2
0
Tuesday 19 Nov 2019 19:47

وحدت کانفرنسیں، ڈیوائیڈ نہیں یونائیٹڈ ہونا ہوگا

وحدت کانفرنسیں، ڈیوائیڈ نہیں یونائیٹڈ ہونا ہوگا
لاہور سے ابوفجر کی رپورٹ
 
وحدت اور بھائی چارے کے فروغ کیلئے ایک ہی دن میں ایک ہی شہر (لاہور) میں ایک ہی مکتبِ فکر کی 2 الگ الگ ’’وحدت کانفرنسیں‘‘ منعقد ہوئیں۔ ایک کانفرنس ’’ختم نبوت و وحدت امت‘‘ کے عنوان سے جامعہ عروۃ الوثقیٰ کی مسجد بیت العتیق میں ہوئی، جس کا اہتمام ’’تحریک بیداری امت مصطفیٰ‘‘ کے سربراہ علامہ سید جواد نقوی کی جانب سے کیا گیا تھا۔ اس کانفرنس میں شیعہ، سنی، دیو بندی، بریلوی سمیت تمام مکاتب فکر کے علماء و عمائدین نے شرکت کی۔ دوسری کانفرنس مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے زیراہتمام ایجرٹن روڈ پر ایوان اقبال میں ’’وحدت کانفرنس‘‘ کے عنوان سے منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس میں گورنر پنجاب چودھری محمد سرور مہمان خصوصی تھے جبکہ ان کی اہلیہ اور سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والے رہنماوں نے بھی شرکت کی، جبکہ اس کانفرنس میں بھی شیعہ سنی تمام مکاتب فکر کے عمائدین شریک ہوئے۔

پاکستان کو اس وقت وحدت کی جتنی ضرورت ہے، اس سے پہلے کبھی نہیں تھی، یہ دونوں کانفرنسیں وحدت کے فروغ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ یقیناً اس کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ دونوں کانفرنسوں کے منتظمین کی نیت پر شک نہیں کیا جا سکتا۔ دونوں کا مقصد تمام مسالک میں وحدت و بھائی چارے کو فروغ دینا ہی تھا۔ اس میں کافی حد تک کامیاب بھی رہے۔ جامعہ عروۃ الوثقیٰ میں نماز ظہر دیو بندی عالم دین مولانا زاہد الراشدی کی اقتداء میں ادا کی گئی۔ یقیناً یہ بہت بڑی تبدیلی تھی۔ وہی دیو بندی عالم دین جس کے والد نے شیعہ کیخلاف کفر کے فتوے لگائے تھے۔ مگر یہ اسلام کی کامیابی کی طرف ہی ایک قدم ہے کہ اسی طرح مستقبل میں توقع کی جا سکتی ہے کہ تمام مسلم مکاتب فکر مزید ایک دوسرے کے قریب آئیں گے۔

پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ ایسے علماء میسر ہیں، جو وحدت کی بات کرتے ہیں، جو قتل و غارت اور مار دھاڑ کے حق میں نہیں، جو اسلام کی بقاء تمام مکاتب فکر کے باہمی اتحاد میں ہی دیکھتے ہیں۔ مگر افسوس کہ کچھ ایسے لوگ ابھی موجود ہیں، جو ایک دوسرے کو برداشت نہیں کر رہے۔ مولانا زاہد الراشدی کی نماز پڑھانے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ دیوبندی مکتب فکر کے بہت سے لوگ مولانا زاہد الراشدی کے شیعہ مسجد میں جا کر نماز پڑھانے کے اقدام کو پسند نہیں کر رہے بلکہ مولانا زاہد الراشدی پر کڑی تنقید کی جا رہی ہے۔ یہ مائنڈ سیٹ شائد حقائق سے لاعلم ہے۔ کالعدم سپاہ صحابہ کی قیادت بھی تسلیم کرچکی ہے کہ ماضی میں ان سے غلطیاں ہوئیں اور وہ (شیعوں کیخلاف) استعمال ہوئے۔ اب نئی نسل کو ان کی دی ہوئی فکر کو ہی لیکر نہیں بیٹھ جانا چاہیئے بلکہ یہ دیکھنا چاہیئے کہ اسلام کی بقاء کس میں ہے۔

ماضی میں شیعہ سنی نے ایک دوسرے کیساتھ لڑ جھگڑ کر قتل و غارت کرکے کیا حاصل کیا؟؟ اسلام اور پاکستان کا نقصان ہوا، عالمی سطح پر اسلام کا چہرہ دہشتگردانہ پیش کیا گیا۔ اگر اب علماء نے ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا شروع کیا ہے تو نسل نوء کو بھی کشادہ دلی کا مظاہرہ کرنا چاہیئے اور وحدت کے فروغ کیلئے کوششوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیئے نہ کہ مولانا زاہد الراشدی کی اتحاد امت کیلئے کاوشوں پر انہیں تنقید کا نشانہ بنانا چاہیئے۔ لیاقت بلوچ نے بہت زبردست بات کی کہ دیو بندیوں نے اللہ، بریلویوں نے رسول اور شیعوں نے اہلبیت کو ہی پکڑ لیا اور تینوں نے اپنا اپنا حصار بنا لیا۔ یہ بات بھی درست ہے کہ ماضی میں ایسا ہی ہوا ہے، مگر اللہ ہو یا رسول، اہلبیت ہوں یا صحابہ، سب ہماری مشترکہ میراث ہیں۔ ہمیں انہیں تقسیم نہیں کرنا چاہیئے اور وحدت کیلئے حالیہ اقدامات بھی اسی تسلسل کی کڑی ہیں کہ مشترکات میں جمع ہوں۔ اگر وحدت سے اسلام کو دوام ملتا ہے تو اس میں کیا قباحت ہے؟ یقیناً مولانا زاہد الراشدی پر تنقید کرنیوالے وحدت اسلامی کے دور رس تنائج سے لاعلم و لابلد ہیں۔

ماضی میں اسی فرقہ واریت نے اسلام اور پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ یہ بے گناہوں کے خون کی تاثیر ہی ہے کہ آج دونوں مخالف مکاتب فکر کے علماء نہ صرف ایک میز پر بیٹھ جاتے ہیں بلکہ نمازیں بھی اکٹھی پڑھتے ہیں۔ ایم ڈبلیو ایم کی وحدت کانفرنس سے خطاب میں گورنر پنجاب نے اپنے سامنے درباروں کے گدی نشینوں کو بیٹھے دیکھا تو اپنی تقریر ہی صوفیاء کی خدمات پر کر ڈالی۔ گورنر کا کہنا تھا کہ برصغیر میں اسلام کے پھیلانے کا کریڈٹ صوفیا اور اولیاء کرام کو جاتا ہے، جنہوں نے محبت اور اتحاد کا پیغام دیا۔ ایم ڈبلیو ایم کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس نے مسلمانوں کی صفوں میں موجود غیر ملکی ایجنٹوں کی نشاندہی کی۔ انہوں نے کہا کہ یہ فتنوں کا دور ہے، دشمن کھل کر سامنے آچکا ہے، نفاق کے چہرے سے پردہ ہٹ چکا ہے۔ علامہ راجہ ناصر عباس کا کہنا تھا کہ اسلام کیخلاف سازشیں کرنیوالے بے نقاب ہوچکے ہیں تو ہمیں باہمی وحدت سے ہی انہیں ناکام بنانا ہوگا۔

ڈاکٹر راغب حسین نعیمی، صاحبزادہ حامد رضا، اعجاز چودھری، مفتی عاشق حسین، مولانا غلام حر شبیری، پیر معصوم نقوی، سردار مہندر پال سنگھ، علامہ سید نیاز نقوی، آغا سید محمد رضا، سیدہ زہرا نقوی، صاحبزادہ عبدالماجد، شفیق بٹ اور پیر اعجاز ہاشمی سمیت دیگر رہنماوں نے بھی شیعہ سنی وحدت کی ضرورت پر زور دیا۔ لاہور کی سرزمین پر منعقد ہونیوالی دونوں کانفرنسوں کا مقصد ’’وحدت‘‘ تھا، دونوں کانفرنسوں کے منتظمین نے مختلف مکاتب فکر کے علماء و زعماء کو ایک پلیٹ فارم پر متحد بھی کر لیا۔ یہ ایک بڑی کامیابی ہے۔ مگر اس سے بھی بڑی کامیابی یہ ہوتی کہ یہ کانفرنسیں خود بھی وحدت کی مثال پیش کرتے ہوئے ایک ہی جگہ پر ہوتیں تو دنیا کو اس سے زیادہ مضبوط پیغام جاتا کہ ہم ایک ہیں۔ الگ الگ بیٹھ کر وحدت کا راگ الاپنا ممکن ہے منتظمین کیلئے درست اقدام ہو، دنیا اسے گروہ بندی ہی سمجھتی ہے اور جہاں گروہ بندیاں ہوں، وہاں حکمرانی کوئی اور کرتا ہے، کیونکہ ’’ڈیوائیڈ اینڈ رول‘‘ کس کا اصول ہے، اس سے سب آگاہ ہیں۔ ہمیں ڈیوائیڈ نہیں یونائیٹڈ ہونے کی ضرورت ہے۔ تبھی وحدت کا مقصد پورا ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 828079
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

سجاد مفتی
Pakistan
کسی کی نیت پر شک کیے بغیر دیکھا جائے تو یہ ایک نیک اور مستحسن قدم ہے لیکن برصغیر کی نفسیات یہ ہے کہ یہاں کے لیڈر دوہرا معیار رکھتے ہیں، نیک نامی کے لیے وہ کچھ کرتے اور بولتے ہیں لیکن اپنی برادری میں جا کر وہ دوسرے کی تکفیر اور تفسیق کرتے ہیں۔ مذکورہ بالا وحدت کانفرنسوں سے بھی امت کو کوئی فائدہ نہیں ملے گا۔ نشستند و گفتند و برخاستند۔
امت کے لیے عملی طور پر قابل عمل کوئی راہ حل پیش نہیں کی گئی۔ مشترکہ عقائد و اعمال کی کوئی متفق علیہ فہرست تک نہیں دی گئی۔ اس قسم کے چلے ہوئے کارتوس تو ملی یکجہتی کونسل اور متحدہ مجلس عمل کے ذریعے بھی چلائے گئے تھے، لیکن معقول، قابل عمل اور واضح دستور العمل و طریقہ کار کے فقدان نیز وقتی مصلحت پسندی کے بجائے خالص محمدی جذبے کے فقدان کی بنا پر اتحاد امت کا عمل صرف نیم مردہ جذبے سے آگے نہ بڑھ سکا۔ ضیاء الحق کے ریفرنڈم کی طرح ہر پارٹی اور گروپ لیڈر یہی چاہتا ہے کہ اگر اتحاد امت کا خواہاں ہو تو مجھے ہی امام امت مان لو، پھر آنکھ بند کرکے میرے سامنے سمعا و طاعۃ کی عملی تصویر بن جاؤ۔ ہماری یہی ہندی مزاج اتحاد امت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اللہ ہم سب کو صدق دل سے امت واحدہ بننے کے تقاضوں کو پورا کرنے کی توفیق بخشے۔آمین
Pakistan
اس میں کیا مضائقہ ہے کہ دو الگ الگ کانفرنس ہوئی ہیں، عزاداری کی درجنوں پروگرامات ہوتے ہیں، کیا ایسا ممکن ہے کہ صرف ایک ہی عزاداری کا پروگرام ہو، ایک پروگرام قومی جماعت کی طرف سے تھا، دوسرا ایک شخصیت کی طرف سے تھا، دونوں کو حق حاصل ہے کہ پروگرامات کرائیں۔ آپ اتحاد بین المومنین کی طرف نشاندہی کرتے تو زیادہ بہتر تھا، ہم دوسروں کے ساتھ تو بیٹھ سکتے ہیں مگر اپنوں کے ساتھ نہیں۔۔
ہماری پیشکش