0
Wednesday 27 Nov 2019 17:14

سیاست عبادت یا خیانت

سیاست عبادت یا خیانت
تحریر: شیخ فدا علی ذیشان
سیکرٹری جنرل ایم ڈبلیو ایم ضلع سکردو


پاکستان کے مختلف شہروں میں جانے کا اتفاق ہوا اور کچھ موضوعات پہ تبادلہ خیال ہوا، اور اسی طرح گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں جانے کا بھی اتفاق ہوا اور مختلف لوگوں سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا اور ملے جلے اظہار خیال تھے۔ اور آج اپنے بچپن کے محلے کے ایک استاد سے"جو بہت کچھ اخلاقیات سکھایا کرتے تھے" ان کی دکان پہ ملاقات ہوئی اور حالات حاضرہ پر تفصیل سے بات چیت ہوئی۔ لوگوں کی گفتگو، مختلف پارٹیوں کی چہل پہل، سوشل میڈیا پر تشہیری مھم اور (لوٹوں کے پارٹیاں بدلنے کے انداز) نے مجھے بھی کچھ لکھنے پر مجبور کیا اور قلم اٹھایا اور مندرجہ بالا موضوع پہ لکھنا شروع کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ گلگت بلتستان میں جب بھی کوئی سیاست کا لفظ سنتا ہے تو اس سے مراد لوٹ مار، کرپشن، اپنوں کو ٹھیکوں اور نوکریوں سے نوازنے اور اجارہ داری قائم کرلینے کے معنوں میں لیتا ہے۔ سیاست مدار بھی انہی خامیوں اور گالیوں کے بل بوتے پر زندہ رہتا ہے، اور سیاستدان رہتا ہے۔ نتیجہ آج سیاست کا لفظ ایک گندا ترین لفظ تصور کیا جاتا ہے۔ جب کی حقیقت اس کے برعکس ہے۔ یعنی سیاست ایک مقدس اور پاکیزہ لفظ ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیاست کا مفہوم اور معنی کیا ہے؟ اس سوال کے جواب کو تلاش کرنے کے لئے ہمیں کچھ تفصیل میں جانا ہوگا اور سیاست کے لفظ کی گہرائی میں جانا ہوگا۔ تاکہ سیاست کا مفہوم ہم پر واضح ہو اور اس کی پاکیزگی ہم پر عیاں ہو تاکہ معاشرے کا ہرفرد اس مقدس عبادت میں مشغول ہو۔ لہٰذا پہلے ہمیں سیاست کے لفظی و لغوی معنی پھر اس کے اصطلاحی معنی سے آشنا ہونا ہوگا۔ اہل لغت کے مطابق "سیاست" کا لفظ "ساس" سے مشتق ہے، سیاسۃ البلاد تولی امورھا و تسییر اعمالھا الداخلیۃ والخارجیۃ و تدبیر شوونھا۔ سیاسۃ الامر الواقع ای التسلیم بما ھو واقع و کذالک سیاسی مشتق من سوس الذی یعنی بشوون السیاسۃ الحقوق السیاسۃ "حقوق کل مواطن فی ان یشترک فی ادارۃ بلادہ او ممارسۃ اعمالہ الوطنیہ کالانتخاب و نحوہ: سیاست کا لفظ ساسۃ سے مشتق ہے جس کا لغوی مطلب تدبیر کرنا، انتظام کرنا، نظم و نسق پیدا کرنا۔ جبکہ اصطلاح میں اس کا مفھوم: "ساسۃ البلاد تولی امورھا و تسییر اعمالھا الداخلیۃ والخارجیۃ وتدبیر شوونھا" یعنی سیاست کا مطلب ملک کے امورکی سرپرستی کرنا، ملک کی داخلی اور خارجی پالیسی کو آسان اور ملک کے مفاد میں بنانا اور ریاست کے امورکی بہترین تدبیرکرنا۔ جبکہ اصطلاح میں سیاست کامطلب یعنی اپنے گھر' محلے اور ملک کی بہترین تدبیر کرنا، ریاست کے ان  امور کی تدبیر کرنا جس کے مرتب کرنے میں اور اس کے فائدے میں تمام شہری شریک ہوں۔ جیسے انتخاب وغیرہ۔ یعنی ریاست کے وہ امور جس میں بلاواسطہ تمام شہری شریک ہوں اورریاست کے جملہ امورکےفوائد میں بھی تمام لوگ مشترک ہوں۔

لغوی اور اصطلاحی مفھوم سے ہی پتہ چلاکہ سیاست سے مراد گھر کی تدبیر، علاقے کی تدبیر اور ریاست اور ملک کی تدبیر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سیاست ہرگھر میں ہو ،جس گھر میں سیاست نہیں وہ ناکام ترین گھرانہ ہوگا۔ سیاست ہر محلے میں ہو جس محلے میں سیاست نہیں ہے  وہ ناکام ترین محلہ ہوگا۔ سیاست ہر مسجد میں ہو، جس مسجد میں سیاست نہیں ہے وہ مسجد، مسجدِ ضرار کی طرح کی کوئی مسجد ہوگی، مسجد نبوی (ص) کی طرح کی کوئی مسجد نہیں ہوگی۔ اور ہر عالم کو سیاسی ہونا چاہیئے اس لئے کے ہر دین ہر رکن میں سیاست کا پہلو پایا جاتا ہے، لہٰذا سیاست کا نہ آنا فخر نہیں بلکی نااہلی ہے۔ سیاست ہر ملک میں ہو جس ملک میں سیاست نہیں ہے وہ ملک ناکام ترین ملک ہوگا۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ "السیاسۃ لاتنفک عن الاسلام" کہ اسلام عین سیاست ہے۔ سیاست اسلام سے جدانہیں ہے۔ پس اگر گھر کی تدبیر، محلے کے امور کی تدبیر اور ریاستی معاملات کی تدبیر کرنا سیاست ہے تو یہ عبادت ہے اور یہ عبادت ہرایک پر فرض اور ضروری ہے "مگر ملک پاکستان کا سب سے بڑا المیہ یہ رہا ہے اور رہے گاکہ اہل علم میدان ساست سے مکمل لاتعلق ہیں، اور میدان سیاست کو خالی چھوڑا ہے۔ مگر جو میدان خالی ھوگا اس نے تو پر ہونا ہی ہے، یا وہ میدان اچھے اوراہل لوگوں  سے پرہوگا یا برے اور نا اہل لوگوں سے پر ہوگا۔ 

"چونکہ میدان سیاست اور حکومت ایک اہم ترین رکن اساسی ہے مملکت میں، جس کی وجہ سے رب کائنات نے قرآن کریم میں بھی جابجا واضح انداز میں سیاست حکومت اور حکام کے فرائض کو تفصیل سے بیان فرمایا ہے جس کی تفصیل بعد میں بیان ہو گی۔ اسی طرح پیغمبر اکرم (ص) نے بھی ایسا طرزحکومت و سیاست اپنا کے دکھا دیا ہے۔ اب ریاستی امورکی تدبیر کے لئے مدبر کا ہونا ضروری ہے اور مدبر ہر کوئی تو نہیں ہو سکتا ہے، بلکہ ایک عالم، فاضل اور ملکی اور بین الاقوامی حالات پر مکمل گرفت رکھنے والاہی مدبر ہو سکتا ہے، کیونکہ جس ملک کے چھوٹے سے چھوٹا معاملہ بھی بین الاقوامیں حالات سے جڑا ہوا ہو اس ملک میں ہر کوئی تدبیر نہیں کرسکتا ہے بلکہ تدبیر امور کے لئے ایک بین الاقوامی حالات پر یدطولی رکھنے والا عالم "فاضل" نظریاتی اور خوف خدا رکھنے والے شخص کا ہونا ضروری ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ گھر کے امور کو بھی چلانے کے لئے ایک ماھر، حازق اور بہترین فرد کا انتخاب کیاجاتا ہے اور اس ماھر کے بغیر گھرکا نظام نہیں چل سکتا ہے۔

اسی  طرح محلے کے لئے بھی ایک ماھر فردکا انتخاب کیا جاتا ہے تاکہ نظام بہترانداز میں چل سکے۔ ایک ٹیم میدان میں اچھے کپتان کے بغیر میچ نہیں کھیل سکتی ہے۔ اب گھر اور محلے کا نظام ماھر کے بغیر نہیں چل سکتا ہے تو ملک کا نظام ایک نالائق، ان پڑھ اورخائن کے ذریعے کیسے چل سکتا ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ووٹ ایک امانت ہے، جو کسی امین کو ملنا چاہیئے اور میدان سیاست کے لئے بھی ایک بہترین مدبر ماھرترین اور لائق فرد کا انتخاب کرنا ضروری ہے تاکہ بہترین انتظام و انصرام کے ذریعے سے ملک کو مادی اور وحانی ترقی کی راہ پےگامزن کرسکے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کی سیاست ہر گھر، علاقہ اور ملک کاجز لاینفک ہے جس کے بغیر گھر اور علاقے کانظام چل نہیں سکتا ہے۔ اسی طرح سیاست کے بغیر ملک کانظام بھی چل نہیں سکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نظام مملکت کو چلانے کے لئے لوگ کس قسم کے فرد کا انتخاب کرتے ہیں۔ اہل کا انتخاب کرتے ہیں، یانااہل کا انتخاب کرتے ہیں۔ اب دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اہل سے کیا مراد ہے؟

اس کا جواب بھی بالکل واضح ہے کہ ملک کے معاملات کو چلانے کے لئے داخلہ اور خارجہ پالیسی مرتب کرنے کے لئے اور عوام کی فلاح و بہبود کے لئے فرد کا انتخاب کیا جاتا ہے، تو اس کے لئے اہل فرد کا انتخاب کیا جائے۔ اور یہاں اہل سے مراد پڑھا لکھا، بین الاقوامی حالات پرگہری نظر رکھنے والا اور معاملات کی سمجھ بوجھ رکھنے والا ہو تاکہ یہ منتخب اہل فرد پانچ سال سیر سپاٹے میں نہ گزارے بلکہ آنے والی نسلوں سے جڑے اور بین الاقوامی معاملات سے جڑے ہوئے مسائل کا حل نکالے اور عوام کی بھرپور خدمت کرے تاکہ اگلے پانچ سال پھر خدمت کی بنیاد پر دوبارہ جیت جائے اور اس کی جیت یقینی ہو۔ لہٰذا اگر سیاست کامطلب مذکورہ بالا معنی میں لیا جائے تو عبادت ہے اور اگر سیاست کا مطلب ملک میں رائج طریقہ لیا جائے، یعنی سیاست سے مراد سیاست دان کی اجارہ داری، کرپشن، لوٹ مار، اقرباپروری، کمیشن خوری اور اپنوں کو ٹھیکوں اور نوکریوں سے نوازنا ہے تو سیاست عبادت نہیں ہے، خیانت ہے۔

اب آتے ہیں بلتستان میں مروجہ سیاست پہ جہاں گذشتہ کئی سالوں سے مختلف نشیب و فراز دیکھے اور مختلف علاقوں اور سیاست مداروں  کو پڑھنے، سمجھنے اور حالات کو بغور دیکھنے کا موقع ملاجس کے بعد پورے یقین واثق سے کہہ سکتا ہوں کہ بلتستان میں سیاستدان عبادت نہیں خیانت کرتے ہیں، کیونکہ یہاں سیاست دان کا محور ٹھیکہ دار ہوتا ہے اور ٹھیکہ دار کا محور سیاست دان ہوتا ہے۔ نتیجتا ٹھیکہ دار کے پورے کا پورا ھم و غم ٹھیکہ ہی ہوتا ہے، جس کی بنا پر ہوا کے رخ کے ساتھ ہی اپنا رخ بھی بدل دیتا ہے جس کی ضمیر کی قیمت بس ٹھیکہ ہی ہوتی ہے، جس کا ثبوت گذشتہ پی پی پی اور آج نون لیگ کے دور حکومت میں دیکھا جا سکتا ہے اور اب مفاد پرست ٹولے کا رخ پی ٹی آئی کی طرف ہوگیا ہے۔ کچھ خیانت کار تو وہ ہے جو کمیشن، ٹھیکہ اور اثر و رسوخ کے بل بوتے پر ہی سیاست کرتے ہیں اور کچھ تو وہ ہیں جو ٹھیکوں کی خرید و فروخت میں مشغول ہیں، اگر سکردو شہر کے منصوبوں پر ایمانداری سے پیسہ خرچ کیا جائے اور ذیادہ بچت کی فکر نہ ہو تو سکردو جیسا چھوٹا سا شہر ایک بےمثال شہر بن سکتا ہے کسی ضلع کے نمائندہ کو %30 اے ڈی پی دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ اب محترم قارئین خود فیصلہ کریں کہ پاکستان میں بالعموم اور بلتستان  میں بالخصوص  سیاست عبادت ہے یاخیانت۔
خبر کا کوڈ : 829361
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش