QR CodeQR Code

ہمارے پاس کیا نہیں، جو سید علی گیلانی کو درکار ہے!

17 Nov 2019 18:37

اسلام ٹائمز: پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ امریکی ایماء پر افغان جنگ کے نتیجے میں بچے کھچے جہادی عناصر کو کشمیر کیلئے استعمال کرنیکی کوشش کی گئی، اس دوران ہر جمہوری آواز کو دبایا گیا، آج وہی جتھے نہ صرف پاکستان کی اقتصادی تباہی، سیاسی تنہائی، خارجہ پالیسی کے ذریعے قومی مفادات کے حصول میں رکاوٹ اور مسئلہ کشمیر پہ بنیادی کردار کی راہ میں رکاوٹوں کا باعث ہیں، بلکہ عالمی اداروں کی پابندیوں کے ہاتھوں مجبور حکومت کی جانب سے جہاد کی مخالفت کے اعلانات نے معاشرے کو بین السطور یہ پیغام دیا ہے کہ ہم کشمیر کو بھول جائیں، ورنہ پاکستان کی جانب سے اٹھنے والی آواز کشمیریون کے لیے مشکلات کا باعث بن سکتی ہے۔


تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ

لوگوں کو اپنی مرضی سے فیصلے کرنے کا موقع فراہم کرنا جمہوری حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ نئی نسلوں کو پھلتا پھولتا دیکھنے کیلئے ضروری ہے کہ آزادانہ فضاء فراہم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ دوسری صورت میں شدت پسندی اور انتہاء پسندی کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں اور معاشرے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ اسی لیے عالمی استعماری طاقتیں جمہوریت کے نعرے کو پرفریب انداز استعمال کرتی ہیں اور دنیا بھر میں غیر جمہوری حکومتوں کی سرپرستی کرتی ہیں۔ جسکا ایک نتیجہ تیسری دنیا میں غیرمستحکم سیاسی نظام ہے۔ پاکستان میں الیکشن اور سلیکشن کی بحث کا تعلق اصولی طور پر انہی مسائل سے ہے۔ جہاں یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ قومی انتخابات عوامی امنگوں کے مطابق نہیں تھے اور نہ ہی حکومت کے انتخاب میں جمہوری اصولوں کی پیروی کی گئی ہے۔ لیکن اصل مسئلہ اس بھی سنگین ہے، سیاسی جماعتوں میں ہی جمہوری طرزِ عمل کا فقدان ہے، تبھی وہ کسی سیڑھی کے سہارے مسند اقتدار تک پہنچتی ہیں، شور شرابا اس وقت ہوتا ہے جب باری کسی اور کی آ جاتی ہے۔

زندگی کوئی سراب نہیں، معروضی حقائق یہی ہیں کہ معاشرہ حکومت کے بغیر چل نہیں سکتا، آخر پاکستانی ریاست قائم ہے اور نظام بھی چل رہا ہے، اگر اس نظام میں جمہوری اصولوں کی پاسداری نہیں ہو رہی تو اس کا ذمہ دار کوئی ایک نہیں، معاشرے کے تمام اہم گروہ، ادارے اور جماعتیں ہیں۔ پاکستان ایک آزاد، خودمختار ملک ہے، سیاسی آزادی قائم ہے، زیادہ تر مسائل کی جڑ داخلی خلفشار ہے۔ پاکستان معاشرہ دھڑکتے دل کی مانند ہے، جس کی دھڑکن ماند نہیں پڑتی، زندگی باقی رہتی ہے، اگر فضاء میں آزادی کی خوشبو شامل ہوتی رہے تو ترقی کی منزل حاصل ہو سکتی ہے۔ کشمیر کو پاکستان سے جدا کرنیکی کوششیں شروع سے ہی جاری ہیں، بھارت کی جانب سے پاکستان کی سالمیت کو ختم کرنیکی کوششوں کا اہم حصہ کشمیر کی حیثیت کو بدلنا ہے۔ پاکستانی عوام کے دل کشمیریوں کے دلوں کیساتھ دھڑکتے ہیں، کشمیری بھی اپنے آپ کو پاکستان کا لازمی جزو سمجھتے ہیں۔ قائد حریت سید علی گیلانی نے موجودہ وزیراعظم کو خطوط کے ذریعے اس امر کی طرف متوجہ کیا ہے کہ کشمیری پاکستان کو اپنا ملک سمجھتے ہیں، پاکستان اپنا کردار ادا کرے۔

آزادی انسان کا اولین حق اور انسانی ضرورت ہے، اس کے بغیر انسانی شرف اور انسانی حقیقت کا تصور محال ہے۔ جدید دور کا ایک واضح تناقص آزادیوں پر قدغن کو جمہوری فضاء کا نام دینا ہے، جہاں عوام کو نہ ہی اپنی رائے دہی کا حق حاصل ہے، نہ ہی مذہبی آزادی میسر ہے۔ اسکی بدترین مثال فلسطین اور کشمیر ہیں۔ عالم اسلام کی مجموعی صورتحال نہایت دگرگوں ہے، نہ صرف مسلمان ممالک میں انسانی آزادیوں کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا ہے، نہ یہ ممالک فلسطین اور کشمیر کے مسلمانوں کو آزادی دلوانے کیلئے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ سید علی گیلانی کا وزیراعظم کے نام خط، پاکستانی حکومت، عوام اور پورے معاشرے کے نام ایک انسانی اور اسلامی رشتے کی بنیاد پہ کی جانیوالی اپیل ہے۔ مسلمان ہونے کے ناطے اسکا جواب واجب ہے، بدقسمتی سے اقوام متحدہ میں تقریر کے علاوہ موجودہ حکومت عزم و حوصلے کیساتھ کوئی قابل ذکر اقدام نہیں اٹھایا۔ ایک مثبت پہلو کی طرف اشارہ ضروری ہے کہ موجودہ حکومت نے اقلیتوں کو مکمل آزادی دی ہے، بالخصوص مذہبی آزادیوں کیلئے سازگار ماحول بنایا ہے۔

کشمیر بھی ایک ایسا ایشو ہے، جس پہ وزیراعظم یہی کہہ رہے ہیں کہ سابقہ حکومتوں نے اس پہ کچھ نہیں کیا، سب سے زیادہ نشانہ مولانا فضل الرحمان کو بنایا جا رہا ہے۔ حقیقت میں وزیراعظم پاکستانی عوام کے جذبات کو جھنجھوڑنے میں بھی ناکام رہے ہیں، نہ وزارت خارجہ کو کوئی کردار ادا کر رہی ہے، اقوام متحدہ میں تقریر سے پہلے جو سفارتی کوششیں کی گئیں، وہ لگتا ہے، وزیراعظم کی مقبولیت میں اضافے اور مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ کو کاونٹر کرنے جیسے مقاصد تک محدود تھیں، کشمیری مظلوم کی مدد کرنا اور بھارت کو جارحیت سے باز رکھنا حکومت کے اہداف میں شامل ہی نہیں تھا۔ اس کے باوجود سید علی گیلانی نے عمران خان کا شکریہ ادا کیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کشمیریوں کی امنگوں اور امیدوں کا مرکز پاکستان ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے حکومت کو ہلا کر اپوزیشن رہنماؤں کو ریلیف دلوایا ہے، لیکن مسئلہ کشمیر کا انہوں نے کہیں ذکر نہیں کیا، جس سے کشمیریوں کو مزید نقصان پہنچا۔ اس کے باوجود حکومت کشمیر کاز پہ پہنچنے والے نقصان کو عوام کے سامنے پیش کرنے سے کتراتی رہی، وجہ یہی ہے کہ خود حکومتی اقدامات اتنے غیر موثر تھے کہ جن کا ذکر حکمران جماعتوں کیلئے شرمندگی کا باعث ہے۔

کشمیر کے ٹھیکیداروں میں سے سوائے جماعت اسلامی کے کوئی اس پوزیشن میں نہیں کہ جو خود اپنے ملک پاکستان میں ہی آواز بلند کر سکیں، پاکستانی عوام کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنی ہی حکومت پر دباو ڈال سکیں کہ ریاستی وسائل کو کشمیریوں کے زخموں پہ مرہم رکھنے کیلئے استعمال کیا جائے، موثر کردار ادا کیا جائے۔ حکمران جماعت صرف عالمی استعماری طاقتوں کے مفادات کے محافظ مالیاتی اداروں کی پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے اور اندرونی طور پر کمزور ترین حکومت کو دو چار قدم چلانے کو ہی اپنی ترجیح بنا چکی ہے، اپوزیشن تذبذب کا شکار ہے، مذہبی جماعتیں وسیع البنیاد سیاسی اتحادوں کا حصہ ہیں، جو اس دائرے کو ہی سمندر تصور کیے ہوئے ہیں، ملی یکجہتی کونسل کشمیر کے لیے اب بھی اہم رول پلے کر سکتی ہے، لیکن اے ایف ٹی ایف کی جانب سے پاکستان جن سختیوں اور پابندیوں کا شکار بنا دیا گیا ہے، اس معاملے میں بھارت کو مات دیئے بغیر کوئی حل نکالنا کافی مشکل ہے۔ اس غلط فہمی کا دور ہونا ضروری ہے کہ کالعدم تنظیموں پر پابندی داخلی پالیسی کے نتیجے میں لگائی گئی، بلکہ یہ عالمی مالیاتی اداروں کے بے مہابہ دباؤ کے ردعمل میں، معاشی عتاب سے بچنے کی ایک کوشش تھی۔ کشمیر کے نام پر غیرفطری بنیادوں پر گھڑے گئے بتوں کے علاوہ ہر کسی کا گلہ دبایا گیا، اب کیا ہے، خاموشی اسکا نتیجہ ہے۔

پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ امریکی ایماء پر افغان جنگ کے نتیجے میں بچے کھچے جہادی عناصر کو کشمیر کیلئے استعمال کرنیکی کوشش کی گئی، اس دوران ہر جمہوری آواز کو دبایا گیا، آج وہی جتھے نہ صرف پاکستان کی اقتصادی تباہی، سیاسی تنہائی، خارجہ پالیسی کے ذریعے قومی مفادات کے حصول میں رکاوٹ اور مسئلہ کشمیر پہ بنیادی کردار کی راہ میں رکاوٹوں کا باعث ہیں، بلکہ عالمی اداروں کی پابندیوں کے ہاتھوں مجبور حکومت کی جانب سے جہاد کی مخالفت کے اعلانات نے معاشرے کو بین السطور یہ پیغام دیا ہے کہ ہم کشمیر کو بھول جائیں، ورنہ پاکستان کی جانب سے اٹھنے والی آواز کشمیریون کے لیے مشکلات کا باعث بن سکتی ہے۔ اس کے باوجود جماعت اسلامی کی جانب سے عوامی سطح پر کشمیریوں کے حق میں سرگرمیوں کا سلسلہ جاری ہے، جس میں معاشرے کے دیگر طبقات، گروہوں اور جماعتوں کی شمولیت سے یہ زیادہ موثر ہو سکتا ہے۔ یہاں بھی مسلکی حدود میں مقید سوچ حائل ہے، جیسے مجموعی طور پر پاکستان میں حاوی غیر جمہوری سوچ کا غلبہ ہے، اسکا سب سے بڑا نقصان کشمیر کاز کو ہو رہا ہے۔ پاکستان کا مستقبل بنیادی انسانی آزادیوں کی فراہمی اور عوامی شعور کی بیداری میں ہے، ورنہ اس دنیا میں اور آخرت میں ہمیں کشمیری ماؤں، بہنوں، بینٹیوں اور شہیدوں کے سامنے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑیگا۔


خبر کا کوڈ: 827844

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/827844/ہمارے-پاس-کیا-نہیں-جو-سید-علی-گیلانی-کو-درکار-ہے

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org