QR CodeQR Code

سوشل میڈیا کا ہتھیار، لبنان و عراق کے مظاہرے اور نئی امریکی چالیں

19 Nov 2019 16:41

اسلام ٹائمز: شام اور عراق میں شکست، یمن میں اربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود سوائے شرمندگی کے کچھ نہیں ملا اور لبنان تو پہلے سے ان کے ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ یہ صورتحال اس عالمی جبر اور استکبار کے ورلڈ آرڈر کے بالکل خلاف تھی۔ انہوں نے جو سوچا تھا اس کا الٹ ہو رہا تھا، وہ اس بدامنی کو نئے مشرق وسطیٰ کی پیدائش کا درد زہ کہہ رہے تھے اور انسانیت کے قتل پر خاموش ہی نہیں حصہ دار بھی بن رہے تھے۔ یہ لوگ کبھی بھی شکست تسلیم نہیں کرتے، اگرچہ پسپائی اختیار کر لیتے ہیں اور بہت سی جگہوں پر یہ ان کے پلان کا حصہ ہوتا ہے، مگر جلد ہی نئی سازش تیار کر کے میدان میں آ جاتے ہیں۔ اب کی بار انہوں نے نئی سازش تیار کی اور اسلحے کی بجائے سوشل میڈیا کے ذریعے عوامی بغاوت کا راستہ اختیار کیا۔


تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

پانچ سات سال پہلے مشرق وسطیٰ میں بساط کچھ ایسے بچھائی گئی تھی کہ ہر جگہ خون ہی خون تھا۔ شام میں حالات اس قدر خراب کرا دیے گئے کہ باقی شام کا چھوڑیں خود دمشق کا بڑا حصہ باغیوں کے قبضے میں چلا گیا۔ یوں لگ رہا تھا کہ صبح بیدار ہوں گے اور یہ خبر ہو گی کہ شام پر باغیوں کا قبضہ ہو گیا یا یہ خبر ملے گی کہ بشار الاسد خاندان اور قربیی ساتھیوں سمیت شام سے فرار ہو گئے۔ حالات نے پلٹا کھایا اور ایسا کچھ نہ ہو، امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو منہ کی کھانی پڑی اور بڑے بے آبرو ہو کے تیرے کوچے سے ہم نکلے کا  مصداق بن گئے۔ اگرچہ تیل کے کنووں اور ترکی کے ذریعے کچھ علاقے پر براہ راست قابض ہیں، مگر وہ فرعونیت کب کی چلی گئی، جس میں تحکم  کے انداز میں آرڈرز دے رہے تھے، اب بہت کم پر بھی راضی ہو رہے ہیں۔ عراق کے حالات بھی اسی طرح کے تھے، داعش کی فورسز بڑھی چلی آ رہی تھیں، تکریت اور چند دوسرے علاقوں میں ہونے والے مظاہروں میں فرقہ واریت محسوس کی جا رہی تھی، اسے خوب استعمال کیا گیا۔

موصل میں دو ہزار شیعہ کیڈٹس کے قتل عام نے عراقی عوام اور فوج کے حوصلوں کو پست کر دیا اور بہت سے جرنیل تو داعش کے اصل مالکوں کے رابطے میں تھے، انہی غداروں کی وجہ سے بڑی بڑی چھاونیاں بغیر کسی لڑائی کے داعش کے قبضے میں چلی گئیں۔ جب یہ لوگ بغداد سے چالیس پچاس کلومیٹر تک پہنچ گئے اور کربلا و نجف کے مقدس مقامات بھی ان کی دسترس میں جانے کا خظرہ پیدا ہو گیا، اس کے بعد انہوں انہوں نے کیا کرنا تھا؟، یہ بہت واضح تھا۔ انسانوں کو زندہ جلانے والے یہ درندے نجف، کربلا اور بغداد کے دروازوں پر دستک دے رہے تھے۔ اس بدامنی اور افراتفری کا سب سے بڑا فائدہ اٹھانے والا اسرائیل تھا، کہ بڑی حکمت سے ایک گولی چلائے بغیر مشرق وسطیٰ کو فتح کر رہا تھا۔ وہ بڑی خاموشی سے داعش کو اسلحہ فراہم کرتا، ان کے زخمیوں کا علاج معالجہ کرتا اور جہاں ضرورت ہوتی بالخصوص شام میں فضائی حملے کرتا۔ استکبار نے یہ پروگرام بنایا اور ایک پروگرام اللہ نے بھی بنایا   قرآن مجید نے اس کو بڑی  خوبصورتی سے بیان کیا ہے: وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ ۖ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ، اور انہوں نے خفیہ تدبیر کی اور الله نے بھی خفیہ تدبیر فرمائی اور الله بہترین خفیہ تدبیر کرنے والو ں میں سے ہے۔

ایسے وقت میں آیۃ اللہ العظمی سید علی حسینی سیستانی نے دفاع مقدس کا فقیدالمثال فتوٰی دیا، جس میں اہلِ عراق پر وطن اور ناموس کے تحفظ کو ضروری قرار دیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی حالات نے پلٹا کھانا شروع کر دیا، وہ داعش جو عراق پر قابض ہوا چاہتی تھی، اسے شکست پر شکست ہونے لگی، اس کا علاقہ سکڑنے لگا، کیونکہ پلانٹڈ تھی، مقامی جڑیں نہیں تھیں، نظریہ اور لوگ باہر سے مسلط کیے لوگ تھے۔ اس لیے تمام تر مزاحمت اور وسائل کے باوجود جلد شکست کھا گئی اور اب صحرا میں چند بھٹکے لوگوں کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ شام اور عراق میں شکست، یمن میں اربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود سوائے شرمندگی کے کچھ نہیں ملا اور لبنان تو پہلے سے ان کے ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ یہ صورتحال اس عالمی جبر اور استکبار کے ورلڈ آرڈر کے بالکل خلاف تھی۔ انہوں نے جو سوچا تھا اس کا الٹ ہو رہا تھا، وہ اس بدامنی کو نئے مشرق وسطیٰ کی پیدائش کا درد زہ کہہ رہے تھے اور انسانیت کے قتل پر خاموش ہی نہیں حصہ دار بھی بن رہے تھے۔ یہ لوگ کبھی بھی شکست تسلیم نہیں کرتے، اگرچہ پسپائی اختیار کر لیتے ہیں اور بہت سی جگہوں پر یہ ان کے پلان کا حصہ ہوتا ہے، مگر  جلد ہی نئی سازش تیار کر کے میدان میں آ جاتے ہیں۔

اب کی بار انہوں نے نئی سازش تیار کی اور اسلحے کی بجائے سوشل میڈیا کے ذریعے عوامی بغاوت کا راستہ اختیار کیا۔ لبنان اور عراق پہلے مرحلے میں ان کی توجہ کا مرکز تھے۔ لبنان میں وٹس ایپ کال پر ٹیکس کو بہانہ بنا کر لبنانی حکومت کے خلاف عوام کو گمراہ کیا گیا اور بڑی تعداد میں لوگوں کو سڑکوں پر نکالا گیا۔ لبنان کی حکومت کی کسی بھی پیش کش کو قبول نہیں کیا گیا، بلکہ ریاستی تبدیلیوں کا مطالبہ کیا گیا، جن کا مرکز و محور حزب اللہ اور دیگر آزادی پسند قوتوں کو کمزور کرنا  تھا۔ عراق میں بیروزگاری جیسے اہم مسئلے کو بنیاد بنا کر احتجاج کے نام پر آگ لگائی گئی، عوامی املاک کو نقصان پہنچایا گیا، بڑی چالاکی سے اس کا ذمہ دار ایران اور عراق میں موجود مرجعیت کو قرار دینے کی کوشش کی گئی۔ تعجب ہوتا ہے کہ انسان اس قدر پروپیگنڈا کا شکار ہو سکتا ہے؟ وہ مرجعیت جو عراقی نظام سیاست کا حصہ نہیں ہے، جو اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے عراق کی ریاست سے کوئی مالی تعاون نہیں لیتی، بلکہ ہمیشہ عراق کے مفاد میں بات کرتے ہیں، ان کے دفاتر پر حملے کیے گئے، احتجاج میں چند لوگوں نے اپنے مسائل کا ذمہ دار اسے قرار دیا۔ عراق کی عوامی رضا کار فورس، جس نے جانوں پر کھیل کر عراقی عوام کی حفاظت کی اور عراق کے بڑے حصے کو داعش سے آزاد کرایا، ان کے دفاتر پر حملے کیے گئے۔

اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ بڑی حکمت عملی سے چلائے جا رہے ہیں، عام عوام ان مظاہروں میں شریک ضرور ہے، مگر ان کو کچھ اور دکھا کر کچھ اور کرایا جا رہا ہے۔ عراق کے مظاہروں کو ہوا دینے میں سعودی سوشل میڈیا  بنیادی کردار ادا کر رہا ہے، وہ لوگوں عراقی ناموں اور عراق طرزِ تحریر سے حکومت، ایران اور عوامی رضا کاروں کے خلاف بھڑکا رہے ہیں۔ کسی بھی سیاسی پیشکش کو قبول کرنے سے روک رہے ہیں، یہ آگ لگانے اور آگ بھڑکانے کا کام کر رہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق سعودی عرب سے ۵۹۰۰۰ سوشل میڈیا اکاونٹس دن رات عراقی حکومت و ریاست کے  خلاف پروپیگنڈے پر لگے ہوئے ہیں۔ عراق اور لبنان میں ہونے والے مظاہروں میں کچھ باتیں مشترک ہیں، ایک تو دونوں جگہ ان کی کوئی قیادت نہیں، دونوں جگہوں پر یہ کوئی آئینی حل قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں، ان میں اکثریت نوجوانوں کی ہے، یہ لوگ سوشل میڈیا کے زور پر اکٹھے کیے گئے ہیں اور یہ لوگ ریاست اداروں اور ملت عراق و لبنان کے لیے قربانیاں دینے والوں کے خلاف بول رہے ہیں۔ جس طرح گولی اور بندوق کے زور پر کیے گئے حملے پر دشمن کو شکست ہوئی ہے، اسی طرح عراق اور لبنان کی عوام کے عزم اور سیاسی شعور  سے انہیں اس سوشل میڈیائی حملے میں بھی ناکامی ہو گی۔


خبر کا کوڈ: 828043

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/828043/سوشل-میڈیا-کا-ہتھیار-لبنان-عراق-کے-مظاہرے-اور-نئی-امریکی-چالیں

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org