشدد مظاہرے ہوئے ہیں، وہ شیعہ نشین علاقے ہیں۔ ان مظاہروں کا ماضی کے مظاہروں سے ایک اور بڑا فرق یہ تھا کہ ان مظاہروں میں لگائے جانے والے نعروں میں "الشعب یرید اسقاط النظام" یعنی قوم نظام کا خاتمہ چاہتی ہے"، کو سب زیادہ مقبول نعرہ بنانے کی کوشش کی گئی۔

اس نعرے سے یہ محسوس کیا جا سکتا ہے کہ اس نعرے کے خالق جمہوریت کے بجائے ڈکٹیٹرشپ اور استبدادی نظام کو عوام کی زبان پر لانے کے خواہشمند ہیں۔ یہ نعرہ ایسے عالم میں لگایا جا رہا ہے کہ عراق میں جمہوریت کا سلسلہ حاوی ہے اور ہر چار سال بعد پارلیمانی انتخابات منعقد ہوتے ہیں اور عوام اس میں شرکت کرتے ہیں۔ صدام کے سقوط کے بعد مسلسل پارلیمانی انتخابات منعقد ہو رہے ہیں اور پارلیمنٹ وزیراعظم اور صدر کا انتخاب کرتی ہے۔ ان مظاہروں کا ماضی کے مظاہروں سے پانچواں نمایاں فرق یہ ہے کہ ان مظاہروں میں پرنٹ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا میں نئے پارلیمانی انتخابات کا مطالبہ کیا گیا، حالانکہ نئی منتخب شدہ حکومت یعنی وزیراعظم عادل عبدالمہدی کی حکومت کو ایک سال بھی مکمل نہیں ہوا ہے اور انکو ماضی کی حکومت سے جو مشکلات و بحران وراثت میں ملے ہیں، وہ انکو درست و انکی اصلاح کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم عادل عبدالمہدی نے مظاہرین سے خطاب میں ان کے نعروں مثلا بدعنوانی اور کرپشن کے خاتمے کو جائز قرار دیتے ہوئے، اس کے خاتمے میں تمام کوششیں بروئے کار لانے کا وعدہ کیا، لیکن ساتھ یہ بھی کہا کہ یہ تمام مسائل و مشکلات حل کرنے میں وقت لگے گا۔

ان مظاہروں کی بنیادی وجہ عوام کی فلاح و بہبود کی سہولتوں کا فقدان ہے۔ عراقی عوام کو اس وقت سخت مشکلات کا سامنا ہے، حالانکہ عراق دنیا میں تیل برآمد کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے اور اسکی تیل کی روزانہ ایکسپورٹ تیس لاکھ ساٹھ ہزار بیرل ہے۔ اتنی زیادہ تیل کی برآمد سے عراقی عوام کی فلاح و بہبود اور روزگار کے مواقع فراہم کیے جا سکتے ہیں۔ حکومت کی غلط  پالیسیوں کی وجہ سے عراق میں بے روزگاری کی شرح 40 فیصد سے زیادہ ہے اور تعلیم یافتہ نوجوان بے روزگاری سے تنگ ہیں اور اس سے پہلے بھی وہ بغداد میں مختلف وزارت خانوں کے سامنے مسلسل پچاس دن تک مظاہرے کر چکے ہیں۔ وزارت تعلیم کے سامنے بے روزگاری کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں پی ایچ ڈی، ایم اے اور ایم ایس سی کے فارغ التحصیل طلباء کی ایک بڑی تعداد بھی شامل تھی۔ بے روزگاری کے علاوہ عراقی عوام کے لیے شہری سہولیات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں، یہاں تک کہ الیکٹرک سٹی  اور صاف پانی جیسی ابتدائی سہولیات کا بھی فقدان ہے۔ صحت عامہ کی سہولیات کی کمی اور شہری حقوق کا نہ ہونا بھی عراقی عوام میں غم و غصے کا باعث ہے۔ عراق میں عوامی احتجاج کا ایک اور بڑا عامل حکومتی اداروں اور بیوروکریسی میں بدعنوانی اور کرپشن کا روز افزوں اضافہ ہے۔

عراق میں بدعنوانی اور کرپشن کا گھوڑا بدمست ہوکر لگامیں توڑ چکا ہے، جسے قابو میں لانا مشکل امر نظر آتا ہے۔ بیوروکریسی حکومت کی آمدنی کا ایک بڑا حصہ ہڑپ کر جاتی ہے۔ حکومتی ادارے خود شاہ خرچ ہیں، لیکن عوام تک سہولیات نہیں پہنچتی ہیں۔ عراقی حکومت عوام کو سہولیات پہنچانے اور انکی مشکلات کو حل کرنے کے وعدے کرتی ہے، لیکن ان کو پورا نہیں کرتی۔ حالانکہ عراق میں صرف تنخواؤں پر 51 ارب ڈالر سالانہ خرچ ہو رہے ہیں۔ تنخواؤں اور غیر ترقیاتی مسائل پر اتنا بڑا بجٹ صرف کرنے کی وجہ سے ترقیاتی بجٹ کے لیے کچھ نہیں بچتا اور عوام کو سہولیات فراہم نہیں کی جاتیں، جسکی وجہ سے عراقی سوشل سیکورٹی کے حوالے سے سخت تشویش میں مبتلا رہتے ہیں۔ اس بات کا جائزہ لینے کی اشد ضرورت ہے کہ عوامی مسائل کے حل کے لیے شروع ہونے والے مظاہرے اشتعال انگیزی میں کیسے تبدیل ہو گئے اور کونسا عنوان مظاہروں کو پر تشدد مظاہروں میں تبدیل کرنے کا باعث بنا۔ تجزیہ نگاروں کی نگاہ میں انکے داخلی اور خارجی عوامل ہیں۔ داخلی عوامل کے حوالے سے اگر جائزہ لیا جائے تو اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ عراقی معاشرہ ایک منسجم  و ہم آہنگ و ہم فکر معاشرہ نہیں۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔


خبر کا کوڈ: 822134

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/822134/حالیہ-پر-تشدد-مظاہرے-اور-عراق-کا-مستقبل-1

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org