0
Saturday 19 Oct 2019 23:23

صوبائی حکومتوں کو آزادی مارچ سے نمٹنے کا ٹاسک

صوبائی حکومتوں کو آزادی مارچ سے نمٹنے کا ٹاسک
رپورٹ: ایس علی حیدر

وفاقی کابینہ نے صوبوں کو آزادی مارچ سے نمٹنے کی ذمہ داری سونپ دی ہے اور فیصلہ کیا ہے کہ اگر صوبائی حکومتوں کو دھرنا روکنے کیلئے مدد کی ضرورت پڑی تو وفاقی حکومت بھرپور تعاون کریگی۔ وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ کے اعلان سے پیدا ہونیوالی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔ کابینہ نے جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں کمی کرنے، کاروباری حضرات کے معاملات کیلئے نیب کو کمیٹی بنانے کی سفارش اور اسلام آباد کے ماسٹر پلان میں تبدیلی لانے کی بھی منظوری دی ہے۔ ایک جانب وفاقی کابینہ نے صوبوں کو آزادی مارچ سے نمنٹے کی ذمہ داری سونپ دی ہے تو دوسری جانب خیبر پختونخوا اور پنجاب کی صوبائی حکومتوں کے پولیس سربراہان نے کم نفری اور اور پولیس کی نقل و حرکت، گاڑیوں کے ایندھن اور اس کے کھانے پر اٹھنے والے اخراجات کیلئے فنڈ مانگ لیا ہے۔

آئی جی پولیس خیبر پختونخوا ڈاکٹر محمد نعیم خان نے آزادی مارچ کیلئے 40 کروڑ روپے طلب کئے ہیں، پنجاب اور خیبر پختونخوا کی طرح اسلام آباد پولیس کے سربراہ آزادی مارچ کیلئے کم نفری کی شکایت لگا دی ہے۔ آزادی مارچ میں جمعیت علماء اسلام (ف)، عوامی نیشنل پارٹی، مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور قومی وطن پارٹی سمیت دیگر جماعتیں شریک ہونگی۔ اتنے بڑے ہجوم کو کنٹرول کرنے کیلئے فرنٹیئر کانسٹیبلری، فرنیٹر کور اور رینجرز کی ضرورت پڑے گی۔ یہ حقیقت ہے کہ آزادی مارچ اور ممکنہ دھرنے سے نمٹنے کیلئے لاکھوں پولیس اہلکاروں کے ایک وقت کھانے پر کروڑوں روپے خرچ کرنے پڑیں گے۔ کنٹینرز کے کرایہ اور پرائیویٹ گاڑیوں میں پولیس کی نقل و حرکت کی صورت میں خطیر قم درکار ہوگی۔ وفاقی کابینہ کے فیصلوں میں یہ بات واضح ہوگئی کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومتوں کو آزادی مارچ کے شرکاء کو اپنے ہی صوبوں میں روکنا ہی ہوگا، تاکہ وہ اسلام آباد داخل نہ ہوسکیں۔

قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن کا اے این پی کے قائد اسفندیار ولی خان سے ولی باغ چارسدہ میں ملاقات اور قبائلی زعماء سے مشاورت کے دوران کہنا تھا کہ آزادی مارچ روکنا صوبائی حکومتوں اور وفاق کے بس کی بات نہیں۔ لاکھوں لوگوں کو کیسے روکا جا سکے گا۔ ایک جانب وفاقی کابینہ اور وفاقی حکومت نے آزادی مارچ سے نمٹنے کی تیاری کر لی ہے تو دوسری جانب صوبائی حکومتوں کو مارچ کے شرکاء کے روکنے کی تیاریاں مکمل کرنے اور حکمت عملی طے کرنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ آزادی مارچ کے قافلوں میں لاکھوں لوگ شامل ہونگے، پورا ملک اسلام آباد کی جانب امڈ آئے گا، ایسی صورتحال میں آزادی مارچ روکنے کی حکمت عملی کس قدر کارگر ثابت ہوگی یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ قائد جمعیت کے مطابق جہاں جہاں آزادی مارچ کے قافلے روکنے کی کوشش کی گئی تو وہاں سڑکیں اور شاہراہیں بلاک کی جائیں گی اور دھرنا دیا جائے گا۔

وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں نے آزادی مارچ روکنے کی حکمت عملی مرتب کر لی ہے، تاہم اپوزیشن جماعتیں اپنی حکمت عملی کے تحت آگے بڑھیں گی۔ جمعیت کے اندرونی ذرائع کے مطابق جے یو آئی (ف) نے آزادی مارچ کو اپنے زور بازو کے ذریعے کامیاب بنانے اور اپوزیشن جماعتوں پر زیادہ انحصار نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ عسکری قیادت انٹیلی جنس اداروں اور حکومت نے مولانافضل الرحمٰن کے آزادی مارچ کا باریک بینی سے جائزہ لینا شروع کیا ہے۔ ریاستی ادارے ہی دیکھ کر جائزہ لے رہے ہیں کہ آزادی مارچ میں لوگوں کی شرکت کس سطح پر ہوگی، زیادہ لوگ نکلیں گے یا کم، انہیں یہ پریشانی لاحق ہے کہ زیادہ لوگ آزادی مارچ میں شریک ہوئے تو پھر حکومت کیلئے مارچ کو صوبوں کی سطح پر روکنا بہت بڑا چیلنج بن جائے گا۔ ہر جانب اور ہر زاویہ سے آزادی مارچ کا جائزہ لیا جا رہا ہے، دونوں جانب سے پریشانی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کو بھی فکر لاحق ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو کیسے نکالا جائے گا، تو دوسری جانب حکومت کو یہ تشویش ہے کہ زیادہ لوگوں کے نکلنے سے آزادی مارچ سے نمٹنا مشکل ہو جائے گا۔
خبر کا کوڈ : 822872
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش