0
Monday 4 Jul 2011 19:58

بیس چودہ کے لئے ابھی سے تیاری کی ضرورت

بیس چودہ کے لئے ابھی سے تیاری کی ضرورت
تحریر:حبیب الرحمن
ایسے وقت جب افغانستان سے امریکی و اتحادی افواج کے انخلاء کے نتیجے میں آئندہ تین سال کے اندر خطے میں طاقت اور اقتدار کا وسیع خلاء پیدا ہونے والا ہے اور اس خلاء کو پر کرنے کے لئے علاقائی اور ابھرنے والی نیم عالمی طاقتوں کے درمیان نئی کشمکش و آویزش جنم لینے کے آثار صاف نظر آ رہے ہیں، جس میں پاکستان نے کلیدی کردار ادا کرنا ہے، بدقسمتی سے افق پر منڈلانے والے نازک حالات میں ہمارے ملک کی حکمران اور اپوزیشن کی بڑی جماعت سمیت تمام سیاسی پارٹیاں اپنی ذمہ داریوں سے بے بہرہ، حسب معمول ہاتھی کے کان میں سوئی اور خراٹے لیتی دکھائی دیتی ہیں، کسی پارٹی کے پاس افغانستان میں پاکستان کے ممکنہ کردار کے حوالے سے کوئی حکمت عملی موجود نہیں ہے اور نہ 2014ء تک کی عبوری مدت اور اس کے بعد کے حالات سے عہدہ برآ ہونے کیلئے کوئی ہوم ورک کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نظر آتا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی امر مانع محسوس نہیں ہوتا کہ خارجہ تعلقات سے جڑے معاملات کے بارے میں اکثر سیاسی جماعتوں نے مطلوبہ شعور، ادراک اور صلاحیت سے لیس ہو کر برسر اقتدار آنے کی صورت میں خود کو مستقبل کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لئے تیاری کی ضرورت محسوس نہیں کی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ 1970ء کے بعد ہونے والے عام انتخابات میں رائے دہندگان کا وہ جوش و جذبہ یکسر عنقا پایا گیا ہے جس کا مظاہرہ ذوالفقار علی بھٹو کی مسحورکن شخصیت اور عوام کی بھلائی و بہبود کیلئے پاکستان پیپلز پارٹی کے انقلابی اقتصادی پروگرام کی بدولت 1970ء کے انتخابات کے دوران اس وقت کے مغربی پاکستان، موجودہ پاکستان میں دیکھنے میں آیا تھا اس کے بعد سے انتخابات میں رائے دہندگان کا مسلسل گرتا ہوا تناسب الیکشن میں عوام کی بڑھتی ہوئی عدم دلچسپی اور سیاسی جماعتوں کی مایوس کن کارکردگی سے پیدا شدہ بیزاری کی آئینہ دار ہے، تاہم یہ ضرور ہے کہ تمام انتخابات میں عوام نے اپنی رائے کا بےلاگ اظہار کرتے ہوئے شعور کی پختگی کا ثبوت دیا ہے، سفاک ترین فوجی حکمران کے ہاتھوں ملک کے مقبول ترین لیڈر کو شہید کئے جانے کے بعد عوام نے ہمیشہ ان کی پارٹی کو اقتدار کے سنگھاسن پر فائز کیا ہے، محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد خاص طور پر بھٹو خاندان سے عوام کی والہانہ عقیدت و محبت عروج کو پہنچ گئی، عقیدت کی اسی لہر پر سوار ہو کر پی پی پی حکومت اپنی ناقص کارکردگی اور عوام کیلئے مایوسی و ناامیدی کے پہاڑ کھڑے کرنے کے باوجود کامیابی سے ساڑھے تین سال گزار چکی ہے اور بھٹو شہید کے بعد پہلی مرتبہ اپنی آئینی مدت پوری کرتی نظر آتی ہے۔
 مایوس کن کارکردگی اور کرپشن کی ہر سو زبان زد عام و خاص کہانیوں کے زیرگردش ہونے کے باوجود اس حکومت کو کسی خاص مخالفت و مزاحمت یا مداخلت کا سامنا نہیں کرنا پڑا، جس کی دو وجوہات سے انکار نہیں کیا جاسکتا، ایک یہ کہ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت غیرسیاسی مداخلت کی شدید ترین مخالف ہونے کے باعث اس مدت کے دوران فرینڈلی اپوزیشن کے طعنے خندہ پیشانی سے برداشت کرتی رہی اور اس نے کئی مواقع پر پکا ہوا حلوہ طشتری میں دھرا سامنے رکھا ہونے کے باوجود اسے چکھنے تک سے گریز کیا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ فوجی حکمران پرویز مشرف نے اپنے ذاتی اغراض اور سیاسی عزائم کے تحت فوج کو بےدریغ استعمال کرتے ہوئے ذلت کے جس قصر عمیق میں دھکیل دیا تھا، ادارے کو اس سے نکالنے اور اس کی عزت و ساکھ بحال کرنے کے لئے مشرف کے جانشین نے فوج کو مؤثر طور پر سیاسی بکھیڑوں سے الگ کیا، فوج اور اس کے ماتحت اداروں کو سیاست اور انتخابات سے قطعاً کوئی سروکار نہ رکھنے کی سختی سے ہدایات جاری کیں، منتخب جمہوری حکومت کی بالا دستی عملاً تسلیم کرتے ہوئے دو مرتبہ جوابدہی کیلئے پارلیمنٹ اور سیاسی زعماء کے سامنے پیش ہو کر اس کا ثبوت فراہم کیا بلکہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں دہشت گردی کے خلاف فوجی آپریشنوں کے حوالے سے ببانگ دہل منتخب حکومت پر زور دیا کہ قومی سلامتی کی پالیسی وہ مرتب کرے، فوج اس پر من و عن عمل کرے گی۔
 یہ الگ بات ہے کہ سول حکومت اپنی نالائقی کے باعث فوج کو ایسی پالیسی دینے میں اب تک ناکام رہی ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ حکومت ملکی دفاع و سلامتی اور خارجہ پالیسی سے متعلق اہم امور پر فیصلہ سازی کے اپنے حق و اختیار سے عملاً دستبردار نظر آتی ہے اور اس نے فیصلہ سازی کا سارا بوجھ جنرل کیانی اور ان کے رفقاء پر ڈال رکھا ہے، سینئر تجزیہ کار فہد حسین ایک نجی ٹی وی چینل سے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس وقت وزیر خارجہ اور وزیر دفاع دونوں کا کردار جنرل کیانی ادا کر رہے ہیں، کیونکہ پی پی پی حکومت میں یہ کردار سنبھالنے اور انجام دینے کی صلاحیت مفقود ہے، اس رائے کی تائید میں کئی شواہد بھی پیش کئے جاتے ہیں، جب بھی اس حکومت کے سقراط، داخلہ، خارجہ یا دفاع کے شعبوں میں کوئی فیصلہ کرنے بیٹھے، انہوں نے ملک کو عالمی برادری میں نشانہ استہزا ہی بنایا اور مسائل میں اضافہ کیا ہے۔
 مثال کے طور پر اول یہ کہ فروری 2008ء میں اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد حکومت نے آئی ایس آئی کو وزارت داخلہ کے ماتحت ادارہ بنانے کی کوشش کی، فوج کے تحفظات کے پیش نظر اسے راتوں رات نوٹیفکیشن واپس لینا پڑا۔ دوئم یہ کہ ممبئی حملوں کے بعد حکومت نے فوج کو اعتماد میں لئے بغیر بھارت کے مطالبے پر ڈی جی آئی ایس آئی کو نئی دہلی بھجوانے کا اعلان کیا۔ اگلے ہی روز یہ اعلان واپس لے کر جگ ہنسائی کا سامان پیدا کیا گیا، سوئم یہ کہ بھارت طویل عرصے تک ممبئی حملوں میں پاکستان کے غیرریاستی عناصر کے ملوث ہونے کے الزامات کی رٹ لگاتا رہا، حکومت اس کی مسلسل تردید کرتی رہی، چہارم یہ کہ ممبئی حملوں میں ملوث زندہ بچ جانے والے واحد کردار اجمل قصاب کو پاکستان کا شہری تسلیم کرنے سے انکار کیا جاتا رہا، بالآخر اس پر بھی یو ٹرن لیا گیا، چھٹہ قصہ یہ کہ کیری لوگر بل میں حسین حقانی کے ذریعہ پاکستان کے فوجی اداروں پر سویلین کنٹرول کی شرط شامل کرائی گئی، جس کا کوئی جواز نہیں تھا۔ 
اس پر فوج نے کور کمانڈرز کی ہنگامی کانفرنس کے بعد ایک پریس ریلیز کے ذریعہ کھلم کھلا شدید تحفظات کا اظہار کیا، چھٹی کہانی یہ کہ بیرونی فنڈنگ سے انسداد دہشت گردی کی مربوط کارروائیوں کیلئے جو قومی ادارہ (NACTA) قائم کیا جانے والا تھا، جس میں ڈی جی آئی ایس آئی کی بطور ممبر شمولیت بھی تجویز کی گئی تھی، اس ادارے کی سربراہی رحمن ملک کو دینے کی کوشش کی گئی، فوج وزیراعظم کو نیکٹا کا سربراہ دیکھنا چاہتی تھی، فوج کے تحفظات کے باعث اس ادارے کے آرڈیننس کا اجراء طاق نسیاں کی زینت بنا دیا گیا۔
 قصہ مختصر کس کس واقعہ کا ذکر کیا جائے، جس میں سیاسی جمہوری حکومت کی صلاحیت و استعداد کا فقدان عیاں ہے، جمہوری ممالک میں سیاسی پارٹیوں کے مستقل تھنک ٹینکس موجود ہوتے ہیں، جو بدلتے ہوئے ملکی، علاقائی و عالمی حالات کے تقاضوں کے تحت لائحہ عمل طے کرنے کیلئے سفارشات و تجاویز تیار کرنے کا کام مسلسل جاری رکھتے ہیں، بلکہ متوقع وزراء کو اپنی ممکنہ ذمہ داریوں کی بجا آوری کیلئے تیار کرنے کی غرض سے مختلف شعبوں میں مہارت رکھنے والے افراد پر مشتمل کابینہ بھی تشکیل دے دی جاتی ہے، جسے شیڈو کابینہ کہا جاتا ہے، لیکن ہمارے ہاں کا باوا آدم ہی نرالہ ہے۔ جمہوریت میں سول بالادستی ایک مسلمہ حقیقت ہے، ہمارے ملک میں سیاستدان فوج کو سویلین اداروں کے تابع بنانے کے نعرے لگاتے نہیں تھکتے اور اس نعرے بازی میں ملکی و قومی مفاد کی پرواہ کئے بغیر پورے ادارے کو رگڑنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا سیاسی پارٹیاں مستقبل کے تقاضے پورے کرنے کیلئے کبھی کوئی ہوم ورک کرتی ہیں، بطور خاص امور خارجہ اور دفاع کے حوالے سے کسی سیاسی پارٹی کے پاس بلند بانگ نعروں اور کھوکھلے وعدوں و دعوؤں سے ہٹ کر کوئی ٹھوس حکمت عملی موجود ہے۔؟
 آئندہ انتخابات اگر شیڈول کے مطابق 2013ء میں ہوتے ہیں تو یہ وہ وقت ہو گا جب افغانستان سے امریکی و اتحادی افواج کے آخری دستے روانگی کی تیاری کر رہے ہونگے اور بعد از انخلاء افغانستان کیلئے مستقبل کے سیاسی ڈھانچے کے خدوخال کو حتمی شکل دی جا رہی ہو گی، پاکستان نے افغانستان کی موجودہ کرزئی حکومت، ایران، چین، ترکی، سعودی عرب اور سب سے بڑھ کر طالبان کے ساتھ مل کر مستقبل کے عبوری ڈھانچے اور اس کی نگرانی میں انتخابات کی تیاریوں کے انتظامات میں کلیدی کردار ادا کرنا ہو گا۔
ہماری سیاسی پارٹیوں باالخصوص بڑی جماعتوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ پاکستان کو اس کردار سے بخوبی عہدہ برآں ہونے کے قابل بنائیں، اس کردار کی ادائیگی میں رکاوٹ ڈالنے کیلئے اغیار کی ریشہ دوانیوں کو ناکام بنائیں، افغانستان نیز پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پائیدار امن و استحکام کے قیام کی خاطر پالیسیوں کی تیاری ابھی سے شروع کر دیں اور اسے اپنے منشور و پروگرام کا لازمی حصہ بلکہ پہلی شق بنائیں، اگر مستقبل کے نقشے کی قبل از وقت واضح صورت گری نہ کی گئی اور غیرملکی فوجوں کے انخلاء کے بعد افغانستان میں مضبوط عبوری حکومت کا قیام یقینی نہ بنایا گیا تو تجزیہ کار جن خطرات کی نشاندہی کر رہے ہیں ان کی روک تھام ممکن نہیں ہوگی۔
 تجزیہ کاروں کے مطابق امریکہ اپنی خارجہ اور دفاعی پالیسی کے طویل المیعاد مقاصد کے تحت انخلاء کے دوران افغانستان کو بھیانک خانہ جنگی کی دلدل میں دھکیلنا چاہتا ہے، جس کے خطرناک اثرات 1990ء کی دہائی میں روسی افواج کی واپسی کے بعد پھوٹنے والی خانہ جنگی کے اثرات کو بھی ماند کر دینگے، جسکا فال آؤٹ یقیناً پاکستان کو بھی لپیٹ میں لے سکتا ہے، لہذا ہماری حکومت کا اولین فرض ہے کہ وہ ملا، مولوی، لوہار اور ترکھان کی بحث میں وقت ضائع کرنے کے بجائے مستقبل کے حالات کا ادراک کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں اور قومی اداروں کی مشاورت سے سنجیدگی کیساتھ 2014ء کے بعد پیدا ہونیوالے حالات سے نمٹنے کیلئے ملک کو تیار کرے۔
خبر کا کوڈ : 82884
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش