QR CodeQR Code

پاراچنار، صدہ سانحے کے ردعمل میں ہونے والے احتجاجی جلوس کے مطالبات

16 Oct 2019 19:23

اسلام ٹائمز: ریس کلب کے سامنے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے ماسٹر نیاز محمد، سید رضا حسین، تحریک حسینی کے حاجی عابد حسین، مولانا مزمل حسین، منصب علی، جلال حسین، ڈاکٹر حسین جان اور سیکریٹری انجمن حسینیہ حاجی سردار حسین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کل ٹوپکی میں ہونے والے واقعے کے حوالے سے حکومت کو اطلاعات ہیں، تو بیشک ملزمان کو پکر لیتے، اس میں انہیں کونسی چیز مانع تھی۔


رپورٹ: ایس این حسینی

منگل کو صدہ میں ہونے والے پرتشدد مظاہرے اور طوری بنگش قبائل کی املاک کو نقصان پہنچانے کے رد عمل میں آج انجمن حسینیہ کے زیر اہتمام مرکزی جامع مسجد و امام بارگاہ سے پاراچنار پریس کلب تک احتجاجی مظاہرہ ہوا۔ جس میں ہزاروں عوام نے شرکت کی۔ پریس کلب پہنچ کر جلوس نے جلسے کی شکل اختیار کی۔ پریس کلب کے سامنے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے ماسٹر نیاز محمد، سید رضا حسین، تحریک حسینی کے حاجی عابد حسین، مولانا مزمل حسین، منصب علی، جلال حسین، ڈاکٹر حسین جان اور سیکریٹری انجمن حسینیہ حاجی سردار حسین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کل ٹوپکی میں ہونے والے واقعے کے حوالے سے حکومت کو اطلاعات ہیں، تو بیشک ملزمان کو پکر لیتے، اس میں انہیں کونسی چیز مانع تھی۔ حالانکہ ابھی تک اس حوالے سے یقینی بات نہیں کی جاسکتی، کہ یہ قتل کس نے کیا ہے۔ تاہم اس حوالے سے اگر ایک مخصوص خاندان کو مورد الزام ٹھہرایا جائے تو بھی یہ کوئی فرقہ ورانہ سانحہ تو نہیں تھا، بلکہ ذاتی دشمنی کا شاخسانہ تھا۔

مقررین کا کہنا تھا کہ روڈ بند کرنا اور مسافرین کو نقصان پہنچانا کوئی مشکل کام نہیں، بلکہ یہ تو گھریلو خواتین بھی کرسکتی ہیں۔ انجمن حسینیہ کے سیکریٹری کا کہنا تھا کہ سانحہ رونما ہونے کے ساتھ ہی اسے پاراچنار میں پھنسے مسافرین کا خیال آیا۔ چنانچہ اس نے فورا نکل کر پاراچنار بازار اور اطراف میں جگہ جگہ کام کرنے والے مسافرین کو ڈھونڈ نکالا اور انکی سیکیورٹی کا فل پروف بندوبست کیا۔ اکثر کو سنی مسجد تک پہنچایا، جبکہ بعض کو ایف سی اور فوج کے حوالے کیا۔ تحریک حسینی کے نائب صدر عابد حسین جعفری کا کہنا تھا کہ طوری بنگش قوم فرقہ واریت کی لعنت سے کل بھی بری الذمہ تھا، آج بھی بری الذمہ ہے۔ تاہم یہ ایک بختون اور قبائلی معاشرہ ہے، پختون اور قبائل عموما اپنے مسائل میں عدالتی فیصلوں کا لحاظ نہیں رکھا کرتے۔ اور اکثر معاملات اپنی روایات، رواج اور جرگہ سسٹم کے ذریعے حل کرواتے ہیں۔ اگر ان سے اپنی پسند کا حل نکل نہ آئے تو براہ راست مداخلت کرتے ہوئے خود ہی اسکا حل نکالتے ہیں۔ 

کل ٹوپکی میں ہونے والے حادثے کا سب کو علم ہے، کہ ذاتی دشمنی کا شاخسانہ تھا۔ ایک باعزت گھرانے کی عزت کا سوال تھا۔ حکومت نے چار سال میں انہیں کوئی انصاف نہیں دیا۔ حالانکہ اسی طرح کے درجنوں واقعات بالعکس بھی ہوچکے ہیں۔ جس میں حکومت نے براہ راست اتر کر لڑکی کو زبردستی اٹھا کر مخالف فریق کے حوالے  کی ہے۔ ایسے درجنوں واقعات  میں سے خان بازک منگل کی بیٹی کا واقعہ، بوشہرہ سے میرباخیل آنے والی لڑکیوں کامسئلہ اسی طرح پاڑہ چمکنی سے بالش خیل آنے والی لڑکیوں کے واقعات قابل ذکر ہیں۔ جن میں حکومت نے فوری مداخلت کرکے لڑکیوں کو بیان کرنے بھی نہیں دیا بلکہ ڈائریکٹ اٹھاکر انہیں والدین کے حوالے کرکے قتل کروایا۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ یک بام ودو ہوا کا نظام نہ چلائے، بلکہ ایک ہی اور منصفانہ ایسا نظام چلائے، جو سب کے لئے یکساں ہو، انہوں افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ  اس حادثے کو فرقہ ورانہ رنگ دینا نہایت افسوسناک ہے۔ تاریخ شاہد ہے، درجنوں طوری بنگش افراد قتل ہوئے ہیں، دڑادڑ کے رہائشی کو پاڑہ چمکنی سے تعلق رکھنے والے اسکے دشمنوں نے پشاور میں عدالت سے آتے وقت کوہاٹ اڈہ میں قتل کردیا۔ اسی طرح بگن، مندوری اور چارخیل میں طوریوں کو گاڑیوں سے اتار کر قتل کرنے کے واقعات سے تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔ تاہم طوری بنگش اقوام نے کبھی قانون ہاتھ میں لیکر اسے فرقہ واریت کا رنگ نہیں دیا۔

انہوں نے حکومت پر واضح کیا، کہ طوری قوم بھی کسی سے کم اور کمزور نہیں۔ اگر مخالف فریق روڈ بند کرسکتا ہے، تو اسکا علاج انکے پاس بھی موجود ہے۔ انکے پاس بھی درجنوں آپشن موجود ہیں۔ آج ہی سے ان پر عمل شروع کرایا جائے گا۔ چنانچہ حکومت سے عرض ہے کہ جس سرکاری اہلکار نے صدہ میں آگ بھڑکائی، اسکے ساتھ قانونی کاروائی کی جائے۔ دوسری جانب اپنے عوام سے  گزارش ہے کہ پرامن رہیں۔ تاہم اگر حالات ٹھیک نہیں ہوجاتے، تو ہمارا اعلان ہے کہ کسی بھی وقت کسی بھی ناخوشگوار واقعے کی صورت میں فورا سڑکوں پر آجائیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ صدہ میں نقصانات کے مرتکب مجرمین کو فورا گرفتار کرکے انہیں قرار واقعی سزا دلائیں۔ اور سانحے میں ہونے والے تمام نقصانات کا فوری ازالہ کرائیں۔ ڈاکٹر حسین جان نے کہا کہ حکومت مثبت کردار ادا کرے۔ انہوں نے مشران کو متنبہ کیا کہ وہ مثبت کردار ادا کریں۔ کیونکہ ماضی میں بھی جوانوں نے محاذ پر جنگ جیتا، مگر مشران نے میز پر ہار دیا۔ جلوس کے آخر میں سید رضا حسین نے قرارداد پیش کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ صدہ میں اشتعال کرنے والوں کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے۔ 


خبر کا کوڈ: 822449

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/822449/پاراچنار-صدہ-سانحے-کے-ردعمل-میں-ہونے-والے-احتجاجی-جلوس-مطالبات

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org