0
Saturday 2 Jul 2011 10:20

جمہوریت، انقلاب اور بے بس عوام

جمہوریت، انقلاب اور بے بس عوام
تحریر:امین شاہ
عدلیہ تحریک کے سرگرم دنوں میں یہ تاثر ابھارا گیا تھا کہ بس اب سب کچھ بدل رہا ہے، ہر طرف دودھ اور شہد کی نہریں ہوں گی، سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا، بس اب انصاف ہی انصاف ہو گا وغیرہ وغیرہ، لفظوں اور استعاروں کے استعمال میں بدنیتی کا عنصر شامل ہونا کوئی بڑی بات نہیں ہے، ایسا ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے مگر ہر بدنیتی کا عمل نیت میں چھپے ہوئے سچے اور حقیقی خوف کو ظاہر کرنے سے نہیں چوکتا، پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف تواتر سے ایک لفظ کی گردان کر رہے ہیں، اگر غریبوں کی قسمت نہ بدلی تو خونی انقلاب آئے گا، کبھی وہ حکمران طبقہ اور پاکستانی اشرافیہ کو انقلاب کے آنے سے ڈراتے ہیں تو کبھی وہ جلسوں اور پارٹی میٹنگز میں عوامی شاعر حبیب جالب کی نظم میں نہیں مانتا کو ترنم سے پڑھ کر انقلابی رنگ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، میاں نواز شریف حالیہ سیاسی تقاریر میں برملا کہہ چکے ہیں کہ موجودہ مسائل کا خاتمہ صرف انقلاب سے ہی ہو سکتا ہے۔
 میاں صاحب نے شاید ویسے ہی انقلاب کا ذکر کیا ہے، جس طرح پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے دو ہزار آٹھ کے الیکشن کے بعد اقتدار کی باگ دوڑ پر اپنی گرفت گہری کرتے ہوئے متعدد بار کہا تھا کہ ہمارا مقصد اقتدار پر فائز ہونا نہیں بلکہ نظام بدلنا ہے، یہ نظام کوئی نظام دین نامی ملازم تو ضرور ہو گا مگر اس تبدیلی سے مراد موجودہ سامراجی سرمایہ داری نظام شاید بالکل نہیں ہے، میاں صاحبان کی دیکھا دیکھی ان کے سابقہ اور موجودہ حریف الطاف حسین بھی انقلاب انقلاب کھیل رہے ہیں۔ کبھی نرم اور کبھی خاموش انقلاب کی گردان کی جا رہی ہے، کیا زمانہ آ گیا ہے کہ لفظوں، مثالوں، استعاروں اور اصطلاحوں کو کس بے قدری سے استعمال میں لایا جا رہا ہے، اگر انقلاب لفظ کی جگالی کرنے والوں کو اس لفظ کا درست ترجمہ معلوم ہو جائے تو وہ لفظ انقلاب کے ساتھ کھلواڑ بند کر دیں گے۔
انقلاب کا مطلب ملکیت کے رشتوں کی تبدیلی ہے، جن وسائل کو لاکھوں سالوں سے ایک اقلیتی طبقہ لوٹتا آ رہا ہے، انقلاب کے بعد اگر وہ سماج کے لئے کارآمد ہوں گے تو ان کو قبول کیا جائے گا مگر محض ایک عام شہری کے طور پر، پھر باپ کے بعد بیٹا، بیٹی اور بیٹی کے بعد اسکا شوہر یا بیٹے کی حکمرانی جیسی وراثتی مراعات کہیں دیکھنے کو بھی نہ ملے گی اور نہ ہی ایسا ہو سکے گا کہ ایک ہی گھر کے بھائی اور ان کے بیٹے حکمرانی کے ایوانوں میں پائے جائیں اور باقی سب رعایا قرار دے دی جائے، جناب شہباز شریف ٹھیک فرماتے ہیں کہ خونی انقلاب قریب ہے، یہاں تک تو بات درست ہے، مگر بدقسمتی سے یہ انقلاب اس طبقے کے خلاف ہو گا جو پاکستان پر پچھلے چونسٹھ سالوں سے اقتدار پر فائز چلا آ رہا ہے، یہی سرمایہ دار، جاگیر دار، پیر، سول اور نان سول بیوروکریٹس، جرنیل اور اعلیٰ عدلیہ پر مشتمل افراد کی نسلیں نام اور پارٹیاں بدل بدل کر کبھی جمہوریت کے نام پر اور کبھی مارشلاؤں کی کوکھ سے نکل کر پاکستان کے کروڑوں غریبوں کی نسلوں کو اجاڑنے کا فریضہ سرانجام دیتے چلے آ رہے ہیں۔
 ان کی وجہ سے آدھی صدی گزرنے کے باوجود جہالت کی اتھاہ گہرائیاں ہمارے مستقبل کو اپنے لپیٹ میں لئے ہوئے ہیں، یہی لوگ ہیں جو کروڑوں کی محنت پر پل رہے ہیں، جانے مادر وطن میں یہ کیسا سلسلہ ہے کہ دلوں میں تاریکی پھیلی ہوئی ہے، دلیلوں پر درہمی کی افتاد ہے اور دانش پر دیوانگی کے دورے پڑ رہے ہیں، ہمارے سیاستدانوں نے اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے ملک کا وہ حال کر دیا ہے کہ اب ہر شہر میں موت اور خوف کا راج ہے اور عوام نان شبینہ کے محتاج ہو چکے ہیں اور آئے دنوں سیاسی افق پر ہونیوالے تماشوں کو دیکھتے رہتے ہیں، کسی کو فکر ہی نہیں کہ ملکی افق پر کیا ہو رہا ہے؟ کیو ں ہو رہا ہے، ساری قوم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے اور جب افلاس، ناداری، بیکاری، ہوشربا مہنگائی، معاشی پسماندگی اور انتشار کا شکار قوم اپنے حال پر صبر کر کے بیٹھ جائے تو اس معاشرے میں انقلاب نہیں عذاب آتے ہیں اور آج پاکستانی قوم بم دھماکوں اور اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے کی شکل میں اس عذاب کا سامنا کر رہی ہے۔
انسانی تاریخ میں شائد ہی کوئی ایسا حکمران گزرا ہو جو عام لوگوں کے حقوق کھلے عام غصب کرتا ہو، ظالم ترین حکمرانوں کو بھی ہمیشہ عام لوگوں کا مسیحا بنا کر پیش کیا جاتا ہے، اس کام کے لئے بہت سے اہل بیان و زبان کے ضمیر خرید کر ان کو لفظوں سے کھیلنے پر معمور کیا جاتا ہے، میکاولی کی دی پرنس اور چانکیہ سکول آف تھاٹ میں یہی سکھایا جاتا ہے، ہمارے عہد میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو آگ کو گل ِگلزار بنا کر پیش کرنے کا ملکہ رکھتے ہیں، عہد حاضر میں ظالم کو مظلوم اور لٹیروں کو راہبر بنا کر پیش کرنا کوئی معیوب بات نہیں سمجھی جاتی، پاکستان اپنے قیام کے بعد سے تاحال جس بحران کا شکار ہے اس کی وجہ یہی جمہوری نظام ہے، مغربی جمہوری نظام عوام کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا، یہاں جمہوریت کے علمبردار ڈکٹیٹر بلکہ ان سے بھی بدتر ثابت ہوئے ہیں، ان جمہوروں کو قوم کی اتنی فکر ہے کہ یہ محلوں میں بیٹھ کر قوم کی بات کرتے ہیں اور اپنے بعد اپنی اولاد کو ہی قوم کی خدمت کرنے کیلئے پارٹی کا سربراہ نامزد کرتے ہیں۔
 جمہوریت کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اس میں انسانوں کو گنا جاتا ہے تولا نہیں جاتا، جو چاہے دولت کے بل پر امیدوار بن کر انتخاب جیت لے، پارلیمانی انتخابات ملکی تاریخ کا سب سے بڑا کاروبار بن چکے ہیں جو جتنی سرمایہ کاری کرتا ہے وہ اسمبلی میں جا کر اس سے کئی گنا زیادہ وصول کرتا ہے، ان جمہوریت کے علمبرداروں کیلئے پاکستان مادر وطن نہیں ایک چراگاہ ہے، جسے یہ چٹ کرتے جا رہے ہیں، اس لئے یہ ایوانی لٹیرے عوام کو جمہوریت کے سبز باغ دکھاتے ہیں تاکہ عوام کا استحصال در استحصال کر سکیں، آج دنیا میں جمہوری نظام کو کم و بیش 2700 سال گزر چکے ہیں مگر اس کے باوجود کسی بھی جمہوری نظام میں عوام کی ضروریات پوری نہیں ہوئیں، ہمیشہ عوام کا استحصال در استحصال ہوتا رہا ہے، قدیم یونان سے لے کر پاکستان تک ہر جگہ جمہوری نظام بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔
آج ملک کی 72 فیصد آباد کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں، 45 لاکھ پڑھے لکھے ہنر مند نوجوان بیروزگار ہیں، 60 فیصد عوام کو دو وقت کی آبرومندانہ روٹی میسر نہیں، ایک گھر میں اوسطا 7 افراد زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں، 7 کروڑ آبادی ایک کمرے کے مکان میں رہتی ہے، 65 فیصد صنعتیں بجلی نہ ہونے کے سبب بند پڑی ہیں، ہزار میں سے 90 بچے ایک سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی مر جاتے ہیں، 5 سال سے کم عمر ایک کروڑ 60 لاکھ بچوں کو ناکافی غذا ملتی ہے، اسکول جانے کے قابل تین کروڑ سے زائد بچے تعلیمی سہولیات سے ناآشنا ہیں، 8 کروڑ افراد لکھنا پڑھنا ہی نہیں جانتے، تعلیم صحت پانی بجلی جیسی بنیادی سہولیات ناپید ہو چکی ہیں، روٹی کم افراد زیادہ ہیں، اب جب کہ عوام کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے اور مملکت کے چاروں ستونوں سے وابستہ فیصلہ ساز بھی بند گلی میں کھڑے ہیں، انقلاب انقلاب کے نعروں کے سہارے قوم کے کندھوں پر اپنی بقاء کی جنگ لڑنا چاہتے ہیں، اب بھی وقت ہے بدلنے کا خود کو بدلنے، انا پسند نظام اور طبقاتی نظام کو بدلنے کا، یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ اس بار بھی جمہوریت کا نعرہ لگا کر اقتدارمیں آنے والوں نے عوام کی حالت زار پر ترس نہ کھایا تو معاف کیجئے گا کہ آج کی جمہوریت کا بھی وہی حشر ہو گا جو بھٹو کے روٹی کپڑا اور مکان، ضیاء الحق کی سائیکل سواری، نواز شریف کے بھاری مینڈیٹ اور پرویز مشرف کے سات نکاتی ایجنڈے کا ہوا۔
خبر کا کوڈ : 82355
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش