0
Friday 1 Jul 2011 15:38

پاکستان اور افغانستان میں امریکی اسلحے کا سیلاب

پاکستان اور افغانستان میں امریکی اسلحے کا سیلاب
تحریر:عامر لطیف
پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس نے ان اطلاعات کی تصدیق کی ہے، جن کے مطابق افغانستان میں غیرملکی افواج کے لئے بھیجا جانے والا اسلحہ پاکستان میں دہشت گرد کارروائیوں میں استعمال ہوتا ہے۔ افغانستان میں تعینات امریکہ و نیٹو افواج کے لئے بھیجا جانے والا اسلحہ غیرمعمولی مقدار میں چوری ہو کر ایسے عناصر کے ہاتھ چڑھ جاتا ہے جو اس کا استعمال پاکستان اور افغانستان میں دہشت گرد کارروائیوں کے لئے کر رہے ہیں۔ دہشت گرد کارروائیوں میں استعمال ہونے والے اسلحے کی بڑی تعداد افغان فوجیوں سے جھڑپوں کے دوران چھینی جاتی ہے یا پھر افغان فوجی یہ اسلحہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے جنگجوؤں کو فروخت کر دیتے ہیں، جس کی بعد ازاں پاکستان کے قبائلی علاقوں کی اسلحہ مارکیٹوں میں خرید و فروخت کی جاتی ہے۔ گذشتہ چند برس کے دوران افغانستان میں تعینات نیٹو افواج کے لئے زمینی راستے سے جانے والی رسد کو نشانہ بنا کر بھی اسلحہ و دیگر فوجی ساز و سامان لوٹ لینے کے واقعات بھی پیش آئے ہیں۔ یہ حملے نہ صرف شہری یا دیہی آبادیوں سے دور سنسان مقامات پر رونما ہوئے ہیں بلکہ دارالحکومت اسلام آباد کے قرب و جوار میں بھی نیٹو سپلائی پر متعدد حملے ہو چکے ہیں۔ محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کے راستے غیر ملکی افواج کو سپلائی ہونے والے اسلحے کا ایک تہائی کراچی سے افغانستان پہنچنے کے دوران چوری ہو رہا ہے۔ خفیہ ادارے کے ایک اہلکار کے مطابق اسلحہ چوری میں ملوث ٹرک ڈرائیوروں کے طالبان جنگجوؤں سے روابط ہوتے ہیں، جو ایسے ٹرکوں سے سامان رسد لوٹ لینے کے بعد انہیں نذر آتش کر دیتے ہیں۔
امریکہ کی جانب سے پاکستان کی فوجی قیادت پر جنگجو گروپ حقانی نیٹ ورک کی پشت پناہی کا الزام لگایا جاتا ہے، جو پاکستان افغانستان کے سرحدی علاقوں میں کارروائیاں کرتے ہیں۔ میجر جنرل اطہر عباس کا کہنا ہے کہ پاکستان میں دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث طالبان کے پاس امریکی ساخت کا جدید ترین اسلحہ موجود ہے، جو انہوں نے افغانستان سے کسی نہ کسی صورت حاصل کیا ہے اور اس کا استعمال پاک فوج کے خلاف کر رہے ہیں۔ یہ عمل نہ صرف پاکستان بلکہ افغانستان میں عسکریت پسندی میں اضافے کا باعث بن رہا ہے اور اس کی روک تھام کے لئے افغانستان میں موجود امریکی افواج کو خاطر خواہ اقدامات کرنا ہوں گے، کیونکہ یہ صرف ہمارے لئے مسئلہ نہیں بلکہ عسکریت پسند کارروائیاں امریکیوں کے لئے باعث پریشانی ہیں۔ امریکہ کے جدید ترین جنگی ہتھیاروں میں ایم چار نامی خودکار بندوق بھی شامل ہے، جو ایم سولہ نامی بندوق کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ یہ بندوق بڑی تعداد میں عسکریت پسندوں کے پاس موجود ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر اقسام کی رائفلز، پستول، کم روشنی میں دیکھنے والی دوربین و آلات، لیزر شعاعوں سے لیس اسلحے، فائرنگ کی آواز کم کرنے والے آلات (سیلنسرز)، فوجی وردیاں، جیکٹس اور فلیش لائٹس جو امریکی فوجیوں کے لئے ارسال کی گئی تھیں، پاکستان کے طول و عرض میں دستیاب ہیں اور باآسانی خریدی جا سکتی ہیں۔ ایم چار نامی بندوق کی قیمت بارہ ہزار امریکی ڈالر ہے، جس پر رات میں دیکھنے کے آلات، لیزر شعاعوں سے نشانہ لگانے میں مدد دینے والے آلات اور آواز کم کرنے والے سائیلنسر نصب ہوتے ہیں۔
امریکی ساختہ پستول بمعہ سائیلنسر آٹھ سو سے نو سو ڈالر میں مل جاتا ہے۔
 اگرچہ اِس نوعیت کا اسلحہ خریدنے کے لئے اسلحہ ڈیلروں سے خصوصی تعلقات کا ہونا ضروری ہے جو عام آدمی کی پہنچ میں نہیں ہوتے، لیکن عسکری مقاصد کے لئے استعمال ہونے والے دیگر ممنوعہ الیکٹرانکس آلات کی پشاور اور کوئٹہ کی مارکیٹیوں میں کھلے عام خرید و فروخت ہوتی ہے، جو افغانستان سے پاکستان کے دو زمینی راستوں پر واقع شہر ہیں۔ پاکستان کی خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ طالبان جنگجوؤں کے مقامی گروہ امریکی ساخت کا اسلحہ مقامی افراد سے جبکہ طالبان کے زیادہ بڑے اور منظم گروہ اپنی ضروریات کے لئے اسلحہ براہ راست افغانستان سے خریدتے ہیں۔ 
دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ افغانستان میں مقامی فوجیوں کو تربیت دیتا ہے لیکن عسکری تربیت مکمل کرنے کے بعد وہ بڑی تعداد میں افغان فوج کا حصہ بننے سے انکار کر دیتے ہیں۔ امریکہ کے دفاعی مرکز پینٹاگون کے مطابق تیس سے ساٹھ فیصد افغان سپاہی دوران تربیت یا بعد از تربیت فوج کی نوکری چھوڑ دیتے ہیں۔ افغان تربیت یافتہ یا زیرتربیت فوجی ملنے والے امریکی ساخت کے اسلحے کو فروخت کر دیتے ہیں، جو ان کے لئے اچھی خاصی اضافی آمدن کا ذریعہ ہے۔ افغان و پاکستان کے دفاعی امور کے تجزیہ کار صحافی رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ امریکی ساخت کا اسلحہ عسکریت پسندوں کے ہاتھ لگنے سے پیدا ہونے والی صورتحال تشویشناک ہے۔ افغان فوجیوں کے فوج سے الگ ہونے کی شرح پچیس سے تیس فیصد کے درمیان ہے، جو بہت زیادہ ہے اور عمومی رجحان یہی ہے کہ جب انہیں پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ حکومت کی طرف سے ملنے والے اسلحے کو فروخت کر دیتے ہیں۔
یہ اسلحہ بعد ازاں اسمگلروں یا براہ راست طالبان کے ہاتھ لگ جاتا ہے۔ افغان فوجی اسلحے کی گمشدگی کے بارے میں یہ توجیہہ پیش کرتے ہیں کہ یہ ان سے جھڑپ کے دوران یا حملے کے دوران چھین لیا گیا۔ یہی اسلحہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں تیزی سے ترقی پانے والی اسلحہ مارکیٹوں میں بھی پہنچ جاتا ہے۔ رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ ماضی میں طالبان جنگجوؤں کا انحصار چین اور روسی ساخت کے اسلحے پر ہوتا تھا، لیکن اب انہیں امریکی ساخت کا اسلحہ میسر آ چکا ہے۔ اس اسلحے کے زور پر دہشت گرد کارروائیوں اور ان کی ہولناکیوں میں اضافہ ہوا ہے اور خود امریکی فوجی بھی اس کا شکار بنے ہیں۔ 
پشاور سے کم و بیش بیس کلومیٹر کے فاصلے پر نیم قبائلی علاقہ درہ آدم خیل کی اسلحہ مارکیٹ کے ایک ڈیلر کا کہنا ہے کہ امریکی ساخت کا اسلحہ پاکستانی اور افغانی باشندوں سے خریدا جاتا ہے، جو اسلحے کے مڈل مین ہوتے ہیں اور یہ اسلحہ طالبان اور طالبان مخالف جنگجو خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں، کیونکہ یہ دیگر اسلحہ کے مقابلے زیادہ مؤثر ہوتا ہے۔ اسلحہ ڈیلر کا کہنا ہے کہ امریکی ساخت کا اسلحہ مانگ کے لحاظ سے خریدا جاتا ہے اور اس کے لئے تین ماہ پیشگی آرڈر دے دیا جاتا ہے، جس کے بعد اسلحے کو فروخت کرنے والے اس کی فراہمی کر دیتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 82237
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش