0
Sunday 27 Oct 2019 22:21

اگلا خلیفہ کون ہوگا؟

اگلا خلیفہ کون ہوگا؟
تحریر: سید اسد عباس

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ ان کی سپیشل فورسز نے داعش کے سربراہ ابوبکر بغدادی کو قتل کر دیا ہے، ان کا کہنا تھا کہ بغدادی نے خودکش جیکٹ پہنی ہوئی تھی وہ پھٹنے سے بغدادی کی شناخت ممکن نہیں ہے، دھماکے کے سبب سرنگ بغدادی کے اوپر گری جس کے سبب اس کی باقیات بھی نہیں مل پائی ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی پریس کانفرنس میں بتایا کہ اس مشن کے لیے ہمیں روس، عراق ، کردوں کا تعاون حاصل رہا، یہ ایک مشکل مشن تھا جسے بغیر کسی نقصان کے پایہ تکمیل تک پہنچا دیا گیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ بغدادی ہماری افواج کے حملے کے سبب چلا رہا تھا اور پھر جب اس نے دیکھا کہ بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں بچا تو اس نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ بغدادی پر حملے کا واقعہ شام کے علاقے ادلب میں پیش آیا جہاں اس وقت شامی حکومت کا کنٹرول نہیں ہے۔ ابو بکر البغدادی کے مارے جانے کی اطلاعات اس سے قبل بھی کئی مرتبہ منظر عام پر آئی ہیں روس، ایران، عراق اور شام سبھی نے ابوبکر کے قتل کا دعوی کیا ہے تاہم اب چونکہ امریکہ کہ رہا ہے کہ بغدادی مارا گیا ہے تو دنیا کو یقین کرنا چاہیے کہ اب دوبارہ بغدادی کا تذکرہ کہیں سننے کو نہیں ملے گا۔

اس کی دو وجوہات ہیں، ایک وجہ تو یہ ہے کہ امریکا کی جانب سے کسی بڑے دہشت گرد پر حملے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے، اس سے قبل امریکی ہیلی کاپٹروں نے پاکستان میں اسامہ بن لادن کو قتل کرنے کا بھی دعوی کیا تھا، جس کے بعد اسامہ کے بارے کوئی خبر سننے میں نہیں آئی، دونوں واقعات میں ان دہشتگرد تنظیموں کے سربراہان کے جسم عوام تک نہیں پہنچے، مشرق و مغرب کے عوام کو فقط انہی خبروں پر ہی یقین کرنا تھا جو امریکہ ایک ڈرامائی صورت میں بیان کر رہا تھا۔ اسامہ بن لادن کی لاش تو ملی تھی تاہم اسے سمندر برد کر دیا گیا، تاہم بغدادی کی لاش کو بے نام و نشان کرنے کے لیے اس مکان کو ہی مکمل طور پر مسمار کر دیا گیا، جس میں بغدادی ساکن تھا۔
دوسری وجہ اسامہ بن لادن اور بغدادی کے منظر عام پر آنے یا لائے جانے کے حوالے سے سامنے آنے والے حقائق ہیں۔ افغان جہاد میں اسامہ اور مغرب کا یارانہ اور پھر جہاد کے خاتمے کے بعد ان کی دشمنی اور اسامہ کا پراسرار قتل اس حوالے سے بہت کچھ تحریر کیا جاچکا ہے۔ ایسے ہی بغدادی کے بارے بھی اطلاعات موجود ہیں کہ کیسے وہ عراق کی ایک جیل میں امریکیوں کے ہاتھ چڑھا، کیسے اسے ایک منصوبہ کے تحت بعثی فوجی قیدیوں کے ہمراہ رکھا گیا اور پھر ان سب قیدیوں کو ایک ایک کرکے چھوڑ دیا گیا۔

اسی ابوبکر بغدادی نے 2010 میں کیسے ان قیدیوں نے ایک تنظیم کی بنیاد رکھی اور کس طرح یہ لوگ عراق کے ایک وسیع علاقے پر قابض ہوئے یہ سب باتیں تاریخ کا حصہ ہیں۔ روس نے تو مغرب اور داعش کے روابط کے عملی ثبوت بھی فراہم کیے کہ کیسے شام کے علاقوں سے تیل نکل کر ترکی جاتا ہے اور وہاں سے یورپ اور مغرب کو سپلائی کیا جاتا ہے۔ اب ظاہر ہے جس کو خود بنایا اور ختم کیا اس کے بارے میں بھلا امریکہ کی اطلاع کو کون جھٹلا سکتا ہے۔ یہ امر واضح ہے کہ داعش امریکا کا ماسٹر پیس تھا جو بربریت میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا، گلے کاٹنا، خواتین کو باندیاں بنانا اور ان کی منڈیاں لگانا، بچوں کو قتل کرنا، بچوں سے قتل کروانا، زندہ جلانا یہ وہ واقعات ہیں جنھوں نے ان کی پوری دنیا میں دہشت بٹھائی۔ ایک تیر سے کئی  شکار عوام ویسے خوفزدہ ہو گئے، فوجیں بھیجنے، ممالک کو اپنے زیر تسلط لانے اور اسلحہ بیچنے کا بہترین جواز مل گیا اور اسلام کی بدنامی تو بونس میں۔ داعش شاید آج بھی موجود ہوتے اور ان کی خلافت کی سرحدیں اردن، ایران اور دیگر اسلامی ممالک کو چھو رہی ہوتیں تاہم اللہ نے اپنے خصوصی فضل و کرم کے ساتھ ایک ایسے مقاومتی گروہ کو پیدا کیا جس نے اس گروہ کے خاتمے کا آغاز کیا۔

داعش کی دہشت و بربریت اس گروہ مقاومت کے سامنے ڈھیر ہو گئی۔ ابو بکر البغدادی کو عراق میں شکست کا سامنا ہوا تو ان کو شام پہنچایا گیا تاکہ وہاں جا کر خلافت اسلامیہ کے بچے کھچے حصے کو سنبھالیں۔ شام میں مقاومت پہلے سے جاری تھی البغدادی یہاں بھی پاوں نہ جما سکا۔ شام سے داعش کے خاتمے کا تمغہ امریکہ، کرد اور جبہۃ النصرۃ بھی اپنے سینے پر سجاتے ہیں، تاہم درحقیقت ان کی کمر عراق میں توڑی گئی جہاں ان کی خلافت قائم تھی۔ شام میں تو یہ بطور فراری ہی آئے تھے، ہاں یہاں موجود داعش کو روس نے فقط تین ماہ میں زیر زمین جانے پر مجبور کر دیا۔ یہ ایک انتہائی افسوسناک امر ہے کہ مغرب کو مسلمانوں میں سے ایسے لوگ با آسانی دستیاب ہو جاتے ہیں، جن کو بوقت ضرورت استعمال کیا جاتا ہے اور پھر ان کا خاتمہ کرکے دنیا میں اپنی بہادری کے جھنڈے گاڑے جاتے ہیں۔ اسامہ بن لادن، ایمن الظواہری، ابو مصعب الزرقاوی اور ابوبکر البغدادی اسی قبیل کے لوگ تھے، جو نکلے تو جہاد کرنے تھے اور ان کی انتہا بطور دہشت گرد ہوئی تاہم ان کے اس سفر کے دوران اور اس ذریعے سے مسلم ریاستوں پر جو افتاد گرائی گئی وہ بھی کسی سے پنہاں نہیں ہے۔

افغانستان روس کے جانے کے کئی برسوں بعد بھی آج تک اپنے قدمون پر کھڑا نہیں ہو پایا ہے۔ عراق، شام ، لیبیا، مصر، یمن اور سوڈان کے حالات بھی کسی سے پنہاں نہیں ہیں۔ یہ سب وہ ممالک ہیں جہاں کسی نہ کسی دور میں القاعدہ اور داعش کے ٹھکانے تھے۔ آج ان ممالک کے عوام کو سر چھپانے کی جگہ نہیں ملتی ہے۔ القاعدہ اور داعش تو وہ نام ہیں جو دنیا کے سامنے آئے ہیں، اس طرح کی دسیوں فرقہ وارانہ اور مذہبی تنظیمیں موجود ہیں، جو مختلف عناوین سے متعدد اسلامی ممالک میں موجود ہیں اور ان ممالک نیز دنیا کے امن کے لیے ایک مسلسل خطرہ ہیں۔ ان سب تنظیموں کے مشترکات میں سے ایک نکتہ اشتراک ان سب کا افغان جہاد میں شریک رہنا ہے۔ افسوسناک تر یہ ہے کہ امریکہ اور مغرب کے پاس ان جہادی بغدادیوں کے علاوہ سیاسی بغدادی بھی بکثرت موجود ہیں۔ ایک گیا تو اس کی جگہ دوسرے نے لے لی۔ دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ اب کسے مسلمانوں کے خلیفہ کے طور پر متعارف کرواتا ہے اور اس کو اپنے انجام تک پہنچنے میں کتنا وقت اور خون مسلم درکار ہوگا۔ ہم منتظر ہیں آپ بھی انتظار کیجیے۔
 
خبر کا کوڈ : 824268
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش