0
Thursday 14 Nov 2019 17:57

ہفتہ وحدت اور امت مسلمہ کیلئے کچھ قابل توجہ نکات

ہفتہ وحدت اور امت مسلمہ کیلئے کچھ قابل توجہ نکات
تحریر: محمد حسن جمالی
 
 مسلمانوں کی سب سے بڑی طاقت اتحاد اور سب سے بڑی کمزوری تفرقہ و انتشار ہے، آج جگہ جگہ مسلمان ظلم و ستم کے نشانے پر ہیں تو بنیادی وجہ ان کا عدم اتحاد ہے، جب سے مسلمان آپس میں متحد رہنے کے بجائے تفرقے کا شکار ہوئے، مشترکات کو چھوڑ کر جزئی اختلافات کی بنیاد پر ایک دوسرے سے دور ہونے لگے، پستی اور زوال ان کے مقدر کا حصہ بننا شروع ہوا، آج ہم دیکھتے ہیں کہ آپس کے اختلافات نے مسلمانوں کو ایک دوسرے کا جانی دشمن بنا دیا ہے، ان میں ایک دوسرے پر کفر و شرک کے فتوے لگانے تک کی جرات پیدا ہوگئی ہے، اس صورتحال نے جہاں مسلمانوں کو کمزور سے کمزورتر بنانے میں کردار کیا، وہیں یہ مسلمانوں کے دشمنوں کو اپنے ناپاک عزائم میں کامیابی سے ہمکنار کرانے کے لئے بہترین معاون و مددگار ثابت ہو رہی ہے۔ اس وقت مسلمانوں کو ہر جگہ شکست سے دوچار کرانے کے لئے دشمن جس چیز پر سب سے زیادہ سرمایہ خرچ کر رہا ہے، وہ ایجاد تفرقہ بین المسلمین ہے۔

 
 اسلام کے دشمن مسلمانوں کے درمیان اختلافات کو ہوا دے کر اپنے مفادات کے حصول میں مگن ہیں، فلسطین، شام، عراق، کشمیر سمیت تمام اسلامی ممالک میں مسلمانوں کے درمیان موجود چھوٹے چھوٹے اختلافات کو بنیاد بناکر دشمنوں نے امت مسلمہ کی جان و مال اور عزت و آبرو کے ساتھ وہ کھیل کھیلا، جس کی نظیر کم نظر آتی ہےـ مسلمانوں کی ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ اب اسلام کے مخالف عناصر مسلمانوں کے مختلف فرقوں اور مذاہب کے درمیان تفرقہ افکنی کے لئے شبیہ سازی کے ہتھیار سے لیس ہوکر اپنے ناپاک اہداف میں کامیابی حاصل کر رہے ہیں، مطلب یہ ہے کہ وہ شیعہ سنی مسلمانوں میں سے دینی معلومات رکھنے والے افراد کو چن لیتے ہیں، ان کے سامنے ڈالر کے خزینے کا منہ کھول دیتے ہیں، انہیں کرائے کا غلام بنا کر ان کے منہ سے ایسی باتیں نکلواتے ہیں، جو امت مسلمہ کے درمیان نفرت اور تفرقے کی آگ جلانے کے لئے تیل کا کام کرتی ہیں، جس کی واضح مثال شیرازی گروپ اور ذاکر نائیک جیسے لوگ ہیں۔

استعمار نے شیرازی ٹولے کو لباس روحانیت میں ملبوس کرکے شیعہ علماء کے روپ میں ظاہر کیا، پھر ان کی زبان سے حضرت عائشہ سمیت صحابہ کرام کے بارے میں توہین آمیز باتیں نکلوا کر سنی مسلمانوں کو شیعوں کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کی تو دوسری طرف ذاکر نائک جیسے دین کو ثمن قلیل میں بیج کر دنیا آباد کرنے والے افراد کو سنی مولوی کے روپ میں نمایاں کیا، پھر ان کے توسط سے شیعوں کے اعتقدات کی توہین کروا کر شیعوں کو سنی مسلمانوں سے متنفر کروانے کی جدوجہد کی گئی۔ اسی طرح اسلام سے دشمنی رکھنے والوں نے مسلمانوں کی کتابوں میں مرقوم نبی مکرم اسلام کی تاریخ ولادت کے بارے میں موجود اختلاف کو ان کے درمیان فاصلہ بڑھانے کا ذریعہ قرار دیا، کیونکہ اہلسنت علماء کی نظر میں آنحضرت کی تاریخ ولادت 12 ربیع ہے اور شیعہ محقیقین کے مطابق آپ کی ولادت 17 ربیع کو ہوئی۔ یوں  مسلم دشمن عناصر نے جب اس تنکے کے برابر اختلاف کو پہاڑ بنانے کی کوشش کی تو زمانے کی نبض پر ہاتھ رکھنے والی عظیم شخصیت بت شکن رہبر کبیر انقلاب نے 12 ربیع سے 17 ربیع کو ہفتہ وحدت منانے کا فیصلہ کرکے دشمنوں کے برے اہداف و عزائم کو خاک میں ملایا اور ہفتہ وحدت کی برکات و ثمرات اب کسی پر پوشیدہ نہیں۔
 
مخفی نہ رہے کہ مسلمانوں کے پاس باوقار اور پرسکون طریقے سے جینے کے لئے کسی چیز کی کمی نہیں، اگر مادی وسائل کے اعتبار سے دیکھا جائے تو مسلمانوں کے پاس عظیم قدرتی ذخائر موجود ہیں، علمی اور فکری میدان میں نگاہ کریں تو بڑی علمی اور فکری شخصیات مسلمانوں میں فراوان دکھائی دیتے ہیں، افرادی قوت کے حوالے سے سوچا جائے تو مسلمانوں میں یہ قوت عروج پر نظر آتی ہے، اگر تہذیب و تمدن کے میدان میں غور کیا جائے تو مسلمانوں کے پاس قدیم تہذیب و تمدن ہے، جو دنیا میں کم نظیر ہے۔ مختصر یہ کہ ہر میدان میں صلاحیت کے اعتبار سے مسلمانوں میں کوئی کمی نہیں، وہ اسلام ناب محمدی کے زیر سایہ امن اور سکون سے لبریز زندگی بسر کرسکتے ہیں، البتہ اس کے لئے امت مسلمہ کو کچھ نکات پر بھر توجہ دینا ناگزیر ہے ، پہلا نکتہ مسلم تعلیم یافتہ طبقے سے مربوط ہے۔
 
1۔ ہر مسلمان کو تقلیدی اسلام کے دائرے سے نکلنا ہوگا، ہمارا المیہ یہ ہے کہ آج مسلمانوں کی اکثریت اس بنیاد پر مسلمان ہے، چونکہ اس کا خاندان مسلمان ہے، وہ مسلم گھرانے میں پیدا ہوئی ہے، اس کے والدین و اجداد مسلمان تھے، پھر اسی معیار پر ہم شیعہ سنی بن جاتے ہیں۔ شیعہ گھرانے میں پیدا ہونے والے شیعہ اور سنی خاندان میں آنکھ کھولنے والے سنی مذہب کے پیروکار بن جاتے ہیں، ہم آباء و اجداد کی اندھی تقلید کے تاریک زندان میں اس قدر محبوس ہو جاتے ہیں کہ وہاں سے نکل کر تحقیق کی روشن دنیا میں قدم رکھنے کو ناقابل معاف جرم سمجھا جاتا ہے۔ آج مسلمانوں کے درمیان روز بروز گہرے ہوتے اختلافات اور پیدا ہونے والے فاصلے کے بارے میں گہرائی اور دقت سے مطالعہ کیا جائے تو سب سے مؤثر سبب اندھی تقلید ہی نظر آتی ہے، جس نے مسلمانوں کو گروہوں اور فرقوں میں تقسیم کرنے میں بڑا رول ادا کیا۔ کیا یہ لمحہ فکریہ نہیں کہ جس قرآن کو ہم سب خدا کی لاریب کتاب ماننے ہیں، اس میں صریح طور پر خدا فرما رہا ہے: "ان الدین عند الله الاسلام" خدا کے ہاں پسندیدہ دین اسلام ہے تو یہ فرقے کہاں سے آئے؟ یہ مختلف مذاہب کدھر سے پھوٹ پڑے؟ سوچنا تو چاہیئے ناکہ خدا کا دین تو ایک ہی ہے، آج مسلمانوں میں 72 فرقے بلکہ اس سے زیادہ کیسے وجود میں آئے؟ ان کی پیدائش کیسے ہوئی۔؟
 
اس بات پر مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والوں کا اتفاق و اجماع ہے کہ پیغمبر مکرم اسلام (ص) کی حیات کے دوران مسلمانوں میں حنبلی، حنفی، مالکی، شافعی، جعفری، بریلوی وغیرہ کا کوئی تصور نہیں تھا، اس زمانے میں سارے مسلمان بس مسلمان تھے، اسلام کے پرچم تلے وہ جمع ہوکر زندگی بسر کرتے ہیں، آنحضرت سے وہ استفادہ کرتے تھے، آپ کی تعلیمات کی روشنی میں وہ اپنی زندگی کے لمحات گزارنے کی کوشش کرتے تھے، یہ اور بات ہے کہ اس زمانے میں آپ کی مجلس میں منافقین بھی حاضر ہوا کرتے تھے، لیکن آج کی طرح گروہ در گروہ میں وہ بٹے ہوئے نہیں تھے، بنابراین قدر متیقن بات یہ ہے کہ آنحضرت (ص) کی رحلت کے بعد ہی امت مسلمہ مختلف گروہوں اور فرقوں میں تقسیم ہوچکی ہےـ اب اس نکتے پر سوچنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ امت مسلمہ مختلف گروہوں میں تقسیم ہونے کے عوامل و اسباب کیا ہیں؟ کیونکہ یقیناً یہ سارے تو اہل حق ہرگز نہیں ہوسکتے۔ صرف وہی گروہ راہ حق پر ہوسکتا ہے، جو پیغمبر اکرم (ص) کی راہ پر گامزن ہو، ممکن ہے وہ شیعہ ہو سنی ہو یا کوئی اور گروہ۔

بنابریں شیعہ یا سنی گھرانے میں پیدا ہونے کی وجہ سے ہمارا والدین کا مذہب اختیار کرنا ہرگز کافی نہیں بلکہ دانشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ ہر ایک اپنی بساط کے مطابق اپنے مذہب اور فرقے کے بارے میں حتی المقدور تحقیق کرےـ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تحقیق کے منابع کیا ہیں؟ ہم کہاں رجوع کرکے اپنے مذہب کے حق اور باطل ہونے کے بارے میں جستجو اور تحقیق کریں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مذہبی حقانیت کے اثبات کے بارے میں تحقیق کرنے کے لئے منابع اولیہ قرآن مجید اور سنت نبی ہےـ آج کل اگر ہم مذاہب کے بارے میں تحقیق کرتے بھی ہیں تو ہم شیعہ سنی محقیقین و مصنفین کی تصانیف اور آثار کی طرف رجوع کرتے ہیں، جو کہ ہماری نظر میں ناقص کام ہے، کیونکہ اس سے حقیقت تک رسائی حاصل ہونے کا احتمال انتہائی ضعیف ہے، اس لئے کہ یہ کتابیں تو ہم جیسے بشر کی لکھی ہوئی ہیں، ان میں خطا اور اشتباہ کا قوی امکان پایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے ہم ان کے آثار پر اعتماد نہیں کرسکتے، کیونکہ بسااوقات غیر معصوم انسانوں کی کتابوں میں تعصب مذہبی کا رنگ ہمیں واضح دکھائی دیتا ہے۔

مثال کے طور پر جناب فخر رازی کی تفسیر کا مطالعہ کریں، وہاں آیہ ولایت "انما ولیکم الله ورسوله والذین آمنوا الذین یقیمون الصلوة والزکاة وھم راکعون" کے ذیل میں پہلے انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ اس آیت مجیدہ کے آخری حصے کا مصداق علی ابن ابی طالب کی ذات گرامی ہے، کیونکہ انہوں نے رکوع کی حالت میں انگشتر سائل کو دی ہے۔ اس کے بعد موصوف نے تعصب مذہبی کا کھلا اظہار کرتے ہوئے ہوئے ایک مضحکہ خیز توجیہ کی ہے، لکھا ہے کہ علی ابن ابی طالب کا انگوٹھی اتار کر سائل کو دینا فعل کثیر شمار ہوتا ہے، جس کی وجہ سے ان کی نماز باطل ہے اور جس کی نماز ہی باطل ہو جائے، وہ مسلمانوں کا ولی نہیں بن سکتا! آپ ملاحضہ کریں، یہاں اولاً فخر رازی نے درحقیقت خدا پر اعتراض کیا ہے، کیونکہ خدا نے تو خدا و رسول کے بعد نماز قائم کرنے اور رکوع کی حالت میں زکات دینے والے کو ولی قرار دیا ہے، مگر جناب فخر رازی نے گویا یوں کہا ہے کہ اے خدا نعوذ باللہ آپ کو نہیں پتہ حالت رکوع میں زکات دینا فعل کثیر ہے، جو مبطل نماز ہوتا ہےـ ثانیاً یہ خود اہلسنت کے فقہی مبنا کے خلاف ہےـ

اسی طرح زبردست محقق اہلسنت کے برجستہ عالم جناب ابن ابی الحدید معتزلی شارح نہج البلاغہ اپنی کتاب شرح نہج البلاغہ میں برملا یہ اعتراف کرتے ہیں کہ خلفاء میں سب سے افضل حضرت علی ابن ابی طالب ہیں، پھر مذہبی تعصب کے زندان میں قید ہونے کی وجہ سے وہ یہ جملہ لکھتے ہیں "الحمد لله الذی قدم المفضول علی الافضل" حمد مخصوص ہے، اس خدا کے لئے جس نے مفضول کو افضل پر مقدم کیا! جبکہ یہ حکم عقل کی صریح مخالفت ہے، ایک نابالغ چھوٹا بچہ بھی اس بات کو سمجھتا ہے کہ ہمیشہ ہر جگہ افضل مفضول پر مقدم ہوا کرتا ہےـ اسی طرح شیعہ مصنفین کی کتب میں بھی تعصب پر مبنی باتیں ہوسکتی ہیں۔ بنابرین مذہبی تحقیق کے لئے منابع اولیہ (قرآن و سنت) کی طرف مراجعہ کرنا بہت ضروری ہےـ یہاں یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ فریقین کی ساری کتب حدیثی بھی قابل اعتبار نہیں، چونکہ ان میں بہت ساری احادیث جعلی بھی گھڑی گئی ہیں، لاتعداد اسرائیلی روایات ان میں شامل کی گئی ہیں، اکثر کتابوں میں صحیح اور غلط حدیثوں کو مخلوط کرکے چھاپا ہوتا ہے، تفسیری کتابوں میں غلط تاویلات اور تفسیر بالرائے کا سہارا لیا گیا ہے، ایسے میں حقائق جاننے کے متلاشیوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ قدیمی کتابوں کی تلاش کرکے تحقیق کرنا شروع کریں، یہ طے ہے کہ اگر مذہبی تعصب کی عینک اتار کرکے کوئی تحقیق کرنا شروع کرے تو حق اس پر واضح ہوکر رہے گا۔ باقی اگلی قسطوں میں ان شاء اللہ   
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 827474
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش