QR CodeQR Code

امام کاظم علیہ السلام نے اپنی بیٹیوں کو شادی کرنے سے کیوں منع فرمایا؟؟؟

26 Nov 2019 21:31

اسلام ٹائمز: آج لوگ احادیث کا کچھ حصّہ بیان کرکے اپنی مرضی کا مطلب نکالتے ہیں، جبکہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ہوسکتا ہے جو مطلب وہ نکال کر پھر رہے ہیں، وہ ائمہ علیہم السلام کی سیرت قطعی کے خلاف ہو اور درحقیقت اس میں ائمہ معصومین علیہم السلام کی اہانت و توہین ہو رہی ہو، لیکن ہمیں تو اپنا مطلب، اپنا الو سیدھا کرنا ہے، چاہے کلام خدا کی مخالفت ہو یا حجت خدا کی، ہمیں اس کی پرواہ نہیں۔ امام علیہ السلام کا وہی وصیت نامہ عیون اخبار الرضا جلد 1ص28، بحار الانوار جلد48 ص286، جلد49 ص224 اور عوالم العلوم جلد 21 ص475 پر بھی نقل ہوا ہے۔


تحریر: سید توکل حسین شمسی

مورخین نے جو کچھ لکھا ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی کسی دختر نے بھی شادی نہیں کی تھی۔ حتیٰ "احمد بن ابی یعقوب" جو کہ ابن واضح یعقوبی کے نام سے معروف تھے، متوفاء 292 ق،ھ۔ ان کی کتاب "تاریخ یعقوبی" قدیمی ترین کتب تاریخ میں سے شمار ہوتی ہے، اس میں موصوف کا منبی یہ ہے کہ امام کاظم علیہ السلام نے وصیت فرمائی تھی کہ میری دختران میں سے کوئی بھی ازدواج نہ کرے اور ایسا ہی ہوا، سوائے "ام سلمہ بنت موسیٰ کاظم علیہ السلام" کہ جن کا عقد امام صادق علیہ السلام کے پوتے "قا سم بن محمد بن جعفر علیہ السلام سے ہوا تھا اور ایک دختر کہ جن کا عقد سید حسین بن محمد بن عیسیٰ بن زید بن علی زین العابدین علیہ السلام سے ہوا تھا، جو خسرو گرد سبزوار میں مدفون ہیں۔ جناب قاسم پر بھی جب عزیز و اقارب کی طرف سے اعتراض ہوا تو انہوں نے قسم کھا‏ئی کہ ان کا یہ عقد فقط محرمیت کیلئے تھا، تاکہ وہ ان کے ساتھ سفر حج پر جا سکیں اور بس۔(تاریخ یعقوبی)

اسی مسئلے کو لے کر آج پاکستان میں کافی مسائل جنم لے رہے ہیں، سید زادی کا عقد غیر سید سے ایک ایسا مسئلہ ہے، جس کو لے کر ہمارے مؤمنین کافی حساس ہیں، حتیٰ جو فقھاء اس مسئلے پر فتویٰ دیتے ہیں، ان پر باقاعدہ سب و شتم کیا جاتا ہے اور ان کو اصلاً فقیہ ہی نہیں مانا جاتا۔ بعض صاحبان عقیدت نے تو اس مسئلے کو علماء و خطباء و ائمہ جماعت کی شناخت کا پیمانہ بنا لیا ہے، کون اپنا ہے، کون پرایا اسی سے معلوم کیا جاتا ہے۔ اس مقدمہ صغیرہ سے ایک بات تو واضح ہوگئی کہ ایک سید، قاسم بن محمد بن امام جعفر صادق علیہ السلام کے ام سلمہ بنت موسیٰ کاظم علیہ السلام کے عقد پر اعتراض سے پتہ چلتا ہے کہ یہ مسئلہ سیدہ اور غیر سید کا نہیں بلکہ سید کا بھی ہے۔ اگر یعقوبی کی بات کو تسلیم کیا جائے تو امام کاظم علیہ السلام کا حکم، حکم کلی تھا، یعنی اصلاً عقد نہ کریں۔ ابھی اتنا تحمل کريں، پھر امام کاظم علیہ السلام کی وصیت کو کتب روایی سے دیکھتے ہیں کہ امام علیہ السلام نے وصیت میں کیا فرمایا تھا۔

اب یہاں اگر بالفرض یعقوبی کا مدعی قبول کیا جائے، تو سب سے پہلے یہ مدعی خلاف قرآن ہے: وَ أَنْكِحُوا الْأَيامى‏ مِنْكُمْ وَ الصَّالِحينَ مِنْ عِبادِكُمْ وَ إِمائِكُم‏۔۔۔ اور تم میں سے جو لوگ بے نکاح ہیں اور غلاموں اور کنیزوں میں سے جو صالح ہیں ان کے نکاح کر دو۔ دوسرا یہ خلاف سنت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے: النکاح سنتی فمن رغب عن سنتی فلیس منی، نکاح میری سنت ہے، جس نے اس کو ترک کیا وہ ہم میں سے نہیں۔ تیسرا یہ سیرت ائمہ علیہم السلام کے خلاف بھی ہے، انہوں نے ہمیشہ ازدواج اور تشکیل خاندان کی ترویج فرمائی ہے۔ چوتھا کسی اور امام علیہ السلام کی دختر کے متعلق ایسا حکم نہیں ملتا ہے اور تقریباً سب ہی ائمہ کی دختران نے ازدواج کی ہے۔ پانچواں امام باقر علیہ السلام کے زمانے میں ایک دوشیزہ شادی کے لئے کسب فضیلت و معنویت کے سبب راضی نہیں ہو رہی تھی، یعنی اس کا خیال تھا کہ اگر شادی کرے گی تو معنوی و روحانی منازل طے نہیں کر پائے گی، تو امام علیہ السلام نے فرمایا اگر ایسا ہوتا تو حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کبھی شادی نہ کرتیں، جو سیدۃ النساء العالمین اور مرکز فضائل و مناقب تھیں۔(وسائل الشیعہ ص 17۔)

چھٹا زیادہ احتمال یہ ہے کہ یعقوبی نے حدیث کی تقطیع سے کام لیا ہے، یعنی اس نے حدیث کا صرف ایک ٹکڑا ذکر کیا ہے اور حدیث کے سیاق و سباق کو ذکر نہیں کیا۔ اگر اس مکمل حدیث کو دیکھا جائے تو ہوسکتا ہے کہ امام کاظم علیہ السلام نے اس میں کچھ شرائط بھی ترک ازدواج کی ذکر کی ہوں۔؟ ساتواں امام کاظم علیہ السلام  نے جو وصیتیں فرمائی ہیں، وہ حوادث تاریخ سے محفوظ، کتب روایی کے صفحات پر ذکر ہوئیں ہیں، امام علیہ السلام نے تین وصیتیں فرمائیں۔ ایک مفصل جو کہ ھشام بن حکم سے ہے جبکہ اس وصیت کے کاتب محمد بن جعفر بن سعد اسلمی تھے، اصول کافی جلد 1 صفحہ 316 حدیث 15 اور اگر کوئی اس حدیث کو مفصل پڑھنا چاہتا ہے تو وہ تحف العقول کے صفحہ 383 پر پڑھ سکتا ہے، جس میں امام علیہ السلام نے اخلاقی، اجتماعی اور تربیتی نکات بیان فرمائے۔ اگر کوئی دین کا خلاصہ اور دنیا و آخرت کی کامیابی چاہتا ہو، وہ امام علیہ السلام کے وصیت نامہ کو ضرور پڑھے۔

اس وصیت نامے میں امام علیہ السلام نے فرمایا تھا؛ وَ إِنْ أَرَادَ رَجُلٌ مِنْهُمْ أَنْ يُزَوِّجَ أُخْتَهُ فَلَيْسَ لَهُ أَنْ يُزَوِّجَهَا إِلَّا بِإِذْنِهِ وَ أَمْرِهِ فَإِنَّهُ أَعْرَفُ بِمَنَاكِحِ قَوْمِه‏۔۔۔وَ لَا يُزَوِّجُ بَنَاتِي أَحَدٌ مِنْ إِخْوَتِهِنَّ مِنْ أُمَّهَاتِهِنَّ وَ لَا سُلْطَانٌ وَ لَا عَمٌّ إِلَّا بِرَأْيِهِ وَ مَشُورَتِهِ فَإِنْ فَعَلُوا غَيْرَ ذَلِكَ فَقَدْ خَالَفُوا اللَّهَ وَ رَسُولَهُ وَ جَاهَدُوهُ فِي مُلْكِهِ وَ هُوَ أَعْرَفُ بِمَنَاكِحِ قَوْمِهِ فَإِنْ أَرَادَ أَنْ يُزَوِّجَ زَوَّج۔۔ اس وصیت نامے میں امام علیہ السلام نے اپنے سارے بیٹوں سے فرمایا تھا کہ تمھیں بھی حق حاصل نہیں کہ تم اپنی بہنوں میں سے کسی کا نکاح کسی مرد سے کرو "الا باذنہ و امرہ" مگر امام رضا علیہ السلام کی اجازت اور حکم سے، کیونکہ وہ لوگوں کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ امام کاظم علیہ السلام کا اپنی بیٹیوں کی شادی کو امام رضا علیہ السلام کی اجازت سے مشروط کرنا قرآن حکیم کے عین مطابق ہے، فانکحواھن باذن اھلھن (سورہ نساءآیت 25) ان کی شادی ان کے اھل کی اجازت سے کرو۔

پھر فرمایا جو ماؤں کی طرف سے ان کے بھائی ہیں، سلاطین اور میرے بھائیوں کو بھی اختیار حاصل نہیں کہ وہ اپنی بھتیجیوں کی شادی کا اہتمام کریں، مگر امام رضا علیہ السلام کی اجازت اور مشورے کے ساتھ۔ اس وصیت نامے میں امام علیہ السلام نے نہ فقط ازدواج دختران بلکہ تمام امور میں اختیار تام اپنے فرزند، وصی و جانشین امام رضا علیہ السلام کے دست مبارک میں دیا تھا، آج لوگ احادیث کا کچھ حصّہ بیان کرکے اپنی مرضی کا مطلب نکالتے ہیں، جبکہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ہوسکتا ہے جو مطلب وہ نکال کر پھر رہے ہیں، وہ ائمہ علیہم السلام کی سیرت قطعی کے خلاف ہو اور درحقیقت اس میں ائمہ معصومین علیہم السلام کی اہانت و توہین ہو رہی ہو، لیکن ہمیں تو اپنا مطلب، اپنا الو سیدھا کرنا ہے، چاہے کلام خدا کی مخالفت ہو یا حجت خدا کی، ہمیں اس کی پرواہ نہیں۔ امام علیہ السلام کا وہی وصیت نامہ عیون اخبار الرضا جلد 1ص28، بحارالانوار جلد48 ص286، جلد49 ص224 اور عوالم العلوم جلد 21 ص475 پر بھی نقل ہوا ہے۔

امام کاظم علیہ السلام نے اپنی زندگی کا ایک عرصہ تنگ و تاریک زندانوں میں بسر فرمایا۔ یہ بات روز روشن کی طرح ہر ایک پر عیاں ہے، ایسے میں مختار کل امام رضا علیہ السلام کو بنانا، یہ امام علیہ السلام کی دور اندیشی اور علم امامت پر دلالت کرتا ہے۔ کون ایسے حالات میں امام علیہ السلام سے اجازت لینے جاتا جو شرائط عقد میں سے ہے۔ بابا کا زندان میں عرصہ دراز، مظلومانہ شہادت پھر امام رضا علیہ السلام کی دوری و جلاوطنی، کیا ایسے میں عقلاً، اخلاقاً امکان رکھتا تھا کہ ان عزادار سید زادیوں کی ازدواج کے وسائل فراہم ہوتے اور جس زمانے میں امام کاظم علیہ السلام بظاہر اپنے گھر میں موجود تھے، درپردہ محاصرے میں تھے، سیاسی حالات اجازت نہیں دیتے تھے کہ کوئی سید، سنت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سنت ائمہ علیہم السلام کے احیاء کے لئے آتا۔

آیت اللہ مرعشی کہتے ہیں کہ اگر کوئی جرات بھی کرتا تو مسموم کر دیا جاتا تھا یا پھر شھید۔ شادی افزایش نسل و بقاء انسانیت کے لئے کی جاتی ہے، ایسے میں اگر بقاء سادات کے لئے ہی خطرہ بن کر رہ جائے، پھر امام علیہ السلام کو ترک ازدواج کی وصیت کرنا پڑتی ہے، جو کہ بعد میں کچھ سیدزادیوں کی رسم بن گئی۔ آیت اللہ مرعشی نجفی نے ایک عجیب جملہ ارشاد فرمایا ہے، سادات کے مالی و سیاسی حالات اسقدر خراب تھے کہ بیٹیاں تو بیٹیاں، بیٹوں کے لئے شادی کے اسباب فراہم نہ تھے، لہذا امام علیہ السلام کے کتنے فرزند ایسے تھے، جو شادی نہ کرسکے۔ (گنجینہ شھاب جلد 1 ص219)


خبر کا کوڈ: 829150

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/829150/امام-کاظم-علیہ-السلام-نے-اپنی-بیٹیوں-کو-شادی-کرنے-سے-کیوں-منع-فرمایا

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org