1
0
Sunday 24 Nov 2019 12:23

حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
تحریر: محمد علی نقوی

شہید اور شہادت کی عظمت اور منزلت سے کوئی ذی شعور بالخصوص قرآنی تعلیمات سے آشنا فرد ہرگز انکار نہیں کرسکتا۔ قرآن حکیم نے جن انسانوں کو زندہ قرار دیا ہے اور ان کے رزق کی ضمانت دی ہے، وہ شہداء کے علاوہ کوئی اور نہیں۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں شہداء کی جو عظمت بیان کی گئی ہے، اس کو پڑھ کر ہر مکتبی انسان شہادت کی آرزو کرتا ہے۔ البتہ بزرگان دین نے شہداء کی کئی قسمیں بیان کی ہیں، ان میں سب سے عظیم شہید وہ ہے، جو خوشنودی خدا کے لئے مکمل شعور اور بصیرت کے ساتھ شہادت کے راستے کا انتخاب کرتا ہے۔ انجانے میں اندھی گولی کا نشانہ بننے والا اور محبت آل محمد میں دنیا سے رخصت ہونے والا بھی یقیناً شہید ہے، لیکن کیا اس شہید کا اس شہید سے موازانہ کیا جا سکتا ہے، جو ایثار و قربانی کے اس مسلسل راستے پر گامزن رہتا ہے، جس کا نتیجہ شہادت کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔

تاریخ عالم نے صدر اسلام سے لے کر آج تک لاتعداد شہداء دیکھے ہیں۔ ان میں حمزہ سید الشہداء سے لے کر سید الشہداء امام حسین علیہ السلام عظمت کی ان بلندیوں پر فائز ہیں کہ انسانی سوچ وہان تک پرواز نہیں کرسکتی۔ دوسری طرف کائنات کا ہر شہید اپنے آپ کو سید الشہداء امام حسین علیہ السلام سے منسوب کرنے کی دیرینہ خواہش رکھتا ہے۔ بلاشک و شبہ نواسہ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام نہ صرف سید و سالار قافلہ شہداء ہیں بلکہ شہداء کے لئے آئیڈیل اور مثالی نمونہ بھی ہیں۔ ارض پاکستان میں بھی شہداء کی ایک طویل فہرست ہے، جس میں علامہ شہید عارف حسین الحسینی، شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی، شہید تنصیر حیدر، شہید راجہ اقبال حسین اور شہید ناصر صفوی کا خصوصی طور پر نام لیا جا سکتا ہے۔ شہید ناصر صفوی کا اصل نام علی ناصر تھا، آپ ضلع جھنگ کی تحصیل چنیوٹ کے قصبے بھوانہ کے قریب ایک بستی میں پیدا ہوئے۔ بچپن سے لڑکپن کا زمانہ اپنے شہر مین گزارہ اور بعد میں گورنمنٹ ڈگری کالج جھنگ میں داخلہ لیا۔ یہاں پر انہوں نے گورنمنٹ کالج جھنگ میں امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی رکنیت حاصل کی۔ دینی تعلیمات اور دین شناسی کے لئے یہ تنظیم ان کے لئے ایک نعمت ثابت ہوئی اور اس تنظیم کے ذریعے ان میں ذاتی اور اجتماعی ذمہ داریوں کا شعور بختہ ہوا۔

بہت جلد آئی ایس او تنظیم کا دائرہ ان کو تنگ محسوس ہونے لگا اور انہوں نے دین اسلام کو مزید گہرائی سے جاننے کے لئے علماء اور دینی مدارس سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا۔ دینی مدرسہ کا روایتی ماحول ان کو اپنی طرف جذب کرنے میں ناکام رہا۔ دوسری طرف یہ وہ دور تھا جب پاکستان کو فرقہ واریت کی آگ میں جھونکنے میں مختلف فرقہ پرست عناصر میدان سیاست میں داخل ہوچکے تھے۔ مارو مارو، قتل کرو اور شیعہ کافر بریلوی کافر جیسے بے ہودہ نعرے فضائوں میں گونج رہے تھے۔ بدقسمتی سے جھنگ کا علاقہ خصوصی طور پر فرقہ واریت کا شکار تھا۔ صحابہ اور دیگر مقدس ناموں کے پردے میں شیعہ مسلمانوں کا قتل عام اپنے عروج پر تھا۔ ایک روشن فکر دینی شعور کے حامل نوجوان کے لئے یہ ماحول ناقابل تحمل تھا، وہ اپنی نجی اور غیر نجی محافل میں فرقہ واریت اور فرقہ واریت کے نام پر جاری قتل و غارت کو سامراج کی سازش قرار دیتے تھے اور اپنے اردگرد کے لوگوں کو حقیقی اسلام دشمن طاقتوں یعنی امریکہ اور اسرائیل کی گھناؤنی سازشوں کی طرف متوجہ کرتے تھے۔

علی ناصر کے دوستوں کا کہنا ہے کہ شہید علی ناصر دو افراد سے بہت متاثر تھے، ایک شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی اور دوسرے شہید نواب صفوی۔ ایران کے شہید نواب صفوی سے ان کی قلبی وابستگی کا یہ عالم تھا کہ ایک شیعہ عالم دین مولانا افتخار حسین نقوی نے ان کو صفوی نام سے پکارنا شروع کر دیا تھا۔ شہید نواب صفوی ایران کے ان بنیادی شہداء میں شامل ہیں، جہنوں نے ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی سے کئی برس پہلے پہلوی خاندان کے خلاف علم جہاد بلند کیا تھا۔ شہید نواب صفوی ظالم شاہ اور اس کے کارندوں کو امریکہ اور برطانیہ کا ایجنٹ قرار دیتے تھے اور ان کے خلاف علمی جدوجہد کو شرعی فریضہ سمجھتے تھے۔ شہید نواب صفوی کی عظمت اور بزرگی کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ولی امر مسلمین حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای ان کے بارے میں بارہا یہ کہہ چکے ہیں کہ ان کے قلب و ذہن میں انقلابی جدوجہد کی چنگاری پیدا کرنے میں بنیادی کردار شہید نواب صفوی کا ہے۔

شہید نواب صفوی کی سامراج مخالف تحریک اور شہید علی ناصر کی امریکہ مخالف جدوجہد میں بہت سے شبہاتیں اور مماثلتیں ملتی ہیں۔ شہید نواب صفوی جس طرح ایران کی تمام حکومتی و سیاسی غلطیوں کا ذمہ دار امریکی و برطانوی سامراج کو قرار دیتے تھے، اس طرح شہید علی ناصر صفوی پاکستان کو لاحق تمام سیاسی، سماجی، مذہبی، ثقافتی اور دیگر مشکلات کا ذمہ دار امریکہ اور پاکستان میں سرگرم ان کے ایجنٹوں کو قرار دیتے تھے۔ شہید نواب صفوی نے جس طرح سامراجی ایجنٹوں کے خلاف باقاعدہ تحریک چلائی تھی اور اس کے لئے مختلف گروپس تشکیل دیئے تھے، شہید علی ناصر صفوی بھی اپنے دوست اور مربی ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کے ساتھ مل کر اسی طرح کے ایجنڈے پر کام کر رہے تھے۔ شہید نواب صفوی جس طرح سیاسی، ثقافتی اور سماجی میدان میں کام کرنے کے ساتھ ساتھ عسکری میدان کو بھی اہیمت دیتے تھے۔ شہید علی ناصر بھی اس فلسفے کے قائل تھے کہ ضرورت کے وقت اس شعبے سے بھی کام لینا وقت کا تقاضا ہے۔ شہید نواب صفوی کی ساری زندگی سفروں میں یعنی ایک جگہ سے دوسری جگہ اپنے پیغام کو پہنچانے میں گزری۔ شہید علی ناصر بھی مسلسل سفر میں رہتے اور اپنے ہدف کی تکمیل کے لئے گھر گھر جا کر دوستوں کو اپنے کاروان میں شامل کرنے کی کوشش کرتے۔ شہید نواب صفوی اور شہید علی ناصر صفوی دونوں مہاجر الی اللہ تھے۔

شہید نواب صفوی کا بھی اس دور کے بڑے بڑے علماء اور دینی رہنماؤں نے کھل کر ساتھ نہ دیا، جس کی وجہ سے وہ حکومتی کارندوں کے لئے آسان ہدف سمجھے جاتے تھے۔ اسی طرح شہید علی ناصر صفوی بھی ہمیشہ حکومت کی خفیہ ایجنسیوں کے لئے مطلوب ترین فرد سمجھے جاتے تھے۔ داخلی اور خارجی سکیورٹی ایجنسیاں اس سامراج دشمن انقلابی فرد کو ایک لمحے کے لئے برداشت کرنے کے لئے تیار نہ تھیں۔ شہید نواب صفوی بھی ایران میں اسی طرح کی صورتحال سے دوچار رہتے تھے اور اپنے بیوی بچون کے ہمراہ ایک شہر سے دوسرے شہر انتہائی حساس صورتحال میں مستقل مہاجر کی زندگی گزارتے تھے۔ شہید علی ناصر اور ان کے بیوی بچے بھی پاکستان میں مستقل اور دائمی مہاجر تھے۔ شہید علی ناصر صفوی بھی چاہتے تو ایک کامیاب انفرادی زندگی گزار سکتے تھے، لیکن انہوں نے شہید نواب صفوی کے انداز زندگی کو اپنے لیے نمونہ عمل قرار دیا اور مشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے اپنی زندگی کے ایک ایک لمحے کو دین اسلام کی سربلندی اور اسلام دشمن طاقتوں کے خلاف علمی جدوجہد میں گزارا۔

شہید نواب صفوی اور شہید علی ناصر صفوی میں بہت سی ذاتی صفات بھی ایک جیسی تھیں، دونوں دلیری و بہادری میں بے مثال تھے۔ دونوں کے خلاف حکومتی کارندے دن رات مصروف رہتے اور ان کی تلاش میں ہر طرح کے حربے استعمال کرتے، لیکن وہ نہایت شجاعت و بہادری سے ان کو جُل دیکر بلکہ بعض اوقات خود اپنے دوستوں کو حکومتی چنگل سے آزاد کرانے میں کامیاب ہو جاتے۔ شہید علی ناصر جس زمانے میں سکیورٹی اداروں کے لئے سب سے مطلوب فرد تھے، اس زمانے میں بھی وہ سکیورٹی اداروں کے اہم اداروں میں بنفس نفیس پہنچ کر اپنے دوستوں کی مدد کرنے سے گریز نہیں کرتے تھے۔ وہ اپنے دوستوں سے کہتے تھے کہ خفیہ ایجنسیوں اور سکیورٹی اداروں سے قریب ترین حلقہ، مقام اور جگہ سب سے زیادہ محفوظ ہوتی ہے۔ شہید نواب صفوی اور شہید علی ناصر میں ایک اور خصوصیت ان کا تقویٰ و پرہیزگاری تھا، جس طرح بعض افراد شہید نواب صفوی کی اقتداء میں نماز جماعت پڑھنے کو اپنے لئے اعزار سمجھتے تھے، اسی طرح پاکستان کے ایک نامور عالم دین نے ایک اجتماع میں اس بات کا اظہار کیا تھا کہ کاش میں علی ناصر صفوی کی اقتداء میں ایک ہی نماز پڑھ سکتا۔

شہید نواب صفوی اور شہید علی ناصر دونوں اپنے رب کے حضور پہنچ کر دنیا و مافیھا سے دور ہو جاتے تھے اور بلاشک و شبہ ان کا یہ تقویٰ تھا، جو انہیں نہ صرف ہر وقت لقاء اللہ کے لیے آمادہ و تیار رکھتا بلکہ ان کے قلب و ذہن کو خوف اور ناامیدی سے دور رکھتا، کیونکہ قرآن نے مومنین کی علامتوں میں سے ایک علامت یہ بھی قرار دی ہے کہ "ولا خوف علیھم ولا ھم یحزنون"
وہ ایک سجدہ جیسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات

شہید علی ناصر شہید نواب صفوی کی طرح نہ عالم دین تھے، نہ کسی عالم دین یا مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے، انہوں نے یہ مقام اپنی ذاتی کوشش اور جدوجہد سے حاصل کیا۔ تزکیہ نفس سے لے کر بہادری و شجاعت کی صفات ان کی ذاتی ریاضت کا نتیجہ تھیں۔ شہید علی ناصر نے اپنی زندگی کے ہدف کو پا لیا تھا، ان کا نظریہ زندگی " اگر مگر" اور "کہیں ایسا نہ ہو جائے، کہیں ویسا نہ ہو جائے" سے پاک تھا۔ انہوں نے لقاء اللہ کو اپنا مطمع نظر قرار دے کر شہادت کے راستے کو اپنا لیا تھا اور کبھی پچھتاوے کا شکار نہ ہوا۔

زندگی اور اس کی رنگینیاں ان کے سامنے انتہائی ادنٰی تھیں، انہوں نے ایک ایسے افق کا مشاہدہ کر لیا تھا، جس کے سامنے دنیا کی تمام متاع حقیر تھی۔ وہ خدا کے راستے میں اپنی زندگی کی قربانی کو بڑی قربانی تصور نہیں کرتے تھے، وہ شاعر کے اس شعر کا عملی مصداق تھا:
جان دی، دی ہوئی اس کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

شہید نواب صفوی اور شہید علی ناصر صفوی کی شہادت میں بھی مشابہت نظر آتی ہے۔ شہید نواب صفوی کو گرفتار کرکے فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑا کرکے گولیوں سے بھون دیا گیا تھا اور علی ناصر صفوی کو ان کے گھر میں ان کی اہلیہ کے ہمراہ فائرنگ اسکواڈ کے ذریعے گولیوں کی بوچھاڑ میں شہید کیا گیا۔ شہید نواب صفوی اور شہید علی ناصر صفوی میں مماثلتیں کافی ہیں، لیکن ایک نمایاں تفاوت و فرق ضرور ہے۔ شہید نواب صفوی کی شہادت کے بعد بالخصوص ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد انہیں ایک اسلامی ہیرو کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور حکومتی و سرکاری سطح پر ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے، لیکن شہید علی ناصر صفوی کو بعض اپنے نادان بھی ایسے ایسے القابات سے یاد کرتے ہیں کہ انسان خون کے آنسو بھی روئے تو کم ہے۔

البتہ شہید نواب صفوی کو اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے بعض خشک مقدس اور پہلوی حکومت کے دستر خوان پر ہڈیاں چوسنے والے دہشت گرد اور اسلامی مصلحت کے خلاف کام کرنے والا قرار دیتے تھے، لیکن رہبر معظم آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے ان کی حمایت میں تاریخی جملہ کہہ کر اس پر مہر تصدیق ثبت کر دی کہ شہید نواب صفوی اسلامی انقلاب کی چنگاری روشن کرنے والے انقلابیوں میں سرفہرست تھے۔ ان شاء اللہ پاکستان میں بھی امریکہ و سامراج مخالف انقلاب کا سورج طلوع ہونے کے بعد سب انقلابی ناصر صفوی جیسے شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنا اپنا فریضہ تصور کریں گے اور ناصر صفوی کی زندگی کو راہ خدا میں جہاد کرنے والے عظیم افراد کی زندگی کی طرح محترم و مکرم شمار کریں گے۔ شہید نواب صفوی کی طرح شہید ناصر صفوی بھی اپنے دور کے کئی راز اپنے ساتھ لے کر منوں مٹی تلے سو گئے ہیں۔ شہید علی ناصر صفوی اس دنیا سے جا چکے ہیں، لیکن اپنے دوستوں کے قلب و ذہن میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
خبر کا کوڈ : 828744
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

عبداللہ
Pakistan
پروردگار عالم، بحق حضرت محمدؐ و آل محمدؐ ہم سب کو بھی سفید ہو کر جینے اور سرخ ہو کر مرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ الہیٰ آمین۔
ہماری پیشکش