QR CodeQR Code

انکشافات، سوالات اور توقعات

تبلیغی جماعت کی بوگی میں آگ کیسے لگی؟

31 Oct 2019 19:54

حادثہ کے بعد تیز گام کی متاثرہ بوگیوں کو ٹرین سے الگ کرکے باقی مسافروں کو منزل کی جانب روانہ کیا گیا۔ دیگر بوگیوں میں بھی تبلیغی جماعت کے افراد موجود تھے اور ان کے سامان میں بھی متعدد سلنڈر تھے۔ ریلوے کے عملے نے بہت زیادہ اصرار کیا کہ یہ سلنڈر سٹیشن پہ اتار لیے جائیں اور بکنگ کے ذریعے مال گاڑی میں بھیجے جائیں مگر اس حادثہ کے باوجود بھی تبلیغی جماعت کے افراد نے سلنڈر دینے سے انکار کر دیا، حادثے کے بعد جو سفر دوبارہ جاری ہوا، اس میں بھی موت کا یہ سامان یعنی گیس سلنڈر جماعت کے افراد اپنے ساتھ لے کر گئے۔


رپورٹ: آئی اے خان

تیز گام ایکسپریس میں جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد 75 سے تجاوز کر گئی ہے۔ پاکستان بھر میں جہاں اس سانحہ کا دکھ و افسوس محسوس کیا جا رہا ہے وہاں اس واقعہ پہ کئی طرح کے سنگین سوالات بھی اٹھ رہے ہیں۔ حادثہ اس وقت پیش آیا کہ جب کراچی سے لاہور اور راولپنڈی جانے والی تیز گام ایکسپریس میں اچانک آگ بھڑک اٹھی۔ حادثہ رحیم یار خان میں ٹانوری اسٹیشن چک نمبر 6 چنی گوٹھ کے قریب پیش آیا اور زیادہ تر جاں بحق افراد کا تعلق تبلیغی جماعت سے ہے جو اجتماع میں شرکت کے لیے رائیونڈ جارہے تھے۔ آگ کے شعلوں نے 3 بوگیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جس کے باعث 74 افراد آگ سے جھلس کر جاں بحق اور 43 سے زائد افراد شدید زخمی ہو گئے جنہیں طبی امداد کے لیے قریبی اسپتال منتقل کیا گیا، متعدد زخمیوں کی حالت نازک ہے جس کے باعث ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔ ڈپٹی کمشنر جمیل احمد جمیل کے مطابق تیز گام ٹرین کی ایئر کنڈیشنڈ اور بزنس کلاس کی تین بوگیوں میں آتشزدگی ہوئی، جن میں 209 مسافر سوار تھے۔ متعدد لاشیں ناقابل شناخت ہو گئی ہیں۔ ریسکیو ذرائع کے مطابق مبینہ طور پر تبلیغی جماعت کے مسافروں کا گیس سلنڈر پھٹنے سے آگ لگی۔ حادثے کا شکار اکانومی کلاس کی دو بوگیاں امیرحسین اینڈجماعت کے نام سے بک کی گئی تھیں۔ ریسکیو اہلکاروں کی جانب سے امدادی آپریشن کیا گیا جس میں پاک فوج کے دستے بھی شریک تھے جبکہ خان پور، لیاقت پور اور ریلوے پولیس بھی موقع پر پہنچ گئی۔

واقعہ کے بعد ابتدائی ردعمل میں وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید نے میڈیا کو بتایا کہ تیزگام ایکسپریس کو حادثہ کراچی سے راولپنڈی جاتے ہوئے پیش آیا، آگ ٹرین کی اکانومی کلاس میں گیس سلنڈر پھٹنے سے لگی جب کہ مسافروں نے ٹرین سے کود کر جانیں بچائیں۔ حکام کے مطابق مسافر ٹرین میں آگ لگنے کے افسوسناک حادثے کے بعد ضلع بھر کے اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی۔ ریسکیو 1122، پولیس، فائر برگیڈ، سمیت دیگر امدادی ٹیموں نے موقع پر پہنچ کر ریسکیو آپریشن شروع کر دیا جب کہ حادثے میں متاثرہ زخمیوں کو ٹی ایچ کیو لیاقت پور، آر ایچ سی چنی گوٹھ اور بہاولپور وکٹوریہ اسپتال منتقل کیا گیا۔ ریلوے انتظامیہ نے حادثہ میں جاں بحق افراد کے لواحقین کو انشورنس کی مد میں 15 لاکھ روپے ادا کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ زخمی ہونے والوں کو 50 ہزار روپے سے 3 لاکھ روپے تک دیے جائیں گے۔وزیراعظم عمران خان، صدر مملکت عارف علوی سمیت حکومتی وزراء، سیاسی و مذہبی رہنماؤں، سول سوسائٹی سمیت مختلف شخصیات نے حادثے میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ چیرمین ریلوے سکندر سلطان کے مطابق گریڈ 21 کے وفاقی انسپکٹر دوست علی لغاری کو تحقیقاتی آفیسر مقرر کردیا گیا ہے، جو جائے حادثہ پر تمام شواہد اکھٹے کرکے وزیراعظم کو رپورٹ پیش کریں گے۔ چیرمین ریلوے  نے بتایا کہ تحقیقات کے لیے دیگر افسران کو بھی جائے حادثہ پر روانہ کردیا گیا ہے۔

حکومتی تحقیقات اور تبلیغی جماعت یا عینی شاہدین کے موقف اپنی جگہ تاہم میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ حقیقت ناقابل تردید ہے کہ تینوں بوگیوں میں زیادہ تر تبلیغی جماعت کے مسافر سوار تھے، جن کی تعداد ڈیڑھ سو کے لگ بھگ ہے۔ حیران کُن بات یہ ہے کہ ان تمام افراد کی بکنگ ایک ہی شخص کے شناختی کارڈ پر کرائی گئی جس کا نام امیر حُسین ہے۔ حادثے کے شکار ہونے والی تینوں بوگیوں میں 207 مسافر سوار تھے۔ بوگی نمبر 2 میں 77، بوگی نمبر 3 میں 76 جبکہ بوگی نمبر 4 میں 54 مسافر سوار تھے۔ دو بوگیاں اکانومی کلاس کی تھیں اورتیسری بزنس کلاس سے تعلق رکھتی تھی۔ تینوں بوگیوں میں سوار مسافروں کے زیادہ تر ٹکٹس امیر حُسین کے نام سے بُک کرائے گئے تھے۔ بوگی نمبر 3 اور 4 میں تبلیغی جماعت کے لوگ سوار تھے جبکہ بوگی نمبر 5 یعنی بزنس کلاس میں بھی تبلیغی جماعت کے ساتھ ساتھ عام مسافر بھی سوار تھے۔ اکثر افراد کی لاشیں پُوری طرح جھُلس چکی ہیں، جس کے باعث اُن کی شناخت میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ حکام کی جانب سے دعویٰ کیا جارہا ہے کہ تیز گام میں حادثہ اس وقت پیش آیا کہ جب تبلیغی جماعت کے افراد بوگی میں ناشتے کا اہتمام کر رہے تھے کہ سلنڈر ایک دھماکے سے پھٹ گیا، جس کے بعد آگ نے دیکھتے ہی دیکھتے تینوں بوگیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ 

اس کے برعکس متاثرہ بوگی کے ایک مسافر کے مطابق کہ جس نے جلتی اور چلتی ٹرین سے چھلانگ لگا کر اپنی جان بچائی۔ اس کے مطابق رات سے ہی بوگی سے کچھ جلنے کی بدبو آ رہی تھی۔ بدبو آنے پر ٹرین انتظامیہ کو آگاہ کیا تھا لیکن کوئی ازالہ نہیں ہو سکا۔ عینی شاہد نے دعویٰ کیا کہ آگ شارٹ سرکٹ کے باعث لگی۔ عینی شاہد نے کہا کہ میڈیا پر یہ خبر چلائی جا رہی ہے کہ حادثہ سلنڈر پھٹنے سے ہوا حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ اسٹیشنز پر تمام سلنڈرز چیک کروا کر ان کی گیس نکلوائی گئی تھی۔ آگ سلیپر کے اندر لگی جو اے سی ہے۔ عینی شاہد کے مطابق ریلوے حکام کے ساتھیوں نے بتایا کہ پنکھے میں تین چار دنوں سے شارٹ سرکٹ تھا۔ شارٹ سرکٹ ہوا اور پنکھا نیچے گر گیا جس سے آگ لگی۔ آگ لگنے کے باوجود ٹرین چلتی رہی۔ اُس وقت وہاں کوئی عملہ موجود نہیں تھا۔ ٹرین روکنے کے لیے استعمال ہونے والی زنجیر بھی کام نہیں کر رہی تھی۔ ایمرجنسی کی یا آگ بُجھانے کی کوئی سہولیات موجود نہیں تھیں۔ عینی شاہد نے کہا کہ اعلیٰ حکام اس بات کو نوٹس لے اور تحقیقات کریں، جماعت والوں کی جانب سے سلنڈر چلانے کی خبروں میں کوئی سچائی نہیں ہے۔ یہ خوامخواہ پراپیگنڈہ کیا جا رہا ہے.

آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری پیغام میں بتایا گیا کہ پاک فوج کے جوانوں نے سانحے کے مقام پر پہنچ کر سول انتظامیہ کے ساتھ امدادی کارروائیاں شروع کردی ہیں جب کہ آرمی ایوی ایشن کا ہیلی کاپٹر بھی سانحے کی جگہ پہنچ گیا ہے جس کے ذریعے زخمیوں کو اسپتال منتقل کیا جارہا ہے۔ آئی ایس پی آر نے بتایا کہ پاک فوج کےڈاکٹرز اور پیرا میڈیکس بھی امدادی کارروائیوں مصروف ہیں جبکہ سی ای او ریلوے اعجاز احمد کے مطابق مسافر ٹرین میں سلنڈر دھماکے سے تین بوگیوں کو آگ لگی جس میں دو اکنامی اور ایک بزنس کلاس بوگی شامل ہے، جب کہ حادثے سے کوئی ٹریک متاثر نہیں ہوا اور ٹرینیں شیڈول کے مطابق چل رہی ہیں۔ ریسکیو اور ریلوے عملے کے مطابق تینوں متاثرہ بوگیوں کے زیادہ تر ٹکٹس ایک ہی مسافر کے نام پر بک کروائے گئےتھے جس وجہ سے انفرادی نام نکالنےمیں مشکل ہو رہی ہے۔ دوسری جانب متاثرہ بوگیوں سے متعدد سلنڈر برآمد ہوئے ہیں جوکہ آتشزدگی سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔ عینی شاہدین کے مطابق تبلیغی جماعت والوں کے پاس متعدد سلنڈر تھے۔

حادثے کا شکار ٹرین کے ڈرائیور محمد صدیق کا کہنا ہے کہ گاڑی میں شارٹ سرکٹ نہیں ہوا کیوں کہ ٹرین میں شارٹ سرکٹ اور تخریب کاری کا کوئی اندیشہ نہیں۔ تیز گام ٹرین کے ڈرائیور محمد صدیق کا کہنا تھا کہ جیسے ہی مسافروں نے زنجیر کھینچی میں نے 3 منٹ کے وقفے سے گاڑی روک لی، گاڑی میں شارٹ سرکٹ نہیں ہوا، حادثے کے بعد بھی تبلیغی جماعت کے مسافروں کو سلنڈر رکھنے سے منع کرتے رہے۔ ٹرین ڈرائیور کا کہنا ہے کہ ٹرین میں شارٹ سرکٹ اور تخریب کاری کا کوئی اندیشہ نہیں، حالیہ حادثے کی انکوائری کے بعد ہی پتہ چلے گا کہ اصل معاملہ کیا ہوا۔ دوسری جانب سانحہ تیزگام میں زخمی ہونے والے بزرگ نے آنکھوں دیکھا حال بتا دیا ہے۔ انہوں نے اپنے بیان میں بتایا ہے کہ واقعہ سلنڈر پھٹنے سے ہی پیش آیا۔ زخمی بزرگ کا کہنا ہے کہ جو سلنڈر پھٹا اس کے سامنے ہی میری سیٹ تھی، میں نے دیکھا کہ پہلے ایک شخص نے چائے بنائی اس کے بعد سالن گرم کیا اور اس کے بعد جب دوبارہ چائے بنانے لگا تو سلنڈر اچانک پھٹ گیا۔

حادثے سے بڑھ کر یہ سانحہ ہوا 
کوئی ٹھہرا نہیں یہ حادثہ دیکھ کر

ایک معمولی مگر سنگین اور فاش غلطی کی وجہ سے تقریبا 150 افراد متاثر ہوئے۔ 80 کے قریب گھرانے اجڑ گئے، زخمیوں میں سے بیشتر ایسے ہیں کہ جو باقی ماندہ زندگی معذوری میں گزارنے پہ مجبور ہوں گے، اس کے علاوہ مالی نقصان بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے۔ حادثہ کے بعد تیز گام کی متاثرہ بوگیوں کو ٹرین سے الگ کرکے باقی مسافروں کو منزل کی جانب روانہ کیا گیا۔ دیگر بوگیوں میں بھی تبلیغی جماعت کے افراد موجود تھے اور ان کے سامان میں بھی متعدد سلنڈر تھے۔ ریلوے کے عملے کے بہت زیادہ اصرار کیا کہ یہ سلنڈر سٹیشن پہ اتار لیے جائیں اور بکنگ کے ذریعے مال گاڑی میں بھیجے جائیں مگر اس حادثہ کے باوجود تبلیغی جماعت کے افراد نے سلنڈر اتارنے سے انکار کر دیا، حادثے کے بعد بھی جو سفر دوبارہ جاری ہوا، اس میں بھی موت کا یہ سامان یعنی گیس سلنڈر تبلیغی جماعت کے مسافروں کے ساتھ گئے۔ قواعد و ضوابط کے مطابق گیس سے بھرے سلنڈر مسافر ٹرین میں ممنوع ہیں، مسافروں کے سامان کے ساتھ اگر ہوں بھی سہی تو بھی انہیں پہلے گیس سے خالی کیا جانا ضروری ہے۔ جو حادثہ پہلے رونما ہوا، خدانخواستہ وہ دوبارہ رونما ہو جائے۔ تو اس کا جوابدہ کون ہوگا۔؟ 

بہت سے افراد اس بات پہ اعتراض کرتے ہیں کہ روزانہ لاکھوں افراد شراب پیتے ہیں مگر میڈیا اس پہ خاموش رہتا ہے مگر کوئی مولوی، کوئی داڑھی والا، کوئی ظاہری اسلام پسند جب جرم کرتا ہے، گناہ کرتا ہے، قانون کی خلاف ورزی کرے تو اس پہ بہت شور شرابا ہوتا ہے۔ اس کی وجہ انتہائی سادہ ہے کہ معاشرہ کسی ایسے شخص سے گناہ، جرم یا قانون کی خلاف ورزی کی توقع انتہائی کم رکھتا ہے کہ جس کا حلیہ اسلام پسندوں والا ہو، جو دینی تعلیم و تدریس یا اسلامی تعلیمات یا نظام کے احیاء کیلئے متحرک ہو۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ عام شہریوں کی نسبت تبلیغی جماعت والوں سے زیادہ قانون کی پاسداری کی توقع کی جائے گی، مگر معاملہ اس کے بالکل الٹ ہے، کوئی عام شہری، کسی بس، گاڑی یا ٹرین میں اپنے ساتھ آتش گیر مادہ، منشیات یا دیگر ممنوعہ اشیاء ساتھ نہیں لے جاسکتا مگر تبلیغی جماعت والے افراد اپنی ضروریات کے تحت ایسا سامان ساتھ لے جانے پہ مجبور ہوتے ہیں اور اسی بناء پہ قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ دس سے بارہ افراد کا ایک گروپ تشکیل پاتا ہے۔ ہر ایک گروپ نے اپنے ساتھ گیس کا ایک سلنڈر ہر صورت رکھنا ہے۔ جہاں دو سو سے تین سو تبلیغی جماعت کے افراد سفر کریں گے، تو ان کے پاس دیگر سامان کے علاوہ بیس سے تیس گیس سلنڈر لازماً ہوں گے۔ شیخ رشید نے سچ ہی کہا کہ ایسے مسافروں کو ہم کیسے روک سکتے ہیں۔؟ دیگر مسافروں کی جان کی حفاظت اور محفوظ سفر کیلئے ضروری ہے کہ حکومت تبلیغی جماعت والوں کو گیس سلنڈر سمیت ان تمام غیر قانونی اور ممنوعہ چیزوں کی فراہمی رائے ونڈ میں ہی ممکن بنائے کہ جس سے دوسروں کی جان و مال کو خطرہ ہو یا وہ معاشرے میں منفی اثرات مرتب کرتی ہو۔ 


خبر کا کوڈ: 824944

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/824944/تبلیغی-جماعت-کی-بوگی-میں-ا-گ-کیسے-لگی

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org