0
Sunday 24 Nov 2019 09:10

دعا مانگنے کا ہنر مجھے وراثت میں ملا ہے

دعا مانگنے کا ہنر مجھے وراثت میں ملا ہے
تحریر: بنت الہدیٰ
 
دعا مانگنے کی رسم بہت پرانی ہے،،،
مزاروں پر جلتے چراغ، مندروں کی گھنٹیاں،
چرچ کو روشن کرتی موم بتیاں
اور آسمان کی سمت پھیلی ہتھیلیاں
دعاوں کا تسلسل بنائے رکھتی ہیں
دعا کے لئے اٹھتے ہاتھ مسجد، مندر یا مزاروں کا تفاخر ہوسکتے ہیں
مگر دعاوں میں گُھلا خلوص
ہسپتال کے در و دیوار سے لپٹے بےبس وجود میں ہی دیکھا جاسکتا ہے___
 
ہسپتال کے بستر پر لیٹا وجود
زندگی کی خاموشی سے ہمکلام ہونا سیکھتا ہے
دعاوں کے سہارے چلنے والی سانسیں زندگی کے اعتراف میں
وینٹی لیٹر پر منتقل کر دی جاتی ہیں۔
کچھ دعاوں کی پرواز ساتویں آسمان تک نہیں ہوتی
مگر وہ پہاڑوں کے ڈھلان پر بنے
اینٹوں کے اک مکان سے
بار ہا ٹکراتی رہتی ہیں
کہ کبھی تو اسے قبولیت کی سند کے ساتھ پلٹایا جائیگا
 
گرچہ دعائیں کسی سے بے وفائی نہیں کرتیں
سوائے اس کے کہ
دعا کے لئے اٹھنے والے ہاتھوں کی لکیریں
مصلحت کی لکیروں سے الجھا دی گئی ہو!
دیر سویر قبول ہوتی دعاوں کے انتظار میں ہی
شاعر نظمیں تراشتے ہیں
تو ادیب نت نئی کہانیاں بُننے لگتے ہیں
وہ کہانیاں جن میں امید کا کوئی سرا ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا
 
اور کچھ کہانیوں میں راہ بھٹکے کردار___
کسی خاص موڑ پر لاکر
معجز نما کر دیئے جاتے ہیں
جیسے ہسپتال میں، مریضوں کی عیادت کو آنیوالی دعائیں
جو خاموشی سے ڈرپ کے ذریعے نسوں میں گھلتی دواؤں کے ساتھ شامل ہو جاتی ہیں
"یہی دعائیں کہانی میں منّت کا دھاگہ بن جاتی ہے"
 
لا علاج مرض بھی آخری لمحے تک زندگی کا انجکشن چاہتا ہے،
بند ہوتے دماغ میں گونجتی امید و خوف کی کشمکش
جہاں سانس کا آنا محال اور جانا آسان ہو___
وہاں امام زادوں کے مزار کی سیڑھیاں چڑھتی دعائیں،،
اپنی پھولتی ہوئی سانسوں کے ساتھ____
اکھڑتی ہوئی سانسیں بحال کر دیتی ہیں۔
تحریر ادھوری چھوڑ کر
قلم کی نوک کو سوالیہ نشان پر روکنے والے___
دعاوں کے سہارے صفحہ پلٹ بھی سکتے ہیں۔۔۔!
کہ دعا مانگنے کا ہنر وراثت میں دیا جا چکا ہے!
خبر کا کوڈ : 828869
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش