QR CodeQR Code

سورج مغرب سے طلوع ہو تو ہرج کیا ہے!؟(2)

29 Nov 2019 22:27

اسلام ٹائمز: آج ایک نیک اور دیندار مسلمان چاہے مشرق میں رہتا ہو یا مغرب میں، وہ پریشان ہے، وہ اپنے ارد گرد ملحدانہ نظریات کو بخوبی دیکھ رہا ہے، وہ جانتا ہے کہ یہ ملحدانہ نظریات ٹیکنالوجی کے زور سے اس گھر کی بنیادوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں، اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ اگر اس نے کوئی چارہ جوئی نہ کی تو یہ بے راہروی، زنا، لواط اور ہم جنس بازی کی وبا اس کے گھر کی چوکھٹ کو بھی عبور کرے گی۔ فرض کریں اب اگر ایسا کوئی دیندار شخص ایک ایسی گولی کھا کر سو جائے، جسکے بعد وہ زیادہ نہیں، صرف چار پانچ سال تک سویا رہے تو پھر جب وہ جاگے گا تو اسکے گھر میں کیا ہو رہا ہوگا۔۔۔


تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com

گذشتہ سے پیوستہ
دین صرف غسلِ جنابت اور بیت الخلا کے آداب بتائے، زیادہ سے زیادہ حلال اور حرام کے احکام سمجھا دے، جبکہ نظامِ حیات ہمیں مغرب سے لینا چاہیئے، اگر مغرب ملحد ہے تو کیا مشرق والے دین کی روشنی میں زندگی گزارتے ہیں۱؟ کیا مشرقی مفکرین اور افکار دین کے پابند ہیں!؟ کیا اہلِ مشرق کی زندگیوں پر دین کی چھاپ ہے؟ کیا مشرق کے حکومتی، عدالتی، سیاسی، اقتصادی، تھانے و کچہری، صحت و صفائی اور تعلیمی نظاموں کو قرآن و حدیث سے اخذ کیا گیا ہے اور یہ سارے نظام قرآن و حدیث کی روشنی میں چل رہے ہیں!؟ جب اہلِ مشرق بھی اپنے معاملات دین کے بغیر اپنی فکر سے چلاتے ہیں تو پھر صرف اہل مغرب ہی ملحد کیوں؟! جی ہاں! یہ بات تو درست ہے کہ ملحد ہونے میں مشرق اور مغرب کی کوئی تفریق نہیں۔ لہذا الحاد میں آج کے اکثر مشرقی اور مغربی ممالک مساوی اور برابر ہیں، اگر فرق ہے تو صرف اتنا سا ہے کہ مغربی ملحدین کے پاس برس ہا برس کے مجرب اور ٹھوس نظام موجود ہیں جبکہ مشرقی ملحدین کے پاس اپنا کوئی نظام نہیں اور وہ مغربی نظاموں کے ہی مبلغ اور مقلد ہیں۔

آج ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح مغرب میں ایک شخص نام کا تو عیسائی یا یہودی ہوتا ہے، لیکن اپنی عملی زندگی میں وہ مُلحد اور سیکولر ہوتا ہے، اسی طرح ہمارے ہاں بھی  اکثر لوگ نام کے دیندار تو ہوتے ہیں، وہ ہندو، سکھ، مسلمان، عیسائی وغیرہ تو کہلاتے ہیں، لیکن عملی طور پر سیکولر اور ملحد ہی ہوتے ہیں۔ اس وقت ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایک راسخ العقیدہ و دیندار اور ایک سیکولر و ملحد انسان میں کیا فرق ہوتا ہے!؟ بظاہر دونوں انسان کی اہمیت کے قائل ہیں، دونوں ہی انسانی مساوات اور انسانی محبت کی بات کرتے ہیں! لیکن دونوں کی مساوات اور محبت میں زمین سے لے کر آسمان تک فرق ہے۔ مثلاً ایک دیندار مسلمان جب انسانی مساوات کی بات کرتا ہے تو اس کے نزدیک مرد اور عورت انسانیت، حقوق، آزادی، تعلیم و تربیت، نیکی و بھلائی، تقویٰ و پرہیزگاری اور عزت و احترام کے اعتبار سے برابر ہیں اور اس برابری کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ عورت سے اس کی نزاکت، عفت اور حیا چھین لی جائے۔ دینِ اسلام کے نزدیک عورت صنفِ نازک ہے اور لطیف احساسات و جذبات رکھتی ہے۔ چنانچہ اسلام عورت کی نزاکت اور لطافت کے پیش نظر عورت کا خصوصی طور پر خیال رکھتا ہے اور معاشرے کی سخت اور تھکا دینے والی ذمہ داریاں اس کے سر پر نہیں ڈالتا۔

دینِ اسلام مرد کو عورت کے نان و نفقے اور خرچ کا ذمہ دار قرار دیتا ہے اور عورت کو  بچوں کی تربیت اور امور ِ خانہ داری پر مامور کرتا ہے۔ یوں دینِ اسلام مرد کو گھر کے باہر اور عورت کو گھر کے اندر کے امور سونپ کر دونوں کو برابر اور مساوی رکھتا ہے۔ اسی طرح اگر عورت کو گھر سے باہر بھی ضروری امور انجام دینے پڑ جائیں تو وہ حجاب کے ساتھ اپنی عفت اور پاکیزگی کی حفاظت کرتے ہوئے گھر سے باہر بھی اس حد تک اپنے ایسے امور انجام دے سکتی ہے، جو اس کی نسوانی خصوصیات سے متصادم نہ ہوں۔ لیکن دوسری طرف ملحدانہ نظریات کے مطابق عورت اگر مرد کے برابر ہے تو  اس سے مراد یہ ہے کہ عورت مرد کی طرح مزدوری کرے، مرد کی طرح سڑکوں، دفتروں اور کارخانوں میں آٹھ آٹھ گھنٹے مشقت کرے، ایک جنسی حیوان کی طرح  پیسے کمانے کیلئے جنسی آگ میں جلے، وہ اپنے آنسو خود صاف کرے، وہ گرمی اور سردی میں مردوں کی طرح جلتی اور ٹھٹھرتی ہوئی دکھائی دے۔ بظاہر دونوں طرف انسانی مساوات کی بات ہو رہی ہے، لیکن حقیقت میں دونوں طرف کی مساوات میں فرق ہے۔

مساوات کی طرح محبت بھی ایسے ہی ہے، بظاہر دیندار اور ملحد دونوں محبت کا پرچار کرتے ہیں، لیکن دیندار جس محبت کی بات کرتا ہے، اس کے مطابق معاشرے میں ہر شخص کو اس کی ضروری محبت ملنی چاہیئے، مثلاً ماں باپ، میاں بیوی، ساس سسر، بھائی بہن، ہمسایہ اور رشتے دار، استاد اور شاگرد یہ سب محبت کے حقدار ہیں اور ان میں سے کسی کی بھی حق تلفی نہیں ہونی چاہیئے، انسان کو ان سب سے محبت کا اظہار کرنا چاہیئے، ان کی ضروریات کا خیال رکھنا چاہیئے، ان کیلئے تحفے تحائف بھیجنے چاہیئں، دوسروں سے محبت قائم رکھنے کیلئے یہ ضروری ہے کہ ان کی بیویوں، ماوں، بہنوں اور ان کی عزت و ناموس کا احترام کیا جائے، وغیرہ وغیرہ۔ دین محبت کو روکنے کے بجائے محبت کے فروغ کی تاکید پر زور دیتا ہے اور قطع تعلقی اور قطع رحمی کو گناہانِ کبیرہ میں سے قرار دیتا ہے۔ اسی طرح دوسری طرف ملحد شخص بھی بظاہر محبت کی بات کرتا ہے، ویلنٹائن ڈے اور Love کے نعرے لگاتا ہے، لیکن اس love اور محبت کا مقصد دوسروں کی عزت و ناموس کو پامال کرنا، چادر اور چار دیواری کے تقدس سے کھیلنا، عفت اور پاکدامنی پر حملے کرنا اور آہستہ آہستہ زنا، ہم جنس بازی اور لواط کی طرف لے جانا ہے۔

آج ایک نیک اور دیندار مسلمان چاہے مشرق میں رہتا ہو یا مغرب میں، وہ پریشان ہے، وہ اپنے ارد گرد ملحدانہ نظریات کو بخوبی دیکھ رہا ہے، وہ جانتا ہے کہ یہ ملحدانہ نظریات ٹیکنالوجی کے زور سے اس گھر کی بنیادوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں، اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ اگر اس نے کوئی چارہ جوئی نہ کی تو یہ بے راہروی، زنا، لواط اور ہم جنس بازی کی وبا اس کے گھر کی چوکھٹ کو بھی عبور کرے گی۔ فرض کریں اب اگر ایسا کوئی دیندار شخص ایک ایسی گولی کھا کر سو جائے، جس کے بعد وہ زیادہ نہیں، صرف چار پانچ سال تک سویا رہے تو پھر جب وہ جاگے گا تو اس کے گھر میں کیا ہو رہا ہوگا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔باقی اگلی قسط میں۔۔۔۔۔۔۔


خبر کا کوڈ: 829836

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/829836/سورج-مغرب-سے-طلوع-ہو-ہرج-کیا-ہے-2

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org