0
Friday 25 Oct 2019 13:31

70 بریلوی علماء اور مشائخ کی عمران خان کو آزادی مارچ کے مقابلے میں امن مارچ کی پیشکش

70 بریلوی علماء اور مشائخ کی عمران خان کو آزادی مارچ کے مقابلے میں امن مارچ کی پیشکش
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

سیاسی گہما گہمی نے پاکستانی معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ اس دفعہ لبرل سیاسی جماعتوں کی بجائے دیوبندی مسلک سے تعلق رکھنے والے مولانا فضل الرحمان نے آزادی مارچ کا اعلان کر رکھا ہے۔ 2014ء میں لیگی حکومت کیخلاف طویل دھرنا دیا تھا، انکے ساتھ بریلوی مسلک کے ڈاکٹر طاہرالقادری بھی تھے اور مولانا فضل الرحمان نے نواز شریف حکومت کا ساتھ دیا تھا۔ اب جب عمران خان کی حکومت کو دیوبندی جماعت کی جانب سے دباؤ کا سامنا ہے تو بریلوی علماء اور مشائخ نے وزیراعظم سے ملاقات کے دوران انہیں اپنی حمایت کا یقین دلایا ہے۔ میں مسئلہ کشمیر خصوصاً وزیرِاعظم کی جانب سے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پرکشمیرکی صورتحال کو اجاگر کرنے، دین اسلام کے اصل تشخص کو پیش کرنے، ناموس رسالت کے تحفظ اور اسلامو فوبیا کے تدارک کے حوالے سے کی جانے والی تاریخی تقریر، ملک میں نوجوان نسل کو صوفیائے کرام کی تعلیمات سے روشناس کرانے کے سلسلے میں وزیرِاعظم کی جانب سے یونیورسٹیوں میں سیرت چئیرز کے قیام اور القادر یونیورسٹی کے قیام جیسے منصوبوں، غرباء اور نادار افراد کے لئے ملک بھر میں احساس پروگرام کے تحت لنگر خانوں کا قیام، اسلام کی ترویج، اسلامی شخصیات اور اسلام کے تشخص کو اجاگر کرنے کے لئے ترکی اور ملائیشیا کے تعاون سے میڈیا ہاؤس کے قیام کے منصوبے اور ملکی استحکام و تعمیر و ترقی کیلئے موجودہ حکومت کے اقدامات اور ملکی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔

ذرائع کے مطابق جمعیت علمائے اسلام (ف) کی جانب سے احتجاجی مارچ کی تیاریوں کے دوران بریلوی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے 70 سے زائد علما نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات میں امن مارچ کرنے کی پیشکش کردی۔ اس حوالے سے اجلاس میں شریک شخصیت نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ اجلاس کے بعد علما نے جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے آزادی مارچ کی کال کو مسترد کیا اور اسے ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوششش قرار دیا۔ ایک سینئر مذہبی رہنماء نے کہا کہ جب اپوزیشن آزادی مارچ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، تو ہم انہی تاریخوں میں امن مارچ منعقد کرسکتے ہیں۔ اجلاس میں وفاقی وزیر مذہبی امور نور الحق قادری اور پنجاب کے وزیر برائے محکمہ اوقاف پیر سعید الحسن بھی اجلاس میں شریک تھے۔ وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کرنے والے نامور علما میں گولڑہ شریف کے پیر شمس الدین، پیر ناظم الدین جامی، سلطان باہو کے پیر سلطان احمد علی، راولپنڈی کے پیر عظمت سلطان قادری اور پیر سلطان العارفین شامل تھے۔ اجلاس کے دوران علما نے آزادی مارچ کے خلاف وزیراعظم عمران خان کےموقف کی حمایت کی۔ اس حوالے سے اجلاس میں شریک سینئر عالم نے کہا کہ وزیراعظم ہم سب آپ کے ساتھ ہیں اور ہم میں سے ہر ایک کے ہزاروں پیروکار ہیں۔

وفد سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعظم نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ تمام انسانوں کے لئے مشعل راہ ہے، جس کی پیروی کرکے ہم صحیح معنوں میں مکمل مسلمان اور کامیابیوں کی منازل طے کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے نبی کریم ﷺ کی حیاتِ مبارکہ کا ہر پہلو تاریخ میں محفوظ ہے، جس کی پیروی کرکے ہم اپنی زندگیوں کو سنوار سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جامعات میں سیرت چئیرز کے قیام کا مقصد یہ ہے کہ آنحضور ﷺ کی حیاتِ مبارکہ اور اسلام کے بارے میں جامع تحقیق کی جائے اور طالب علموں اور نوجوان نسل کواس سے آگاہی فراہم کی جائے۔ وزیرِ اعظم نے کہا کہ اگر ہم نے اقوام عالم میں اپنا مقام حاصل کرنا ہے اور عظیم قوم بننا ہے تو ہمیں ریاست مدینہ کے اصولوں پر عمل پیرا ہونا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پر ڈھالنے کا خواب ان کا دیرینہ مشن ہے جس کا اظہار انہوں نے حکومت کی باگ دوڑ سنبھالنے کے بعد کیا تاکہ اس خواب کو عملی جامہ پہنانے کی طرف پیش قدمی کی جا سکے۔ وزیرِ اعظم نے کہا کہ جدید ٹیکنالوجی کے دور میں نوجوان نسل کو بیرونی ثقافتی یلغار سے محفوظ رکھنے اسلام کے تشخص اور اپنی روایات اورتہذیب و تمدن سے روشناس کرانے کے لئے ضروری ہے کہ قومی تشخص اور خصوصاً صوفیائے کرام کی تعلیمات کو اجاگر کیا جائے۔

وفد میں شامل مختلف علمائے کرام اور مشائخ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے وزیرِاعظم کی اقوام متحدہ میں کی جانے والی تاریخی تقریر پر وزیرِاعظم کو بھرپور خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ وزیرِاعظم نے اپنی تقریر میں نہ صرف پاکستانی عوام بلکہ پوری امت کی ترجمانی کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیرِاعظم نے جس مدبرانہ اور ماہرانہ اندانہ میں اسلام کی تعریف کرتے ہوئے یہ کہا کہ پوری دنیا میں صرف ایک ہی اسلام ہے، اس نے نہ صرف اسلام کے اصل تشخص کی ترجمانی کی ہے، بلکہ دنیا بھر میں پھیلے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کی ہے۔ علماء نے کہا کہ آپ کی تقریر نے جہاں آنکھوں کو کھولا ہے وہاں دلوں کو کھولا ہے۔ علمائے کرام نے وزیرِ اعظم کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ وزیرِ اعظم کی تاریخی تقریر نے جہاں انہیں مسلمانوں کا لیڈربنا دیا ہے، وہاں ہر پاکستانی کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے۔ وفد نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اٹھانے، اسلام کے اصل تشخص کو اجاگر کرنے، ناموس رسالت کے تحفظ اور کشمیر کے مسئلے پر علمائے کرام اور مشائخ وزیرِاعظم کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مختلف سلسلوں سے تعلق رکھنے والے مشائخ اور انکے لاکھوں پیروکار وزیرِاعظم کے وژن کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ان کے ساتھ ہیں اور دعاگو ہیں کہ وہ اپنے مشن میں کامیاب ہوں۔

مشائخ کرام نے وزیر اعظم کی جانب سے القادر یونیورسٹی اور مختلف جامعات میں سیرت چئیرز کے قیام کے اقدام کو بھی سراہا۔ انہوں نے نوجوان نسل کو صوفیا ئے کرام کی شخصیات اور انکی تعلیمات سے روشناس کرانے کے ضمن میں مختلف تجاویز پیش کیں۔ مشائخ کرام نے اوقاف کی املاک کے بہتر انتظام کے حوالے سے حکومتی کاوشوں خصوصا ً اوقاف کی املاک کو عوامی فلاح و بہبود کے لئے برؤے کار لانے اور درگاہوں کی آمدنی کو زائرین کے لئے بہتر سہولیات کی فراہمی کے لئے استعمال کرنے کے اقدامات کو سراہا اور اس ضمن میں مختلف تجاویز بھی پیش کیں۔ مشائخ کرام نے ملکی استحکام اور تعمیر و ترقی کے ضمن میں وزیرِ اعظم کو اپنی مکمل سپورٹ اور تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ ملاقات کے اختتام پر ملکی ترقی و استحکام اور خصوصاً پاکستان کو ریاستِ مدینہ کی طرز پر ڈھالنے کے لئے وزیرِ اعظم کی کاوشوں کی کامیابی کے لئے خصوصی طور پر دعا کی گئی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے اقتدار میں آنے والے عمران خان آزادی مارچ اور دھرنے کو ناکام بنانے اور حکومت بچانے میں کیسے کامیاب ہوتے ہیں؟۔
خبر کا کوڈ : 823907
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش