0
Saturday 23 Nov 2019 10:03

معاشرے کے پسماندہ افراد کا خیال رکھنا ناگزیر

معاشرے کے پسماندہ افراد کا خیال رکھنا ناگزیر
رپورٹ: جے اے رضوی

سماج کے غریب اور کمزور طبقے امیر و صاحب دولت لوگوں کے لئے امتحان کے طور پر سرزمین پر رکھے گئے ہیں۔ ورنہ اللہ تعالی کو ان کی حالت تبدیل کرنے کی پوری طاقت ہے اور جس نے صاحب ثروت لوگوں کو بغیر حساب رزق عطا کرکے دولت مند بنادیا، لیکن ان کو غریب بناکر صاحب ثروت لوگوں کو آزمائش میں ڈال دیا، جو آزمائش میں کھرا اترا وہ امیاب ہوگیا۔ کیونکہ جو اس حق کو پورا کرنے کے لئے اپنی دولت میں سے بروئے شریعت زکوٰۃ، صدقات، نظر و نیاز دیکر ان کمزور طبقوں کی خدمت کرتا ہے وہی اللہ کے نزدیک برگزیدہ اور محترم انسان ہے، کیونکہ امیری یا غریبی میں تغیر و تبدیل ایک لازمی امر ہے اور یہ انکھوں دیکھا حال ہے کہ جو شاہ ہیں وہ زوال پذیر ہوکر گدا ہوئے جبکہ گداؤں پر اللہ نے فضل و کرم کی نگاہ کی وہ مالا مال بنے۔ بہتر حالات اور مفلسی سے نجات کے لئے یہاں ذاتی کاوشوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ رب العزت نے ہمیں یہ توانائی اور طاقت دی ہوتی ہے کہ ہم محنت و مشقت سے اپنے حالت بدل سکتے ہیں۔ غریبی یا امیری مقدر کا لکھا ہوا بھی نہیں ہے۔ اب ہم جس حالت میں بھی ہیں ہمارے اوپر کچھ ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں ان ذمہ دارایوں کو پہچنانے کی ضرورت ہر وقت ہوتی ہے۔
 
یہاں یہ بات کہنا مقصود ہے کہ وادی کشمیر میں حکومتی سطح پر جسمانی طور ناخیز افراد، بیواؤں، یتیم بچوں، غریبی کی سظھ سے نیچے زندگی بسر کرنے والے افراد کی بازآبادکاری اور امداد کیلئے بلند بانگ دعوے کئے جاتے ہیں لیکن زمینی سطح پر اس کا منفی اثر دیکھنے میں ملتا ہے۔ اگرچہ محکمہ سماجی و بہبود ان کی امداد کے لئے قائم ادارہ جس می ان مفلوج الحال اور پسماندہ لوگوں کی امداد کے نام پر مختلف اسکیموں کے تحت خزانہ عامرہ سے رقومات واگزار تو کئے جاتے ہیں لیکن یہ رقوم صحیح دھنگ سے مستحقین میں تقسیم نہیں کئے جاتے ہیں، ان رقوم کا صحیح استعمال کرنے کے بجائے خرد برد کرنے میں کوئی کسی باقی نہیں چھوڑی جاتی ہے۔ ان باتوں کا انکشاف تب ہی ہوتا ہے جب ان بیواؤں، یتیم بچوں اور معذوروں کی امداد کے لئے واگذار ہوئے فنڈس من و عن ان تک نہیں پہنچائے جاتے ہیں۔ کبھی یہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے کی حکومتی سطح پر بھی امداد کی تقسیم کاری میں خورد برد کیا جاتا ہے۔ کبھی اعلٰی حکام ہی یتیموں اور بیواؤں کا مال ہڑپنے میں پیش پیش ہوتے ہیں، یعنی اگر عوامی سطح پر ان طبقے کے ساتھ نا اںصافی ہوتی ہے تو حکومتی اہلکاروں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔
 
ایک طرف سے وادی کشمیر میں پُرتناؤ حالات کے نتیجے میں ان طبقوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے دوسری طرف دور افتادہ اور پسماندہ لوگ ان امدادی اسکیموں سے بے بر ہیں وہ تو محکمہ ھٰذا میں اپنے فارم درج رنے سے بھی قاصر رہتے ہیں یا تو ان کی غربت کی یہ انتہا ہے کہ دفتر تک ان کو پہنچنے کے لئے انکے پاس کرایہ نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی رسائی ملتی ہے۔ حالانکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو‘‘ جو اللہ کے فضل و کرم سے صاحب دولت و ثروت ہیں پر سماج کے ان کمزور طبقوں کی امداد کرنا ان کی ذمہ داری ہے اور ان کا ہاتھ بٹانا ان لوگوں کا فرض ہے، لیکن سب کچھ اس کے برعکس سامنے آتا ہے۔ امداد کرنے کے بجائے ان کے نام پر مرکزی و عالمی سطح پر فراہم ہونے والی رقوامات کو ہڑپ کرنے میں کوئی پس و پیش نہیں چھوڑتے ہیں۔ یہاں کشمیر میں ایسے ہزاروں این جی اوز ہیں جو بھارت کی مختلف ریاستوں اور بیرون ملک سے بھی اس پسماندہ طبقے کے نام پر پیسے وصول کرتے ہیں لیکن ان کے حساب و کتاب کا کوئی اتہ پتہ نہیں ہے۔ ذمہ دار افراد و اداروں کو چاہیئے کہ ان این جی اوز جو بھی احتساب کے دائرے میں لائے تاکہ اس طبقے کے حقوق ضائع نہ ہوں۔
 
بھارت کی مختلف ریاستوں میں ان لوگوں کے ماہانہ مشاعرے ہزاروں میں ہوتی ہے لیکن ریاست جموں و کشمیر میں ماہانہ مشاعرے گنتی کے چند پیسے ہی ہوتے ہیں اور وہ بھی ان کو دفتروں کا بار بار طواف کرنے کے بعد کئی مہینوں کے بعد واگذرا ہوتے ہیں او نصف سال کا جمع کرنے کے باجود بھی ان بے چاروں کا کوئی کام ہی پورا نہیں ہوتا ہے کیونکہ دفتروں یا بنکوں کا چکر کاٹ کر اتنے پیسے انکو کرایہ پر ثرک ہوا ہوتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر صاحب ثروت ہر حال میں سماج کے معذروں، غریب بیواؤں، یتیم بچوں اور مفلوج الحال لوگوں کی بازآبادکای اور امداد کے لئے سرگرم عمل ہوجائیں۔ اگر حکومتی سطح پر اس حوالے سے کوئی پہل نہیں کی جاتی ہے تو ہمیں ذاتی طور پر اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا چاہیئے اور مفلوج الحال افراد کی بازآبادکاری کے لئے اقدام کرنے چاہیئے۔ کوئی تو ہو جو حالات کے مارے ان افراد کے لئے بے لوث خدمت کرے۔ یہاں ایسے افراد کی کمی نہیں جو ان معذروں، یتیموں اور بیواؤں کی امداد کرنا چاہتے ہیں لیکن ایسے معتبر و مخلص اداروں اور اشخاص کی ضرورت ہے جو آگے آئیں اور اس کام میں کلیدی رول ادا کریں۔ رب العزت ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنے معاشرے کے پسماندہ طبقے کی فلاح و بہبود کے لئے مخلصانہ خدمت کریں۔
 
خبر کا کوڈ : 828546
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش