0
Friday 29 Nov 2019 20:13

گذشتہ چند ایام پر ایک نظر

گذشتہ چند ایام پر ایک نظر
تحریر: سید اسد عباس

گذشتہ چند دنوں میں پاکستان کس تکلیف سے گذرا، کسی سے پنہاں نہیں ہے۔ چیف آف آرمی سٹاف کی مدت ملازمت میں توسیع کا مقدمہ سپریم کورٹ میں جانا، اس مقدمے کی پیروی کے حوالے سے حکومت کے اقدامات، سمریوں پر سمریاں اور ان میں سامنے آنے والی اصطلاحی غلطیاں۔ عدالت عظمیٰ کا ان سمریوں کے حوالے سے ردعمل، قانونی ماہرین کی آراء، سب کچھ پاکستان میں نیا تھا۔ پاکستان میں کسی بھی چیف آف آرمی سٹاف کی مدت ملازمت میں توسیع کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہ تھا۔ قانونی ماہرین یہی دلائل دے رہے تھے کہ اس سے قبل صدر ایوب، جنرل ضیاء الحق، پرویز مشرف نے بھی تو مدت ملازمت میں توسیع لی ہے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع کا بھی تذکرہ آیا۔ بعض تجزیہ کاروں کی رائے تھی کہ ایوب خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف نے تو خود ہی اپنی مدت ملازمت بڑھائی، عدالت کے پاس یہ اختیار نہ تھا کہ وہ ان کو اس وقت روک سکتی یا ان سے کوئی سوال کرسکتی کہ آپ یہ توسیع کس قانون کے تحت کر رہے ہیں۔ جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی کا مسئلہ بھی عدالت میں نہ آیا، تاہم اس بار عدلیہ نے اس مسئلہ کو سماعت کے قابل سمجھا اور اس پر قانون میں موجود سقم کی نشاندہی کی۔

پیش آنے والا مسئلہ میری نظر میں کسی خاص شخصیت سے متعلق نہیں تھا۔ جنرل باجوہ کی جگہ کوئی اور بھی ہوتا تو شاید صورتحال ایسی ہی ہوتی۔ اس سلسلے میں ہمیں جنرل باجوہ کے حوصلہ کی بھی داد دینی پڑتی ہے کہ جنھوں ںے ملک کے دو آئینی ستونوں کے مابین پیدا ہونے والے اس ابہام کو انتہائی صبر سے برداشت کیا اور ملک میں کوئی ایسا اقدام نہ کیا، جس سے جمہوریت کا بوریا بسترا ہی گول ہو جائے۔ گذشتہ ادوار میں شاید اسی وجہ سے کسی بھی ادارے کو اس قانون پر بات کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔ چیف جسٹس جناب آصف سعید کھوسہ نے بھی نہایت سمجھداری سے آئین میں موجود اس سقم کی جانب نشاندہی کی اور حکومت کو موقع دیا کہ وہ قانون سازی کے ذریعے اس مسئلہ کو حل کر لے۔ مسئلہ یہ سامنے آیا کہ آئین کے آرٹیکل 255 کے تحت وزیراعظم پاکستان کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ ملک کے چیف آف آرمی سٹاف کا تعین کرے اور اس کی تجویز صدر پاکستان کو دے۔ صدر پاکستان وزیراعظم کی تجویز کے مطابق چیف آف آرمی سٹاف کے تعین کے احکامات پر دستخط کرتا ہے۔ سپریم کورٹ کو اس آرٹیکل اور حکومت کے اس اختیار سے کوئی مسئلہ نہیں تھا، سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ قانونی طور پر ریٹائرڈ ہونے والے ملازم کی مدت ملازمت میں وزیراعظم پاکستان کس قانون کے تحت اضافہ یا توسیع کرسکتے ہیں۔

ملک کے سروسز لاء کے مطابق کسی بھی سرکاری ملازم کی ریٹائرمنٹ کے بعد اس کی خدمات کو کوئی بھی ادارہ حاصل کرسکتا ہے، تاہم اس کی مدت ملازمت کو بڑھانے کے حوالے سے ملک کا قانون خاموش تھا۔ یہی بات چیف جسٹس صاحب حکومتی وکلاء کو سمجھاتے رہے۔ بہرحال اب چیف صاحب نے حکومت کو چھے ماہ کی مہلت دی ہے کہ وہ اس تعیناتی کے حوالے سے باقاعدہ قانون سازی کریں، تاکہ یہ تعیناتی قانونی بھی ہو۔ انہوں سے واضح کیا کہ ہمارے ملک میں تحریری قانون نافذ ہے، یہاں برطانیہ کی مانند روایات کو قانون نہیں قرار دیا جاسکتا۔ بہرحال مسئلہ گھمبیر صورتحال اختیار کرنے سے قبل ہی ٹل گیا، ورنہ اس سے قبل پاکستان میں ایسی کوئی روایت موجود نہیں ہے کہ افواج پاکستان کے اعلیٰ ترین عہدہ کا معاملہ کورٹ میں زیر بحث آیا ہو اور ملک میں کوئی بھونچال نہ برپا ہوا ہو۔ اس فیصلے کے دوران میں ہی سابق صدر اور ریٹائرڈ چیف آف آرمی سٹاف جنرل مشرف کے مقدمے کے فیصلے کی تاریخ بھی آگئی، جسے پی ٹی آئی حکومت نے روکنے کے لیے درخواست دائر کی۔ پی ٹی آئی حکومت کے وکلاء کا کہنا تھا کہ اس مقدمہ میں صدر پرویز مشرف کے موقف کو درست طریقے سے نہیں سنا گیا ہے، پراسیکیوشن سے بہت سے امور میں غلطیاں ہوئی ہیں۔

لہٰذا عدالت عظمیٰ فی الحال صدر پرویز مشرف کے خلاف چلنے والے غداری کے مقدمے پر فیصلہ نہ سنائے۔ عدالت نے پی ٹی آئی حکومت کے وکلا کی درخواست کو قبول کیا اور پانچ دسمبر تک سابق صدر کا بیان لینے اور مقدمے کو روزانہ کی بنیاد پر چلانے کی بات کی۔ اس سے چند روز قبل وزیراعظم پاکستان نے عدلیہ کے فاضل ججوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ عدالتی نظام کو بہتر بنائیں اور اس میں موجود سقم کو دور کریں۔ ان کا اشارہ میاں نواز شریف کے حوالے سے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کی جانب تھا۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں غریب اور امیر کے لیے ایک ہی قانون ہونا چاہیئے۔ عمران خان کے بھاشن نے کورٹ پر اتنا اثر کیا کہ ملک کے چیف جسٹس نے پہلی مرتبہ میڈیا پر آکر اس بات کی وضاحت کی کہ کورٹس اپنا کام بخوبی کر رہی ہیں اور اگلے ہی چند دنوں میں جسٹس سعید کھوسہ نے اپنی کہی ہوئی بات کو ثابت کر دیا۔ جسٹس سعید کھوسہ اور اعلیٰ عدلیہ کے گذشتہ چند دنوں کے اقدامات نے بہت سے حقائق پر سے پردہ اٹھایا۔ وزیراعظم عمران خان کی امیر اور غریب کے لیے ایک قانون، بے لاگ انصاف کی باتیں، اداروں کو مضبوط بنانے کے دعوے اور کسی بھی آرمی چیف کو ایکسٹنشن نہ دینے کے بیانات ایک ایک کرکے دھوئیں کے بادلوں کی مانند فضا میں غائب ہونے لگے۔ یقین نہیں آتا تھا کہ یہ عمران خان کی حکومت کے لوگ ہیں، جو غداری کے مقدمے کے فیصلے کو روکنے کے لیے درخواست دے رہے ہیں۔

ایکسٹنشن والی بات بھی عجیب و غریب تھی، یقیناً حکومت کے پاس ان دونوں اقدامات کی ٹھوس وجوہات ہوں گی، تاہم ایک بات واضح ہے کہ یہ دونوں اقدامات وزیراعظم عمران خان کے گذشتہ بیانات سے میل نہیں کھاتے ہیں، جس کے سبب ان کی بطور ایک سچے، کھرے اور اپنی بات کے دھنی قائد کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔ اللہ کرے میری یہ بات درست نہ ہو اور عمران خان سچے، کھرے اور اپنی بات کے دھنی انسان ہی ہوں، جو کہ بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اپنے دعووں اور بیانات سے کچھ پیچھنے ہٹنے پر مجبور ہوئے ہیں، کیونکہ پاکستان کے بے شمار لوگوں نے ملک کے کرپٹ سیاستدانوں سے نالاں اور پریشان ہو کر ان پر اعتماد کیا تھا۔ وہ کروڑوں پاکستانیوں کے لیے امید بن کر سامنے آئے تھے، اگر پاکستانیوں کی امید کی اس ہانڈی نے یونہی بیچ چوراہے میں پھوٹنا تھا اور پھوٹتے رہنا ہے تو مجھے افسوس سے کہنا پڑے گا کہ آئندہ کوئی بھی سمجھدار پاکستانی کسی بھی سیاستدان کے دعووں اور وعدوں پر اعتماد نہیں کرے گا۔ لوگوں کا جمہوریت پر سے اعتماد اٹھ جائے گا، جو کہ ملک کے لیے کسی طور پر اچھا شگون نہیں ہوگا۔ یہاں اگر آئین و قانون کی بالادستی کے لیے جیف جسٹس کے جرات مندانہ اقدام کی تعریف نہ کی جائے تو یہ ناشکری ہوگی، ہم چیف صاحب کو اس اہم اشو کی جانب متوجہ کرنے اور اس کے لیے حکومت کو مہلت دینے پر چیف صاحب کی فہم و فراست کو سلام پیش کرتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 829808
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش