0
Friday 15 Nov 2019 14:05

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ
تحریر: شیخ فدا علی ذیشان
سیکرٹری جنرل مجلس وحدت المسلمین ضلع سکردو
 
خداوندعالم نے بشریت کی ھدایت کے لئے انبیاء کی بعثت کا سلسلہ شروع کیا۔ جس میں سب سے پہلے حضرت ادم کو ارسال فرمایا، یوں انبیاء کی بعثت کا آغاز ہوا اور سب سے آخر میں حضرت محمد (ص) کو آخری نبی بنا کر بھیجا اور آپ (ص) پر سلسلہ نبوت موقوف ہوا، اب آپ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انبیاء کی بعثت کا ہدف اور مقصد کیا ہے؟ اس سلسلے میں قرآن نے واضح انداز میں انبیاء کی بعثت کا ہدف بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ "لقد من اللہ علی المومنین اذ بعث فیہم رسولا منہم یتلوا علیہم آیاتہ و یزکیہم و یعلمہم الکتاب والحکمۃ" بیشک اللہ تعالٰی نے مومنین پراحسان کیا ہے کہ انہی میں سے ایک رسول کو بھیجا تاکہ وہ رسول ان پر آیات کی تلاوت کرے، ان کا تزکیہ نفوس کرے اور کتاب و حکمت کی تعلیم دے۔ سورہ آل عمران۔ اس آیت اور سورہ جمعہ کی پہلی آیت کا لب لباب یہ ہے کہ:

انبیاء کی بعثت کا فلسفہ آیات خداوند کی تلاوت:
انبیاء کو اس لئے مبعوث فرمایا تاکہ آیات خداوندی کی تلاوت کریں، لوگوں کو خدا کی نشانیاں بیان کریں کہ لوگ خدا کی معرفت حاصل کریں اور اس معرفت کے حصول کے بعد اسی کی ہی عبادت کریں جو رب، خالق، باری، رازق، مدبر اور محی اور ممیت ہے۔ وہ اپنی ذات میں یکتا ہے۔ اس کی صفات عین ذات ہیں، ذات سے جداگانہ نہیں ہیں۔ وہ لامحدود ہے، جس طرح کہا گیا ہے کہ "جس نے اس رب کو پایا اس نے سب کچھ پایا اور جس نے اس کو کھویا اس نے سب کچھ کھویا"۔ لہٰذا انبیاء کی بعثت کا ہدف اور مقصد آیات خدا کی تلاوت ہے۔ تلاوت آیات کا بنیادی مقصد تزکیہ نفوس ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان مختلف قوتوں اور خواہشات کا مجموعہ ہے، اگر انسان کو بےلگام چھوڑ دیا جائے، تو قوت غضبیہ کے اعتبار سے انسان درندوں سے بھی بدتر ہو جائے، اور قوت شہویہ کے اعتبار سے انسان چوپایوں سے بھی بدتر ہو جائے اور اگر انسان کو مکمل آزاد کیا جائے، تو انسانی معاشرہ جنگل بن جائے۔

جہاں شیر ہی مالک بن جاتا ہے اور انسان ہی آدم خور بن جاتا ہے۔ اسی لئے انسانوں کا تزکیہ ضروری ہے تاکہ انسانوں کی خواہشات کو احکام خدا کی پابندی جائے اور انسانی معاشرہ کو ایسا انسانی معاشرہ بنایا جائے، جہاں قانون خدا کی بالادستی ہو، جہاں خواہشات کو بے لگام نہ چھوڑا جائے اور جہاں ایسا معاشرہ تشکیل دیا جائے جس میں معنویت اور روحانیت حاکم ہو۔ جہاں انسانوں کے لئے جسمانی تقاضوں کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ روحانی تقاضوں کو پورا کرنے کے مواقع ہوں، تاکہ تزکیہ نفوس ہو اور ہر انسان اپنے کمال کو پہنچ جائے۔ تیسرا ہدف انبیاء کی بعثت کا کتاب و حکمت کی تعلیم ہے۔ حکیم رب کی کتاب حکمت کی تعلیم ضروری ہے تاکہ انسان حکمت سے بھرپور ہو جائے اور حکیم رسول (ص) کی تعلیمات سے آشنائی بھی ضروری ہے تاکہ حکمت سے بھرپور معاشرہ تشکیل دیا جائے۔ اسی وجہ سے حکیم پروردگار نے آخری حکیم رسول ص کو  12 یا 17 ربیع الاول ایک عام الفیل کو اس کی ولادت کے لئے منتخب کیا، اس معاشرے میں جہاں کفر، جہالت، لاقانونیت اور نسلی امتیازات پائے جاتے تھے۔

رسول (ص) نے چالیس سال اپنے کردار سے اپنے آپ کو اس طرح منوایا کہ کفار مکہ اور مشرکین مکہ آپ کو صادق و امین کہتے تھے اور اپنی امانت رسول اللہ (ص) کے پاس رکھواتے تھے۔ چالیس سال بعد آپ (ص) نے کچھ بنیادی کام کئے۔ فکری اعتبار سے بت پرست لات، منات، حبل اور عزی پرست کو توحید پرست اور خدا پرست بنا دیا۔ ظلمت جہالت میں گھرے ہوئے معاشرے کو نور علم سے منور کیا۔ لا قانونیت والے معاشرے کو قانون کا خوگر بنا دیا۔ طبقاتی نظام پر مشتمل معاشرے کو مساوات کا علمبردار بنا دیا۔ جہالت کا عالم یہ ہے کہ ایک خیمہ سے دوسرے خیمے میں ٹڈی آتی ہے اور دوسرے خیمے والے کھاتے ہیں، اس بات پرکہ ہمارے خیمے سے آئی ہوئی ٹڈی کو کیوں کھا لیا ہے؟ پر چالیس سال بعد جنگ ہوتی ہے۔ طبقاتی نظام کا حال یہ ہے کہ ہجرت کے بعد جب حضرت بلال اذان دیتے ہیں تو ایک صحابی کہتا ہے کہ خدا کا شکر ہے کہ میرے بابا کا انتقال ہوا، بہت پہلے اور آج کا سیاہ ترین دن نہ دیکھا۔ پوچھا گیا ایسا کیا ہوا؟ تو کہتا ہم بڑے بڑوں کے ہوتے ہوئے حبشی کالا کوا اذان دے رہا ہے۔

اس پر سورہ حجرات کی آیت نازل ہوئی کہ"یاایھاالناس انا خلقناکم من ذکر و انثی و جعلناکم شعوبا و قبائل لتعارفوا ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم" اے لوگو ہم نے تمہیں ایک مرد و عورت کے ذریعہ پیدا کیا اور تمہیں مختلف قوم و قبائل میں بانٹا تاکہ تمہاری شناخت ہو۔ بیشک اللہ کی نظر میں میں سب سے زیادہ مکرم و معزز وہ ہے جس کے پاس سب سے ذیادہ تقٰوی ہو۔ حسب و نسب برتری، تفوق اور فضیلت کا معیار نہیں ہے بلکہ خاندان اور قوم و قبیلہ شناخت اور پہچان کا ذریعہ ہے۔ پس نسلی امتیازات کو ختم کرکے تقوٰی کو برتری کا معیار قرار دیا۔ جس طرح آپ نے اپنے شہرہ آفاق خطبہ "خطبہ حجۃ الوداع"  میں فرمایا، "لا فوق للعربی علی الاعجمی ولا لاحمر علی الاسود الا بالتقوی" کہ کسی کو کسی پرکسی قسم کی کوئی برتری حاصل نہیں سوائے تقوٰی کے۔ پس اسلام نے اور پیغمبر اکرم (ص) نے فضیلت کا معیار تقوٰی کو ہی قرار دیا ہے، اور عملا مساوات اور اخوت قائم کرکے بتا دیا کہ اسلام میں عزت اور فضیلت کا معیار بس تقوٰی ہے۔ اسی وجہ سے سلمان فارسی فارس کا رہنے والا ہونے کے باوجود تقوٰی ہی کی وجہ سے سلمان محمدی بن گئے۔ ایسا آفاقی دین اور آئین کہیں بھی موجود نہیں، جہاں قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔ امیر و غریب میں کوئی فرق نہیں ہے۔

جب قبیلہ بنو مخزوم کی فاطمہ نامی عورت چوری کرتی ہے، اجرائے حد کے موقع پر اسامہ سے سفارش کروانے کی کوشش ہوتی ہے اور اسامہ کو بھیجا اور اسامہ کہتا ہے، یا رسول اللہ (ص) قبیلہ بنو، مخزوم ایک بڑا اور نامور قبیلہ ہے، لہٰذا اس عورت پہ حد جاری نہ کی جائے تاکہ اس قبیلہ کی عزت بچ جائے۔ جس پر رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ، "یا اسامہ انما ضل من قبلکم ۔۔۔۔۔" اے اسامہ ہم سے پہلے والے لوگ اگر گمراہ ہوئے تو اس کی وجہ یہ تھی کہ جب کوئی شریف جرم کرتا تھا تو اس پر قانون نافذ کیا جاتا تھا لیکن جب کوئی امیر جرم کرتا تھا تو اس کو چھوڑ دیا جاتا تھا مگر اس ذات کی قسم، جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے کہ اگر یہ جرم میری بیٹی فاطمہ بھی کرتی تواس کے ہاتھوں کو قطع کرتا۔ گویا اسلام میں قانون کی نظر میں سب برابر ہے۔ اس میں امیر غریب میں کوئی تفریق نہیں ہے۔ ہم ایک ایسے وقت میں میلاد مصطفٰی (ص) منا رہے ہیں جہاں سب سے زیادہ جہالت، اقربا پروری، طبقاتی نظام اور نسلی امتیازات پائے جاتے ہیں۔ لہٰذا میلاد مصطفٰی (ص) کا انعقاد اس لئے کیا جائے، تاکہ ایسا ملک اور معاشرہ بنایا جائے جہاں رسول (ص) کے اصولوں کو اپنایا جائے تاکہ ایک مثالی ملک اور معاشرہ بنایا جا سکے۔
خبر کا کوڈ : 827579
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش