0
Monday 28 Oct 2019 09:12

عراق میں کیا دیکھا؟

عراق میں کیا دیکھا؟
تحریر: نادر بلوچ

عراقی ویزوں کی جھجنٹ کے باعث دو فلائٹس کی ٹکٹ منسوخ کرانے کے بعد بلآخر تیسری فلائٹ لینے میں کامیاب ہوا اور یوں 12 اکتوبر کی صبح کو اسلام آباد ائیرپورٹ سے نجف کیلئے عازم سفر ہوا، جیسے ہی جہاز نے اڑان بھری تو ذہن میں اپنے صحافی دوستوں کے پیغامات آنے لگے کہ عراق مت جاؤ، حالات بہت خراب ہیں، 100 سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے ہیں، بغداد سمیت کئی شہروں میں کرفیو نافذ ہے، کیوں اپنے آپ کو مشکل میں ڈال رہے ہو، ان کو یہی جواب دیا تھا کہ ان شاء اللہ اربعین کے دنوں میں عراق میں امن ہو جائیگا اور مظاہرین ان دنوں کا ضرور احترام کریں گے۔ چار گھنٹے کی فلائٹ کے بعد کویت ائیرپورٹ پر سات گھنٹے کا عارضی قیام کیا اور اس کے بعد نجف کیلئے روانہ ہوئے، یوں دن تقریباً تین بجے ہم نجف ائیرپورٹ پہنچ چکے تھے۔ ائیرپورٹ سے نکل کر ٹیکسی پکڑی جس نے آدھے گھنٹے میں مجھے اپنی منزل پر پہنچا دیا، یوں اگلے دن نجف میں زیرتعلیم پاکستانی طالبعلم ساجد خان کے ہمراہ قرب و جوار کی زیارات کیں اور اگلے ہی روز ہم مسجد کوفہ پہنچے، جہاں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی، بڑی مشکل سے نماز ظہرین ادا کی اور حاضری دیکر ہم واپس نجف آگئے۔

اگلی شام کو مشی (واک) کیلئے روانہ ہوئے، اس بار گرمی کافی زور تھا، ہر جگہ پانی کی سبیلیں دستیاب تھیں، جبکہ عراقیوں کی جانب سے پانی کا سپرے کرکے زائرین کی خدمت کی جا رہی تھی، اسلام آباد سے اکیلا نکلا تھا مگر نجف میں پانچ پاکستانی دوست مل گئے، جو مکمل سفر میں ساتھ رہے۔ اس بار نوٹ کیا کہ گرمی کے پیش نظر موکب کے بجائے اب بڑے بڑے ہال بنائے جا رہے ہیں، جو مکمل تھے، ان میں زائرین کے ٹھہرانے کی جگہ موجود تھی، ہالز میں اے سی اور موبائل چارجنگ سمیت کھانے پینے کا بہترین انتظام کیا گیا تھا۔ ایسا محسوس ہوا کہ آنے والے برسوں میں موکب (خیمہ) کے بجائے بڑے بڑے ہال بن جائیں گے اور یوں گرمیوں میں زائرین ان ہالز میں قیام کرسکیں گے۔ اس بار بھی گرمی کے پیش نظر زیادہ تر زائرین نے رات کو سفر جاری رکھا اور دن کو آرام کو ترجیح دی۔ ہم پانچ دوستوں نے بھی اپنے سفر کو اسی طرح انجام دیا کہ دن میں قیام کیا اور شام ہوتے ہی منزل کی جانب چل پڑتے۔ یوں تین دن تین راتیں اور تین گھنٹے کا سفر کرکے ہم نے تقریباً 90 کلومیٹر کا پیدل سفر طے کیا۔ انیس صفر کی شب کو ہم کربلا معلیٰ میں داخل ہوئے اور رات کو آرام کیلئے حرم سے تھوڑا سا دور گئے، تاکہ کوئی موکب ڈھونڈ سکیں، یوں کافی تگ و دو کے بعد ہم ایک ایرانی موکب میں جگہ ڈھونڈنے میں کامیاب ہوئے۔

مگر عین چہلم والے دن ایرانیوں نے اعلان کیا کہ ان کا موکب ختم ہوا، لہٰذا آپ اپنی نئی جگہ ڈھونڈیں، صبح سات بجے ہی وہ موکب بند ہوا اور تمام ایرانی زائرین اپنا سامان باندھ کر بسوں کی جانب روانہ ہوگئے، ہمیں احساس ہوگیا تھا کہ ایرانیوں کو ہدایت ہے کہ وہ چہلم کے دن ہی زیادہ سے زیادہ بارڈر کراس کرکے گھروں کو لوٹیں، اس کی وجہ عراق میں جاری پرتشدد مظاہرے تھے، وہاں پر ایک پاکستانی طالبعلم نے بتایا کہ ایک سازش کے تحت کے عراقیوں کو ایرانیوں کے خلاف بڑھکایا جا رہا ہے، خیر کئی ٹیکیسوں میں سفر کیا تو اس کا بخوبی احساس ہوگیا، کیوں کہ ٹیکسی ڈرائیور فوراً ہی کہہ دیتے تھے کہ تم پاکستانی اور ہندوستانی ہماری جانب ہو، مگر ہم ایرانیوں کی جیب کاٹ لیتے ہیں۔ خیر اگلی رات ہمیں کہیں قیام کیلئے کوئی جگہ نہ مل سکی اور یوں ہم نے پوری رات جاگ کر کاٹی، ظاہر ہے کہ جب کروڑوں انسانوں کا سمندر آیا ہوا ہو، وہاں ہوٹل ملنا اتنا آسان نہیں ہوتا، دوسرا موکب کی توقع پر ہم نے ویسے بھی بکنگ نہیں کرائی تھی، 20 اکتوبر کی صبح کو ہم سامرہ کیلئے روانہ ہوئے اور شام کو سامرہ سے بغداد کیلئے ٹیکسی پکڑی، بغداد کی سڑکوں کا بہت حال برا تھا، بدترین ٹریفک جام، شہر میں جگہ جگہ فوج تعینات تھی، دارالحکومت میں سڑکوں کی بری حالت اور بدترین ٹریفک جام پر عراقی ٹیکسی ڈرائیور بھی پھٹ پڑا اور عربی میں چیخنے لگا کہ عراق ’’لا نظام‘‘، یعنی عراق میں کوئی نظام نہیں ہے، نہ ہی آگے کوئی امید ہے۔

خیر ہم رات تقریباً ساڑھے گیارہ بجے کاظمین پہنچنے میں کامیاب ہوئے، یوں رات تقریباً دو بجے تک ہم کاظمین ہی رہے۔ میرا یہ عراق کا چوتھا سفر تھا، ہر بار کاظمین میں کباب بڑے شوق سے کھاتا ہوں اور اپنے سفر کے دوستوں کو بھی بغداد میں کباب کا ٹیسٹ کرایا، اس سے پچھلی بار سید صفدر رضا کے ہمراہ بغداد میں ڈنر کیا تھا، مگر اس بار وہ اپنی نجی مصروفیات کے باعث ہمارے شریک سفر نہ بن سکے۔ رات اڑھائی بجے راقم نے نجف کیلئے گاڑی پکڑی تو باقی تین پاکستانی دوست اپنی منزل ایران کیلئے نکل گئے، ہمارے سفر کے ایک ساتھی ہادی الاجتہادی سامرہ میں ہی ٹھہر گئے تھے، ہادی کے ساتھ پورے سفر کے تلخ و شریں لمحات ہمیشہ یاد رہیں گے، کیوں وہ نجف سے کربلا جلدی پہنچنے میں ہمیں بجلی کے طرح دوڑاتے رہے، موصوف کا بس چلتا وہ ہمیں ایک ہی رات میں سفر مکمل کر کر دم لیتے، مگر عقیل خان، آزاد صاحب اور میثم سمیت راقم کا دباؤ ان کے اس عزم میں رکاوٹ بنا رہا۔ 21 اکتوبر کی صبح پانچ بجے واپس نجف اشرف پہنچا تو وائی فائی مل گیا اور یوں کئی دنوں سے رُکے مسیجز واٹس ایپ پر موصول ہونا شروع ہوگئے، کیونکہ مظاہروں کی وجہ سے عراقی حکومت نے انٹرنیٹ پر پابندی لگائی ہوئی تھی، اگر نیٹ آ بھی رہا تھا تو اس کی سپیڈ ٹو جی بی سے زائد نہ تھی۔

نجف میں اطلاع ملی کہ بڑے بیٹے کو ٹائیفائیڈ ہوگیا ہے اور اسے اسپتال داخل کرا دیا گیا ہے۔ اگلے دو مزید دن بھی نجف میں ہی قیام کیا، اس دوران اطلاع ملی کہ عراقیوں نے پھر جمعہ کو احتجاج کا اعلان کر دیا ہے، اس دوران حرم امام علی ؑ کی طرف گیا تو پاکستانی زائرین پریشانی کے عالم میں اپنا سامان باندھے ہوئے نظر آئے، کئیوں نے اپنے پروگرام کو محدود کرلیا  تھا اور فوراً بارڈر کی طرف جانے کا فیصلہ کر رہے تھے۔ میرے خالو اختر آصف اور دیگر رشتہ دار بھی آئے ہوئے تھے، جو اپنا پروگرام محدود کرکے سامرا اور کاظمین کی طرف نکل رہے تھے، ان کی خواہش تھی کہ وہ جمعہ سے پہلے پہلے بغداد کی زیارتیں کرکے کربلا کی طرف آجائیں، کیونکہ اگر مظاہرے ہوتے بھی ہیں تو یہ علاقہ قدرے محفوظ رہے گا، مگر جمعہ کو ہونے والے مظاہروں نے پھر سے حالات خراب کر دیئے، موصولہ اطلاعات کے مطابق جمعہ سے شروع ہونے والے احتجاج میں ابتک 70 سے زائد مظاہرین جاں بحق ہوگئے ہیں۔

نوٹ: اربعین ڈائری جاری
خبر کا کوڈ : 824283
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش