0
Sunday 27 Oct 2019 06:19

نظام عدل کے سیاہ پوشو، عدالتوں سے ترازو ہٹاؤ

نظام عدل کے سیاہ پوشو، عدالتوں سے ترازو ہٹاؤ
تحریر: عمران خان

جب آپ کسی کالے کوٹ والے جج یا وکیل کو دیکھتے ہیں تو کیا خیال آتا ہے کہ نظام عدل پہ مارے جانے والے کسی تاریخی شب خون کے احتجاج میں اس نے یہ سیاہ لباس پہنا ہے۔؟ یا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ عدالتی نظام کے نمائندوں نے یہ سیاہ لباس اس لیے پہنا ہے کہ ماضی میں ہونے والے کسی غلط فیصلے کا یہ آج بھی کوئی دکھ یا غم محسوس کر رہے ہیں؟ تو آپ سراسر غلط ہیں۔ موجودہ حالات کے پیش نظر ممکن ہے کہ آپ یہ سمجھیں کہ یہ لوگ سیاہ لباس اس لیے پہنے ہیں کہ اس نظام پہ پڑے بے گناہ خون کے دھبے، عاجز اور مسکین شہریوں کی آہ و بکا، حقداروں کی سسکیاں یا پھر اس نظام کے چہرے پہ دولت، اختیار اور طاقت کے جوتوں کے نشانات ظاہر نہ ہوں تو ممکن ہے آپ درست ہوں مگر کسی حد تک۔ عدالتی نظام کے نمائندے شروع سے ہی نہایت زیرک اور دوراندیش واقع ہوئے ہیں، جو چار صدیاں گزر جانے کے باوجود بھی بادشاہ کے حکم پہ پہنے گئے سیاہ لباس کو یونیفارم بنا کر ابھی تک سینے سے لگائے ہوئے ہیں، خبر نہیں اس سوگوار لباس سے کیا پیغام دینا مقصود ہے کہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی ہم شاہی احکامات کے پابند اور پاسدار ہیں۔؟ یا نظام عدل آج بھی طاقت اور اقتدار کے ایوانوں میں تابعدار ہے۔؟ 1694ء میں بادشاہ ولیم نے تو محض ایک دو دن کے سوگ کیلئے وکلاء اور ججز کو کالے کپڑے پہننے کی ہدایت کی تھی۔ معاملہ یہ تھا کہ ملکہ مریم چیچک کی بیماری کے ہاتھوں ہلاک ہو گئیں تو بادشاہ ولیم نے ججز اور عدالتی نظام سے منسلک افراد کو ہدایت کی کہ وہ ملکہ کیلئے عوامی سوگ کی علامت کے طور پر سیاہ لباس پہنیں، ججز اور عدالتی عملے نے حکم شاہی کے سامنے سر تسلیم خم کیا۔ یعنی طاقت اور اقتدار کے سامنے عدالتوں کا سر جھکانا کوئی نئی یا انوکھی بات نہیں ہے، بلکہ صدیوں سے یہی ہوتا آ رہا ہے کہ عدالت کرنے والوں نے طاقت اور اقتدار رکھنے والوں کے حکم پہ لباس بدلے ہیں، رنگ بدلے ہیں، فیصلے بدلے ہیں۔ بس نہیں بدلا تو انہوں نے اپنی روایت نہیں بدلی، سرشت نہیں بدلی۔

پاکستان کی عدالتی تاریخ جن ’’کارناموں‘‘ سے عبارت ہے، اس کو دیکھ کر تو عام شہری یہی حسرت رکھ سکتا ہے کہ کاش کوئی جج، کوئی وکیل اپنے کالے یونیفارم کی یہ توجیہہ پیش کرتا کہ ہم سراپا احتجاج ہیں کہ اس نظام انصاف سے لوگوں کو انصاف میسر نہیں، کہ ہم قاتلوں کو سزائیں دینے پہ اختیار نہیں رکھتے، کہ ہم کمزوروں کے حقوق، ان کے جان و مال پہ ڈاکے مارنے والوں کو نشان عبرت بنا دینے سے قاصر ہیں۔ ہم نے کالے لباس اس لیے پہنے ہیں کہ ہم لٹیروں کو تحفظ اور مظلوموں و محروموں کو پابند سلاسل کرنے پہ مجبور ہیں۔ ہمارے قلمدان اہل اقتدار کے ہاں گروی رکھے ہیں، عدالتی نظام سے شاکی شہریوں کی یہ حسرت، حسرت ہی ہے۔ نظام عدل کا کوئی نمائندہ بغاوت پہ آمادہ نہیں، کوئی اتنی اخلاقی جرات کا حامل نہیں کہ ببانگ دہل ٹھیک کو ٹھیک اور غلط کو غلط کہے۔ کوئی جوابدہ نہیں، کسی کو سوال اٹھانے کی اجازت نہیں، انگلی اٹھانے والے کو ہاتھ کے کٹ جانے کا خوف لاحق ہے۔ سوال کرنے والے کو زبان بندی کی سزا کا سامنا ہے۔ فرسودہ نظام عدل کے خلاف سر اٹھانے والے کو سر کے کٹ جانے کی فکر۔ ایسے میں بھلا کون بات کرے ان لوگوں کی، ان شہریوں کی کہ جو موجودہ عدالتی نظام کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔؟ پاکستان کے عدالتی نظام کی تاریخ اتنی ہی سیاہ ہے کہ جتنی اسی نظام کے نمائندے لباس پہنے ہیں۔ 

اس نظام نے اگر سولی پہ چڑھانا ہو تو منتخب وزیراعظم کے خلاف بھی عدالت کو اس بات کے ٹھوس شواہد مل جاتے ہیں کہ وزیراعظم کی ایماء پہ فلاں کو قتل کیا گیا۔ (ایما پہ)۔ اور اگر کلین چٹ دینی ہو تو سانحہ ساہیوال کے قاتل بھی بری الذمہ قرار پاتے ہیں، جی۔ دن دیہاڑے، سرعام، معصوم بچوں کے سامنے، ان کے بے گناہ والدین کو گولیوں سے چھلنی کر دیا جائے، عینی شاہدین (بچوں) کے چہرے اور لباس پہ مقتولوں کے لہو کے چھینٹے ہوں۔ آلہ قتل سامنے ہوں۔ قتل کی تصاویر اور ویڈیوز موجود ہوں، مگر ان سب کے باوجود بھی عدالت شک کا شکار رہتی ہے۔ نہ قتل کا یقین کرتی ہے، نہ مقتولوں کے بچوں کی باتوں کا یقین کرتی ہے۔ بس شک کا شکار ہوتی ہے، اسی شک کا فائدہ قاتلوں کو دیتی ہے، پھر ان قاتلوں کو آزادی کے پروانے جاری کرتی ہے۔ یہ مقتولین کے ورثاء بچوں کی خوش نصیبی ہے کہ عدالت کو ان کے گناہ گار ہونے پہ کوئی شک نہیں گزرا۔ عدالت کو یہ شک نہیں گزرا کہ یہ تینوں بچے دہشت گرد ہیں۔ (گرچہ مستقبل میں ان بچوں کے دہشتگرد بننے کے قوی امکانات موجود ہیں) وگرنہ ممکن ہے عدالت شک کی بناء پہ بچوں کو بھی موردالزام ٹھہراتی، اس شک کی پاداش میں ساہیوال کی اسی شاہراہ پہ جہاں انہیں یتیم کیا گیا، لاوارث کیا گیا، اسی مقام پہ ان تینوں بچوں کو بھی گولیوں سے چھلنی کرنے کا حکم جاری کر دیتی۔ مجھے یقین ہے کہ اگر عدالت یہ فیصلہ بھی جاری کرتی تو بھی کہیں سے کوئی آواز نہیں اٹھنی تھی۔ کوئی صدائے احتجاج بلند نہیں ہونی تھی۔ پہلے کب کسی نے آواز بلند کی ہے بھلا۔؟ 

معاشرتی بے حسی ملاحظہ فرمائیں۔ سانحہ ساہیوال دہشتگردی یا ٹارگٹ کلنگ کا کوئی عام واقعہ نہیں تھا بلکہ ایک بے قصور فیملی کو معصوم بچوں کی موجودگی میں سی ٹی ڈی کے اہلکاروں نے بڑی بیدردی کے ساتھ قتل کر دیا تھا۔ اس قتل کی ویڈیوز انٹرنیٹ پہ موجود ہیں۔ زندہ بچ جانے والے بچوں کے کپڑوں اور چہروں پہ اپنے والدین اور بڑی بہن کا خون لگا تھا۔ مقتولین کی جانب سے ماسوائے آہ و بکا اور فریاد کے کوئی مزاحمت نہیں کی گئی تھی۔ مقتول فیملی کی گاڑی سے کوئی غیرقانونی چیز برآمد نہیں ہوئی۔ سی ٹی ڈی نے ابتدا میں موقف اختیار کیا تھا کہ مرنے والے تمام افراد دہشتگرد تھے جبکہ تینوں بچوں کو ان کے شکنجے سے آزاد کرایا گیا ہے۔ مقدمہ دہشتگردی کی عدالت میں چلا۔ ان بچوں کو کہ جنہیں ریاست نے یتیم کیا، ان کے سر پہ ہاتھ رکھ کے عوامی نمائندوں نے دعوے کئے کہ ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔ مجرم قانون کے شکنجے سے بچ نہیں سکیں گے، آہنی ہاتھوں سے نمٹیں گے۔ مگر محض آٹھ ماہ کے عرصے میں سارا کچھ اسی طرح بدل گیا کہ عدالت نے اس سانحہ کے ملزمان کو شک کی بناء پہ بری کرنے کا فیصلہ سنا دیا۔ معاشرتی بے حسی کا پیمانہ دیکھیں عوامی نمائندگی کی دعویدار نہ کسی سیاسی جماعت نے ہڑتال یا احتجاج کی کال دی، نہ ہی کسی دینی، فلاحی تنظیم نے احتجاجی تحریک کا اعلان کیا۔

نہ ہی عدالتی نظام کے ان سیاہ پوشوں کو اپنے فیصلے پہ اتنیعار یا شرم محسوس ہوئی کہ فیصلہ سنانے والا مستعفی ہوتا، یا فیصلے سے برائت کا اظہار کرتے۔ پاکستان کے کسی شہر میں کسی بار ایسوسی ایشن نے نظام انصاف پہ کلنک کے مترادف اس فیصلے کے خلاف کسی احتجاج کی کال نہیں دی۔ کسی شہر کی عدالت احتجاجاً بند نہیں ہوئی۔ کسی شہر میں وکلاء  نے عدالتوں کا بائیکاٹ نہیں کیا۔ سابق ججز کی کسی تنظیم نے فیصلے پہ اظہار ندامت کیلئے یا یتیم بچوں سے اظہار یکجہتی کیلئے کسی مظاہرے کا اعلان نہیں کیا۔ کسی جج نے فیصلے یا اس نظام کے خلاف پٹیشن دائر کرنے کی بات نہیں کی۔ عدالت نے جس طرح سانحہ ساہیوال کے کیس کا فیصلہ سنایا ہے، اس فیصلے کے اندر اگر باقی رہنے والے بچوں کو بھی سزائے موت سنائی جاتی، تو بھی اس فیصلے کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھنی تھی، اس کی وجہ ماسوائے اس کے اور کوئی نہیں کہ ریاست پاکستان کے شہری جسے نظام عدل قرار دیکر حصول انصاف کی توقع رکھتے ہیں، اس نظام کے نمائندوں کیلئے یہ تو سیدھا سیدھا کاروبار ہے۔ کوئی ایک فیصلہ، کوئی ایک مثال ایسی نہیں ملتی کہ جس میں طاقت و اختیار رکھنے والے کو اپنے جرم پہ عبرت کی علامت بنایا گیا ہو، یا کسی محروم، مستعضف، مجبور کو انصاف دیکر یہ نظام سرخرو ہوا ہو۔ 

زیادہ دن نہیں گزرے، ایک ذہنی بیمار، نیم پاگل، سیدھے سادھے غریب شخص کو اے ٹی ایم مشین سے پیسے نکالنے کے جرم میں مار مار کے مار دیا گیا۔ مسیحائی کی قسم لینے والے ضمیر فروش ڈاکٹر کو اس کی میت پہ تشدد کے نشان نہیں ملے اور ورثا کو انصاف۔ صلاح الدین کے والد کو عدالت میں پیش ہو کر خود معافی نامہ پیش کرنا پڑا۔ (یہ سوال اپنی جگہ کہ صلاح الدین قتل کیس دو افراد کے مابین آپسی معاملہ تھا یا شہری اور ریاست کے مابین تحفظ اور حقوق کا معاملہ)۔ شاہ زیب قتل کیس کسے یاد نہیں ہو گا، شاہ رخ جتوئی اور اس کے ساتھی کی سزائے موت ہائیکورٹ میں پہنچی تو کالعدم قرار دے دی گئی۔ 300 غریب مزدور فیکٹری کے اندر زندہ جلا دیئے گئے مگر نظام انصاف مجرموں کے تعین اور انہیں سزا دینے سے عاجز رہا۔ ماڈل ٹاؤن میں حاملہ خواتین کے چہروں پہ گولیاں مارکر انہیں بیدردی سے قتل کر دیا گیا، طویل عرصہ گزرنے کے باوجود عدالتی نظام قاتلوں کے بارے میں گومگو کی کیفیت میں رہا اور تو اور میڈیا کے سامنے درجنوں افراد کے قتل کا اقرار کرنے والے کے خلاف بھی عدالتی نظام کو کوئی ثبوت نہ مل سکا۔ نقیب اللہ محسود قتل کیس میں تمام تر شواہد و ثبوت سامنے آجانے کے باوجود بھی عدالتی نظام مقتول کو انصاف دینے کے بجائے قاتلوں کو تحفظ دینے میں زیادہ مخلص دیکھائی دیا۔ یہی نہیں بلکہ بھاری مقدار میں کالا دھن بیرون ملک منتقل کرنے والی ماڈل گرل ایان علی کو جس کسٹم انسپکٹر نے گرفتار کیا، اسے سرعام قتل کر دیا گیا۔

ہمارے عدالتی نظام کو ایان علی کے خلاف نہ ہی کوئی ثبوت مل سکا کہ اسے سزا دے اور نہ ہی انسپکٹر اعجاز چوہدری کے قاتل مل سکے کہ انہیں سولی پہ لٹکائے اور تو اور اسلامی دنیا کی پہلی منتخب خاتون وزیراعظم اور پاکستان کی دو مرتبہ وزیر اعظم رہنے والی خاتون کو ہزاروں افراد کے درمیان قتل کر دیا گیا۔ ہمارا نظام آج تک ان کے قاتلوں کا تعین نہیں کر سکا، یہی نہیں بلکہ فرائض سے مجرمانہ غفلت برتنے پہ جن افراد کو نچلی عدالت نے سزا بھی سنائی تو ان کی سزائیں کالعدم قرار دیکر ان کی رہائی کے پروانے جاری کر دیئے۔ ملک کے کونے کونے میں دہشتگردوں نے بے گناہ شہریوں کے خون کے ساتھ ہولی کھیلی مگر مجال کہ کسی ایک دہشتگرد کو قرار واقعی سزا دیکر اسے مثال بنایا گیا ہو۔ پاکستان کی سیاہ عدالتی تاریخ میں کبھی جمہوریت پہ شب خون کی تائید نظریہ ضرورت سے کی گئی۔ کبھی انہی عدالتوں نے آئینی شکنی کی تائید و توثیق کی۔ کبھی عوامی جمہوری حکومتوں کے تختہ الٹنے کو درست اقدام قرار دیا تو کبھی چور دروازے سے گھس آنے والے آمروں کی اطاعت میں فخر محسوس کیا۔ انہی عدالتوں نے معمولی قرضے لینے والے غریب شہریوں کے گھروں کی نیلامیوں کے فیصلوں کو درست قرار دیا تو انہی عدالتوں نے سینکڑوں کروڑ قرضے معاف کرانے والوں کو درگزر بھی کر دیا۔ کبھی قاتلوں کو چور دروازوں سے باہر نکالا تو کبھی چور، لٹیرے حکمرانوں کو محفوظ راستے فراہم کئے۔

گزشتہ روز سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی ضمانت کی درخواست طبعی بنیاد پہ منظور کرکے انہیں رہا کیا گیا ہے۔ کیا عدالت کو ان کی بیماری کے بارے میں کوئی شک نہیں گزرا۔؟ ویسا شک کہ جیسا سانحہ ساہیوال کے مجرموں کے تعین میں گزرا۔ جانبدارانہ عدالتی نظام پاکستان کے شہریوں کے دلوں میں طبقاتی خلیج کے فرق کو مسلسل اور مزید گہرا کر رہا ہے۔ عوام یہ سمجھتے ہیں کہ یہ نظام انصاف نہیں بلکہ مقتدر، بااثر افراد کی محافظت کا نظام ہے۔ کسی سفر نامے میں پڑھا تھا۔ ''اس دکان کے باہر پرانے گھڑیال اور ان کی سوئیاں لٹکی ہوئی تھیں۔ میں بھی اپنی گھڑی ٹھیک کرانے کیلئے دکان کے اندر چلا گیا۔ وہاں بیٹھے شخص کو بتایا کہ اپنی گھڑی ٹھیک کرانی ہے تو اس نے بتایا کہ ہم گھڑیاں ٹھیک نہیں کرتے۔ میں نے پوچھا اگر آپ گھڑیاں ٹھیک نہیں کرتے تو کیا کرتے ہیں۔؟ جواب ملا کہ ہم ختنے کرتے ہیں۔ میں نے پوچھا تو پھر آپ نے دکان کے باہر گھڑیال، سوئیاں اور گھنٹے کیوں لٹکائے ہیں۔؟ تو اس نے جواب دینے کے بجائے الٹا مجھ سے سوال کیا کہ  پھر آپ ہی بتائیں ۔ ہم کیا لٹکائیں۔؟'' نظام عدل کے ایوانوں کے باہر ترازو اور اس کے نمائندوں کے تن پہ سیاہ لباس کا معاملہ بھی کچھ اسی طرح کا ہے۔ عدالتی نظام کے سیاہ پوشوں کو چاہیئے کہ ترازو ہٹا کر کچھ اور لگائیں جو صحیح معنوں میں پاکستان کے عدالتی نظام کی نمائندگی کرے۔
خبر کا کوڈ : 824147
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش