0
Wednesday 27 Nov 2019 17:21

سادات کی ہجرت

سادات کی ہجرت
تحریر: سید توکل حسین شمسی

سادات فاطمی و ہاشمی کی ایران اور شرق جہان کی طرف ہجرت مختلف علل و اسباب کی وجہ سے ہے۔ اگر تھوڑا سا اس مسئلے پر غور کیا جائے تو یہ فیصلہ کرنا مشکل نہیں ہوگا کہ سب سے بڑی وجہ اموی و عباسی سیاست تھی، جو تخت و تاج و سلطنت کو عکاظ کے چمڑے کی طرح کھنیچ رہے تھے، اس کھینچا تانی میں سب سے زیادہ متاثر سادات ہوئے، کیونکہ دونوں طرفین ہی اس نتیجے پر تھے کہ وارثان حقیقی سادات ہیں، لہذا سرکوب سادات سے کبھی بھی غافل نہیں ہوئے، اس وجہ سے سادات کے معاملے میں دونوں طرف نے ایک ہی سیاست کارفرما رکھی تھی۔ ایسے میں سادات مجبور تھے کہ صعب العبور صحراوں، بیابان کو عبور کریں اور دور افتادہ مقامات پر گمنامی و بے نامی کی زندگی گزاریں، اس کے باوجود بھی رخت سفر، پشت شتر پر رہتا، نجانے کب نقارہ حرکت پھر سے بے گھر، مسافروں کو مسافر بنا دے، یعنی در واقع سادات خانہ بدوش تھے۔

دوسری بڑی وجہ جس کے سبب سادات نے اپنا شانہ و کاشانہ چھوڑا، خانہ خدا و خانہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خیر آباد کہا، وہ امام رضا علیہ السلام کی ولیعھدی تھی۔ جس میں ماہر شکاری نے تار عنکبوت کا ایک ایسا پیچیدہ جال پرویا تھا کہ جس سے کوئی شکاری بھی سالم نکل نہ پایا۔ اس دام پوشیدہ سے ایک طرف  ناراض عرب زادوں کو یہ سوچ القاء کرنا تھی کہ ہم تو حق کے پرستار ہیں، جو وارث ہے اسی کے طرفدار ہیں، دوسری طرف صحرانشیں بکھرے سادات کو اپنی پناہگاہوں سے نکال کر، شمع خراسان، امید کی کرن کے گرد اکٹھا کرنا تھا، تاکہ حساب شدہ راہوں پر جبکہ مورخ کی نظریں، تاج ولیعھدی پر مرکوز تھیں، خون بےحساب بہا دیا جائے، آج وہ رنگین راہیں، پھوٹ پھوٹ کر، مورخ کو وہ درد بھری داستانیں سناتی ہیں، وہ کٹے جلے لاشے دیکھاتی ہیں، وہ چیخ و پکار، وہ سسکیاں سناتی ہیں، لیکن ولیعھدی کے اس خود ساختہ شوروغل میں کون کیا سنتا۔ لاشیں قبروں میں بدل گئیں، قبریں قبرستانوں میں، پھر وہی ویران قبرستان نور افشانی کرنے لگے۔

تیسری وجہ حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کا بابرکت حرم تھا، جس نے حجت خدا کے دیدار کے لئے، بھائی سے الفت و محبت کے اظہار کے لئے، یزید وقت کے چہرہ بدنما کو عیاں کرنے کے لئے، افکار شیطانی کو بے نقاب کرنے کے لئے، پھر سے زینبی سفر کا آغاز کیا تھا۔ لیکن ساوے کی سیاہ گھاٹیوں سے گھائل، کئی لاشوں کی عزادار، قم میں پہنچ کر، عبادت رب جلیل میں کچھ ایسی مصروف ہوئیں کہ قرب میں جا پہنچی۔ وہ فضائل و مناقب، عفت و کمال کی ایسی پردہ دار تھی کہ جن کی چادر، چادر تطہیر کی مانند تھی، آرام بخش، پناہ بےکساں، ان کی قبر کے سایہ رحمت میں سادات نے ایسی پناہ لی کہ بریھہ، ام محمد، میمونہ اور زینب جیسی امام زادیاں دنیا سے رخ انور موڑ کر باغ بابلاں میں ہمیشہ کے لئے مقیم ہوگئیں۔ پھر کیا تھا کہ امن کے طالب بھی وہاں پہنچے تو علم کے پیاسے بھی، پھر ان کے برقع سے مانوس سادات بھی مبرقع ہوئے۔ کالی عبائیں، سیاہ و سفید عمامے اپنے دامن میں نور فشانی و علم شگافی کے گوہر نایاب لئے قریہ قریہ منور کرنے لگے، پھر علم کی برسات ہوئي، علم علوی کی جھلک کا اظہار ہوا، کریمہ اھل بیت کا کرم ہوا۔

چوتھی وجہ بعض مناطق میں سادات کی یا حامیاں سادات کی حکومتیں ہیں کہ جس نے ستم دیدہ سادات کو اپنی طرف مائل کیا۔ کبھی شہر رے، تو کبھی طبرستان، گو یہ حکومتیں تاریک راتوں میں ٹمٹمانے والے جگنوں کی ماند تھیں، لیکن سادات کو منزل کا ایک دھندلا سا خاکہ دے گئیں، نور کی اک مدھم سی تصویر، بہتری حالات کا اک دھیمہ سا اشارہ و احساس دے گئیں، پھر کیا تھا کہ سادات چلے، ایسے چلے کہ بت پرستوں کے دیار غیر میں جا پہنچے، کلمہ گوں سے ڈرے، ھنود کے گھر شمع اسلام سے روشن کرنے لگے، اپنے عمل و کردار سے اسلام کے گفتار سے، الہیٰ پیغام کے پرچار بنے۔

پانچویں وجہ جہاں کئی دو چار سادات کو سکھ کا سانس نصیب ہوتا تو صلہ رحمی کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے دوسروں تک پیغام امن پہنچا دیتے، کبھی اشعریوں نے حمایت کا علم بلند کیا تو ان کے قرب میں آبیٹھے، تو کبھی انجان بستیوں، انجان لوگوں میں ڈیرے لگا دیتے، جب ان پر اپنے زہد و پارسائی، امانتداری و سچائی کے سبب عیاں ہو جاتے، پھر نئے رستوں پر نکل جاتے۔ دقیقاً کب سے مہاجر ہوئے کوئی نہیں جانتا، بس اتنا اندازہ ہے کہ دوم ہجری سے آغاز ہوا، جو امام رضا علیہ السلام کے زمانہ میں عروج پر تھا۔
خبر کا کوڈ : 829362
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش