0
Thursday 28 Nov 2019 17:03

آرمی چیف کی مشروط ایکسٹینشن

آرمی چیف کی مشروط ایکسٹینشن
تحریر: طاہر یاسین طاہر
 
بکھرے سماج کے مسائل بھی بکھرے ہوئے ہوتے ہیں، مقتدر حلقے خوب جانتے ہیں کہ ہیجان پسند سماج کو کیسے ہیجان خیز حالات کی طرف "متوجہ" کرنا ہے۔ عدالت، عظمیٰ کی جانب سے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے آنے والے مشروط فیصلے کے بعد کئی سوالات موجود ہیں، اگرچہ بہ ظاہر فیصلے سے یہی لگتا ہے کہ آرمی چیف کی تعیناتی کی مدت کے حوالے سے جو قانونی سقم ہے، اسے دور کروانے کے لیے عدالتِ عظمیٰ کے حکومت کو مہلت دی۔ لیکن جو سماج  گوبھی کی بڑھتی ہوئی قیمت کے پیچھے بھی سازشیں ڈھونڈنے کا عادی ہو، اسے ہر معاملہ میں شبہات نظر آتے ہیں، ان شبہات کو اس وقت مزید تقویت ملتی ہے، جب سیاستدان ایسے بیانات جاری کرتے ہیں، جو ابہام کی دبیز چادر لیے ہوتے ہیں۔

یاد رہے کہ "سپریم کورٹ آف پاکستان نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس میں سماعت کے بعد مختصر فیصلہ سناتے ہوئے انہیں 6 ماہ کی مشروط توسیع دے دی۔ عدالت عظمیٰ میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس مظہر عالم پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے جیورسٹ فاؤنڈیشن کے وکیل ریاض حنیف راہی کی جانب سے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف درخواست پر مسلسل تیسرے روز سماعت کی۔ عدالت نے اپنے مختصر فیصلے میں کہا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ آئندہ 6 ماہ کے لیے چیف آف آرمی اسٹاف رہیں گے، جبکہ اس عرصے کے دوران پارلیمان آرمی چیف کی توسیع/دوبارہ تعیناتی کے لیے قانون سازی کرے گی۔ عدالت کی جانب سے مزید کہا گیا کہ عدالت میں آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی یا توسیع چیلنج کی گئی، حکومت اس پر ایک سے دوسرا موقف اپناتی رہی، کبھی دوبارہ تعیناتی اور کبھی دوبارہ توسیع کا کہا جاتا رہا۔

فیصلے کے مطابق صدر مملکت، افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر ہیں، آئین کے آرٹیکل 243 میں تعیناتی کا اختیار صدر مملکت کا ہے، لیکن آرمی چیف کی مدت تعیناتی کا قانون میں ذکر نہیں، آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ محدود یا معطل کرنے کا بھی کہیں ذکر نہیں۔ عدالت کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ اٹارنی جنرل نے مدت ملازمت کے تعین کے لیے قانون سازی کی یقین دہانی کرائی ہے، اٹارنی جنرل کی جانب سے متعلقہ قانون سازی کے لیے وقت مانگا گیا ہے۔ فیصلے میں مزید کہا گیا کہ معاملہ پارلیمنٹ اور حکومت پر چھوڑ دیتے ہیں، قانون سازی کرکے اسے ہمیشہ کے لیے طے کیا جائے۔ عدالت نے کہا کہ اس سے پہلے آرمی چیف کی تعیناتیاں روایتی طریقہ سے ہوتی رہیں، تاہم موجودہ تعیناتی کو پارلیمنٹ کی قانون سازی سے مشروط کرتے ہیں۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں آرمی چیف کی مدت سے متعلق کچھ نہیں ملا، وفاقی حکومت نے 28 نومبر کی سمری پیش کی، یہ سمری وزیراعظم کی سفارش پر صدر نے پیش کی، سمری میں قمر جاوید باجوہ کو دوبارہ آرمی چیف تعینات کیا گیا۔ ساتھ ہی فیصلے میں کہا گیا کہ حکومت آرٹیکل 243 بی اور آرمی ریگولیشن پر انحصار کرتی رہی، جبکہ عدالت نے آرمی چیف کی تعیناتی، مدت اور توسیع سے متعلق سوالات کیے۔ عدالت عظمیٰ نے کہا کہ اٹارنی جنرل کسی بھی قانون کا حوالہ نہ دے سکے، ان کا موقف تھا کہ اس حوالے سے ماضی کی روایات پر عمل ہو تا رہا ہے۔" یاد رہے کہ جسٹس منصور نے نکتہ اٹھایا کہ 3 سال کی مدت کا ذکر تو قانون میں کہیں نہیں ہے، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ سمری میں آرمی چیف کی تنخواہ کا ذکر ہے، نہ مراعات کا تذکرہ ہے۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پہلے توسیع ہوتی رہی اور کسی نے جائزہ نہیں لیا، کوئی دیکھتا نہیں کہ کنٹونمنٹ میں کیا ہو رہا ہے، کس قانون کے تحت کوئی کام ہو رہا ہے، اب آئینی ادارہ اس مسئلے کا جائزہ لے رہا ہے، آئینی عہدے پر تعیناتی کا طریقہ کار واضح لکھا ہونا چاہیئے۔

دریں اثناء آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے ہمارے بیرونی دشمنوں اور اندرونی مافیاز کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ وزیراعظم نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ "اداروں کو آپس میں لڑوانے کے خواہشمند افراد کو آج بے حد مایوسی ہوئی ہوگی، ناکامی پر اندرونی مافیاز اور بیرونی دشمنوں کو خصوصی مایوسی کا سامنا ہوا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ "مافیا ملک کو غیر مستحکم کرکے اپنے لوٹ کے مال کی حفاظت کے لیےکوشاں ہیں۔" وزیراعظم  اگر سمجھتے ہیں، بلکہ ان کے پاس معلومات ہیں، تو انہیں برملا ان مافیاز کا نام لینا چاہیئے، جو اداروں میں تصادم کے خواہش مند ہیں، یا اس حوالے سے سازشیں کرتے ہیں۔

عدالتی فیصلے پر آئینی رائے تو قانونی و آئینی ماہر ہی دے سکتے ہیں، مگر آرمی چیف کی مشروط ایکسٹینشن کے سماجی سطح پر جو اثرات مرتب ہوں گے، ان اثرات سے انکار ممکن نہیں۔۔ اس امر میں کلام نہیں کہ ہمارے ہاں آرمی چیف کا عہدہ وزیراعظم سے بھی طاقتور تصور کیا جاتا ہے۔ اگرچہ آئینی طور پر آرمی چیف سیکرٹری دفاع کے ماتحت ہوتا ہے، مگر سیاسی و سماجی تاریخ کو دیکھا جائے تو ہمیں ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف ایسے وزرائے اعظم ملتے ہیں، جنھیں آرمی چیف نے معزول کیا۔ اگرچہ یہاں ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف کا تقابل مقصود نہیں، بلکہ اس رویئے کے مظاہر بیان کرنا ہے، جو ہم سیاسی تاریخ میں بارہا دیکھ چکے ہیں۔ نواز شریف کو ایک بار مستعفی کرانے میں بھی ایک آرمی چیف نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔

ہر محب وطن شہری کو آرمی کی خدمات اور وطن کے دفاع کے لیے فوج کی قربانیوں کا اعتراف ہے۔ لیکن ایک مقتدر، منظم اور باوقار ادارے کے سربراہان کی تعیناتی، پینشن اور دیگر امور کے بارے میں عدلیہ نے جو سوالات اٹھائے، حکومت ان کا جواب نہ دے سکی، یعنی سات عشروں سے یہ کام ایسے ہی ہوتا رہا۔ اب جبکہ حکومت کو قانون سازی کے لیے عدالتِ عظمیٰ کی جانب سے کہا  گیا ہے تو سوال یہ ہے کہ کیا حکومت اپنے چند اتحادیوں کے ساتھ مل کر یہ بار اٹھا پائے گی؟ یا اسے اپوزیشن کے ناز نخرے بھی اٹھانا پڑیں گے۔ اصل میں اب امتحان سیاستدانوں کی سیاسی بصیرت کا ہے۔ بھارت نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے ایشو اور اس حوالے سے عدالتی کارروائی کو بہت اچھالا۔ ایسا ہوتا ہے، کیونکہ دشمن سے خیر کی توقع حماقت ہے۔

اہم سوال یہ ہے کہ اگر اپوزیشن حکومت سے قانون سازی میں تعاون نہیں کرتی تو حکومت کے پاس کیا آپشن رہ جاتا ہے؟ اور اگر اپوزیشن حکومت سے تعاون پر آمادہ ہوتی ہے تو اس کے بدلے میں حکومت سے کیا مراعات لے گی؟ بالخصوص پیپلز پارٹی سابق صدر آصف علی زرداری کے حوالے سے کوئی رعایت لینے میں کامیاب ہو جائے گی یا نہیں؟ ابھی بہت سے سوالات ہیں اور کچھ بڑے نازک ہیں۔ آخری تجزیئے میں باوقار سماج شخصیات کے بجائے اداروں کے استحکام کو ترجیح دیتا ہے۔ مقتدر ادارے اپنی پالیسیوں اور ادارہ جاتی بہترین نظام کی بنا پر عوام میں مقبولیت حاصل کرتے ہیں۔ یہ سوال ضرور اٹھایا جائے گا کہ ملک میں ہیجانی کیفیت کو کیوں جنم دیا گیا؟ اور حکومت نے اپنی غلطی تسلیم کرنے کے بجائے غلطی کے دفاع کو کیوں ترجیح دی؟ یہ سوال بھی کہ کیا ملک واقعی جمہوریت کی راہ پر چل پڑے گا یا ابھی اس حوالے سے خدانخواستہ نصف صدی مزید درکار ہے اپنی سمت درست کرنے کے لئے۔؟
خبر کا کوڈ : 829554
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش