0
Saturday 23 Nov 2019 23:50

سانحہ کلائیہ کو سال بیت گیا، متاثرین کے زخم تازہ

سانحہ کلائیہ کو سال بیت گیا، متاثرین کے زخم تازہ
رپورٹ: ایس اے زیدی

خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی ضلع اورکزئی کا شمار ملک کے ان علاقوں میں ہوتا ہے، جہاں دہشتگردوں کے ہاتھوں عوام کو کبھی خودکش حملوں اور بم دھماکوں کا نشانہ بنایا گیا، کبھی طالبان ان کی زمینوں پر قابض ہوئے، کبھی انہیں بے گھر ہونا پڑا اور کبھی لشکر کشی کا سامنا کرنا پڑا۔ اورکزئی میں آج بھی عوام کو بنیادی سہولیات تک میسر نہیں، خیبر پختونخوا میں شامل ہونے کے باوجود بھی اس علاقہ کے عوام کو شدید مشکلات اور بنیادی ضروریات کے فقدان کا سامنا ہے، جس سے اس علاقہ کی پسماندگی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ضلع اورکزئی میں آبادی کے تناسب سے 18 سے 20 فیصد شیعہ عوام آباد ہیں، اور دہشتگردی کے زیادہ تر واقعات بھی شیعہ نشین علاقوں میں ہی ہوئے ہیں۔ ضلع اورکزئی میں کلائیہ، کوریز اور ڈبوری میں شیعہ شہری آباد ہیں۔ آج سے ٹھیک ایک سال قبل یعنی 23 نومبر 2018ء کو جمعہ کے روز اورکزئی کے علاقہ کلائیہ میں اہل تشیع کے اہم مذہبی مرکز مدرسہ انوار اہلبیت (ع) کے قریب دھماکہ ہوا، جس میں 35 افراد شہید اور 70 سے زائد زخمی ہوگئے، اس سانحہ میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھونے والے بیگناہوں میں 5 ہندو بھی شامل تھے۔

شروع میں اسے نصب شدہ بم کا دھماکہ قرار دیا جا رہا تھا، تاہم عینی شاہدین کے مطابق یہ دھماکہ خودکش تھا، اس واقعہ نے علاقہ کی فضاء کو ایک مرتبہ پھر سوگوار کر دیا تھا، واضح رہے کہ اورکزئی کو فوجی آپریشن کے بعد دہشتگردوں سے کلیئر قرار دیا گیا تھا، اور آئی ڈی پیز اپنے گھروں کو واپس آچکے ہیں۔ سانحہ کلائیہ سے قبل بھی اورکزئی میں خودکش دھماکے ہوئے ہیں، جن میں سے کئی ایک کو ناکام بنایا جاچکا ہے۔ چند سال قبل اس علاقے کی سکیورٹی کی ذمہ داری مقامی شیعہ رضاکاروں کے ہاتھوں میں تھی، اس دوران ان جوانوں نے اپنی جانوں پر کھیل کر دہشتگردی کے متعدد واقعات کو ناکام بھی بنایا تھا، کچھ عرصہ قبل بارود سے بھرے ایک ٹرک کو بھی دھماکہ سے قبل پکڑ لیا گیا تھا۔ آج سے ٹھیک ایک سال قبل پیش آنے والے اس واقعہ نے درحقیقت جہاں کئی قیمتی انسانی جانیں نگل لیں اور درجنوں گھروں میں صف ماتم بچھائی، وہیں اس حادثے نے علاقے کو پیچھے دھکیل دیا۔ اس واقعہ کو حکومت اور عوام کے جان و مال کے تحفظ کے ذمہ داروں نے تو بھلا دیا، تاہم جن پر قیامت صغراء بن کر یہ سانحہ گزرا، بھلا وہ کیسے بھلا سکتے ہیں۔

جس ماں کے جگر کا ٹکڑا منوں مٹی تلے چلا گیا ہو، وہ ماں کیسے اس واقعہ کو بھلا سکتی ہے، جس بہن کا بھائی، جس باپ کے بڑھاپے کا سہارا، جس خاتون کا سہاگ یا جس بچے کا سایہ باپ اس سے ایک لمحے میں جدا ہوگیا ہو، ان کے دلوں کی آج کیا کیفیت ہوگی کہ جب آج اپنے پیاروں کی برسی کے موقع پر لوگ ایک بار پھر انہیں تعزیت عرض کرنے ان کے پاس آئے ہوں گے۔ کلائیہ سانحہ کے ماسٹر مائینڈز کا ہدف یقیناً ایک خاص مسلک کے لوگ تھے، تاہم انہوں نے 4۴ اہلسنت اور 5 ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والوں کی بھی جانیں لے لیں۔ سانحہ کے شہداء کی رسم قل خوانی پر اس وقت کے وفاقی وزیر داخلہ جناب شہریار خان آفریدی تشریف لائے تھے اور حسب معمول واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی، متاثرین کی مالی امداد کی یقین دہانی کرائی گئی، اور ان کیساتھ اظہار یکجہتی کیا۔ سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا 35 انسانوں کے قاتلوں پر ہاتھ ڈالا گیا۔؟ کوئی کیس تیار کیا گیا۔؟ واقعہ کے محرکات جاننے کی کوشش کی گئی۔؟ یا علاقہ کو محفوظ بنانے کیلئے کوئی ٹھوس اقدام کیا گیا۔؟ کیا اس بات کی تحقیق کی گئی کہ اتنی سکیورٹی چیک پوسٹوں کی موجودگی کے باوجود خودکش حملہ آور کہاں سے آگیا۔؟

شہدائے سانحہ کلائیہ کی یاد میں کل بروز اتوار مدرسہ انوار اہلبیت (ع) کے زیراہتمام ایک تعزیتی پروگرام منعقد ہوگا، جس میں اہم مقررین مدرسہ ہذا کے پرنسپل علامہ عابد حسین شاکری اور علامہ سید اعوان علی شاہ ہونگے، کم از کم اس پروگرام کے ذریعے حکومت اور مقامی انتظامیہ کو یہ پیغام جانا چاہیئے کہ ہم اس سانحہ اور شہداء کی قربانیوں کی نہیں بھولے، جس طرح قبائلی ضلع کرم میں مقامی شیعہ مرکزی جامع مسجد اور تنظیموں کی جانب سے پرامن احتجاج کے ذریعے مختلف مواقع پر مقامی انتظامیہ پر دباو ڈال کر ایشوز کو اجاگر کیا جاتا رہا ہے، اسی طرح اورکزئی کے شیعہ عمائدین، علمائے کرام، مقامی تنظیموں اور خاص طور پر مدرسہ انوار اہلبیت (ع) کی انتظامیہ کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، واضح رہے کہ علاقہ میں مذکورہ مدرسہ کو ایک منفرد حیثیت حاصل ہے۔ ان اہلسنت، ہندووں سمیت تمام شہداء کی قیمتوں جانوں کی قربانی رائیگاں نہیں جانی چاہیئے، حکومت ان شہداء کو تو واپس نہیں لاسکتی، تاہم قاتلوں کو قانون کی گرفت میں لیکر اپنے انجام تک پہنچانا اور آئندہ عوام کے تحفظ کیلئے اقدامات کرنا حکومت وقت کی ذمہ داری ضرور ہے۔
خبر کا کوڈ : 828695
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش