QR CodeQR Code

زبانِ یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانم

21 Oct 2019 11:49

ترکی کو کسی علاقائی اتحاد یا علاقائی فورم جیسے "آستانہ مذاکرات" میں زیر بحث لانا چاہیے تھا تاکہ علاقے کے ممالک مل کر کرد مسئلے کا مستقل حل سوچتے۔ کرد آبادی کو امریکہ اور برطانیہ ماضی میں بھی ایران، عراق، شام اور ترکی کے خلاف استعمال کرتے رہے ہیں۔


اداریہ
فارسی کا مشہور جملہ ہے کہ معشوق ترک ہے لیکن مجھے ترکی زبان نہیں آتی۔ ترکی اپنی قدمت بالخصوص خلافت عثمانیہ کے مرکز کی حیثیت سے مسلمانوں میں ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں نے برطانوی سامراج کے دور میں خلافت عثمانیہ کے تحفظ کیلئے باقاعدہ تحریک خلافت چلائی اور قربانیاں بھی پیش کیں، البتہ پاکستان بننے کے بعد پاکستان کے حکمرانوں کو اتاترک بھی اتنے ہی پسند تھے، جتنے برصغیر کے مسلمانوں کو خلافت عثماںیہ کے حکمران اچھے لگتے تھے۔ اتاترک تو کئی پاکستانی حکمرانوں کا آئیڈیل بھی رہا ہے۔ بہرحال تمام خوبیوں اور خامیوں کے باوجود جس ترکی کو یورپ کا مردِ بیمار کہا جاتا تھا اسے ترکی کے موجودہ صدر طیب اردوغان نے معاشی اور سیاسی لحاظ سے ایک مثالی مقام پر پہنچا دیا ہے۔ رجب طیب اردوغان کی شخصیت پر ہمیشہ انگلیاں اٹھتی رہی ہیں، وہ ایک طرف عالم اسلام کی قیادت کے خواہش مند ہیں تو دوسری طرف اسرائیل سے سفارتی تعلقات کو بھی جائز سمجھتے ہیں، وہ عالم اسلام کے مسائل کو بھی بڑھ چڑھ کر بیان کرتے ہیں لیکن دوسری طرف انہوں نے امریکہ کو ترکی میں ایک بہت بڑا فوجی اڈا بھی فراہم کر رکھا ہے۔ رجب طیب اردوغان کے لیے شاعر کا یہ شعر صادق آتا ہے کہ

           عجیب تیری سیاست عجیب تیرا نظام
              حسینؑ سے بھی مراسم یزید کو بھی سلام

 
اردوغان کی قیادت میں ترکی آج شمالی شام میں کردوں کیخلاف آپریشن میں مصروف ہے اور انہیں دہشت گرد قرار دیکر عالمی قوانین کی خلاف ورزی کر کے شام کی ارضی سالمیت اور اقتدار اعلیٰ کو نظر انداز کر رہا ہے۔ ترکی پہلے یورپ سے آنے والے تمام دہشت گردوں کا میزبان، بالخصوص النصرہ فرنٹ کا سب سے بڑا حامی تھا، اسی طرح داعش جیسے تمام دہشت گرد ترکی کے راستے شام میں داخل ہوئے۔ یہی ترکی جو آج کردوں سے اپنا حساب بے باک کرنے کیلئے امریکہ کو اعتماد میں لیکر راس العین کوبانی اور شمالی شام کے کرد نشین علاقوں پر جارحیت کا مرتکب ہو رہا ہے، پہلے عراق و شام کے تیل کو داعش سے خرید کر اپنی اقتصاد کو چار چاند لگاتا رہا ہے۔ ترکی کو اگر کردوں کے خلاف انتقامی کاروائی کرنا تھی تو اسے کسی علاقائی اتحاد یا علاقائی فورم جیسے "آستانہ مذاکرات" میں زیر بحث لانا چاہیے تھا تاکہ علاقے کے ممالک بالخصوص عراق، شام اور ایران مل کر کرد مسئلے کا مستقل حل سوچتے۔ کرد آبادی صرف ترکی کا مسئلہ نہیں، اس قوم کو امریکہ اور برطانیہ ماضی میں بھی ایران، عراق، شام اور ترکی کے خلاف استعمال کرتے رہے ہیں۔

کردستان کی تشکیل کو ایک نئے اسرائیل کے قیام سے بھی تعبیر کیا جاتا رہا ہے، لیکن طیب اردوغان نے اس مسئلے میں سولوفلائٹ لیکر اپنی مشکلات میں کر دیا ہے۔ امریکہ کبھی بھی کردوں کی کردستان تحریک ختم نہیں ہونے دیگا، وہ یہ کام کردوں کی محبت و ہمدردی میں کریگا بلکہ وہ اس آبادی کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے کیلئے باقی رکھے گا، البتہ ترکی کے اس اقدام سے داعش اور النصرہ فرنٹ کو بھی نئی زندگی مل سکتی ہے۔ رجب طیب اردوغان اگر خلافت عثمانیہ کے احیاء کا خواب دیکھ رہے ہیں تو موجودہ علاقائی صورت حال میں اسکا عملی ہونا ممکن نہیں۔ ترکی کو استقامتی بلاک کیساتھ ہم آہنگ ہو کر خطے میں امریکہ اسرائیل مخالف اسلامی بلاک کیلئے کوشش کرنا چاہیے۔ ترکی کا شامی حکومت کے مقابلے میں شمالی شام کا حالیہ آپریشن ناقابلِ فہم ہے، شاید بہت سے اسلام پسند جو ترکی کے بارے میں نیک جذبات رکھتے ہیں وہ بھی کہہ رہے ہیں؎
زبانِ یارِ من ترکی ومن ترکی نمی دانم


خبر کا کوڈ: 823180

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/823180/زبان-یار-ترکی-نمی-دانم

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org