0
Saturday 23 Nov 2019 12:44

بھارتیہ جنتا پارٹی میں اندرونی بکھراؤ کی قیاس آرائیاں

بھارتیہ جنتا پارٹی میں اندرونی بکھراؤ کی قیاس آرائیاں
رپورٹ: جے اے رضوی
 
بھارت کی جنوبی ریاست مہاراشٹر میں ایک ماہ قبل ہوئے اسمبلی الیکشن کے نتائج کے بھارتیہ جنتا پارٹی کے حکوم سازی کے دعوؤں کی قلعی کھل جانے کے بعد اب وہ اندرون ریاست ہی کیا بلکہ مرکزی سطح پر بھی اپنوں کے عتاب کا نشانہ بنتی جارہی ہے۔ شیو شینا جو اس سے مہاراشٹر میں علیحدگی کے بعد سے اپنی پر خاش نکالنے میں لگی ہوئی ہے تو وہیں  اب اس کے اپنے ہی پارٹی کے لیڈر بھی پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکر اسکو رسوا کررہے ہیں تو اس کے کام کے طور طریقوں اور خارجہ پالیسیوں پر جم کر حملے بھی کررہے ہیں۔ یہ سلسلہ اب تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے جو مہاراشٹر سے شروع ہوکر نئی دہلی کی گلیاروں سے گزرتا ہوا جھارکھنڈ اور پارلیمنٹ تک پہنچ گیا ہے، جس سے این ڈی اے میں پھوٹ اور بکھراؤ کی قیاس آرائیاں تیز تر ہوگئی ہیں۔ بی جے پی ان حملوں سے حواس باختہ ہے تو اب وہ اپنے زخموں کو مرہم کرنے میں بھی لگی ہوئی ہے۔ بھاجپا کی اندرونی خلفشاری دیکھ کر سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ آئندہ حکومت بی جے پی کی حکومت نہیں ہوگی۔ تجزیہ نگار یہ بھی مانتے ہیں کہ آئندہ برسوں میں شیو سینا بھارت بھر میں ایک مضبوط پارٹی کے طور پر ابھر سکتی ہے۔ ادھر نئی دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجروال نے اپنے ایک انٹرویو میں اس بات کا اشارہ کیا ہے کہ آئندہ کم سے کم نریندر مودی بھارت کا وزیراعظم نہیں بن سکتا ہے۔
 
دراصل یہ سچائی ہے کہ شیو شینا نے بھارت کو کانگریس سے آزاد بنانے کا نعرہ دینے والی بھارتیہ جنتا پارٹی سے مہاراشٹر میں علیحدگی کرکے اس کے تمام کس بل نکال دیئے ہیں۔ بی جے پی جو سب سے زیادہ سیٹیں جیت کر اب تک اس زعم میں مبتلا رہی کہ شیو سینا اس کی پرانی حلیف پارٹی ہے اور اسے چھوڑ کر کبھی نہیں جائے گی اب کف افسوس مل رہی ہے۔ شیو سینا نے پلک جھپکنے میں بی جے پی سے آنکھیں پھیر لیں، جو اس کے لئے کسی بڑے صدمے سے کم نہیں۔ اس کے ان صدموں کا سلسلہ مہاراشٹر سے شروع ہوتا ہے جو تا حال جاری ہے۔ یہ سچ ہے کہ بی جے پی اپنی سیاسی صلاحیت کے بل بوتے پر دوسرے سے اقتدار کی کنجی چھیننا جانتی ہے لیکن مہاراشٹر میں ایسا نہیں ہوسکا، اس کے شعم اور اڑیل رویہ اور ضد، جس میں ابھی تک یہ ثابت نہیں ہوپایا ہے کہ جھوٹ کون بول رہا ہے، نے اس کو کہیں کا نہیں چھوڑا اور اسے اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑگیا۔ دوسری جانب شیو سینا سے جدائی کا بی جے پی کا زعم ابھی تازہ ہی تھا کہ جھارکھنڈ میں اسے ایک اور نیا زخم ملا، جہاں لوک جن شکتی پارٹی نے اسے کناری کرکے تنہا الیکشن لڑنے کا اعلان کرڈالا، جبکہ جھارکھنڈ میں بی جے پی کی حلیف پارٹی جنتا دل یونائیٹڈ پہلے ہی تنہا الیکشن لڑنے کا اعلان کرچکی ہے جبکہ جھارکھنڈ اسٹوڈنٹ یونین نے بھی پہلے ہی کناری کشی اختیار کی ہوئی ہے۔
 
اب بی جے پی کے ان اپنوں کی بات کرتے ہیں، دو دن پہلے ہی جھارکھنڈ بی جے پی کے قدآور لیڈر سریو رائے نے پارٹی سے بغاوت کردی، اس خبر سے بی جے پی کے ہوش اڑے ہوئے ہیں۔ ریاست میں اپوزیشن نے اس بغاوی کو بڑا ایشو بنا رکھا ہے۔ بدعنوانی کو لیکر سریو رائے کے بیانات کو اپوزیشن پارٹیوں نے ریاست جھارکھنڈ میں حکومت کے خلاف پالیسی تیار کی ہوئی ہے۔ جھارکھنڈ کی اہم اپوزیشن پارٹی جے ایم ایم یعنی جھارکھنڈ مکتی مورچہ کے کارگزار صدر ہیمنت سورین نے سریو رائے کی بغاوت کو بدعوانی بنام ایمانداری کی لڑائی کا نام دیدیا ہے۔ جھارکھنٖڈ میں بی جے پی کے ریاستی لیڈر بھی اس قدم سے سخت مشکل میں نظر آرہے ہیں۔ اس سے صاف پتا چلتا ہے کہ بھاجپا کے اپنے بھی رفتہ رفتہ ساتھ چھوڑ رہے ہیں۔ ادھر آج بی جے پی کے ایک ممبر پارلیمنٹ نے چین کی دراندازی کے معاملے پر حکومت کو سخت سوالوں گھیرے میں لیا ہے، مذکورہ لیڈر کے اس رویہ سے بی جے پی جو اکثر پاکستان کے خلاف سینہ زوری کرتی رہتی ہے، وہ چین کے معاملے پر اس وقت آئین بائیں شائیں کرتی نظر آئی جب لوک سبھا میں مشرقی اروناچل سے بی جے پی رکن پارلیمنٹ تاپرگاؤ نے چین کے وسعت پسندانہ رویہ کو سامنے لاتے ہوئے اپنی ہی حکومت کی ایوان میں قلعی کھول دی۔
 
تاپرگاؤ نے کہا کہ اروناچل پردیش میں لگاتار چین دراندازی کررہا ہے اور اس نے بھارت کے کئی علاقوں پر قبضہ کرلیا ہے۔ یہ انتہائی سنگین ایشو ہے لیکن حکومت اس طرف توجہ نہیں دے رہی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر اس ایشو کو نہیں اتھاوں گا تو بھارت کی آنے والی نسل مجھے معاف نہیں کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ آج 50 سے 60 کلو میٹر سے زیادہ چین نے ہمارے علاقے پر قبضہ کرلیا ہے، اس لئے حکومت، ایوان اور میڈیا ہاؤس سے یہ اپیل کرنا چاہوں گا کہ اس ایشو کو اٹھائیں۔ بی جے پی کے لیڈر تاپرگاؤ نے کہا کہ اگر کوئی پاکستان کا ایشو آتا ہے تو وہ اٹھتا ہے، میڈیا میں خبریں آتی ہیں، لیکن چین اگر اروناچل پردیش میں قبضہ کرتا ہے تو وہ خبر کہیں نہیں آتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر وقت رہتے اروناچل پردیش پر مودی حکومت نے دھیان نہیں  دیا تو وہ دن دور نہیں جب اروناچل میں دوسرا ڈوکلام بن جائے گا، تب حکومت کے لئے بے حد مشکل ہوگا۔ ظاہر ہے تاپرگاؤ کے بیان سے اب بی جے پی کی دوہری پالیسی اجاگر ہوئی ہے اور اس کے پسینے چھوٹ رہے ہیں۔ اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بی جے پی کے اپنے بھی اس سے کتنے ناراض ہیں اور اس کا اپنی حلیف پارٹیوں کے ساتھ رویہ کیسا ہوگا کہ اس سے علیحدگی اختیار کرنے میں لگے ہیں۔ اس لحاظ سے تو بی جے پی کی مرکزی قیادت کو اپنا محاسبہ کرنا چاہیئے کہ کہیں وہ حلیف پارٹیوں اور اپنے کارکنان کے ساتھ کوئی زیادتی تو نہیں کررہی ہے۔ آخر کیوں بی جے پی کے کارکنان پارٹی کے ساتھ زیادہ دن رہنے کو تیار نہیں ہیں اور وہ پارٹی سے اس قدر دل برداشہ ہوئے ہیں کہ پارلیمنٹ میں سرعام اپنی ہی پارٹی کو بے نقاب کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
 
خبر کا کوڈ : 828547
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش