0
Saturday 30 Nov 2019 13:48

پولیس کے ہاتھوں سابق کونسلر کا قتل، گاڑی میں خون نہیں؟

پولیس کے ہاتھوں سابق کونسلر کا قتل، گاڑی میں خون نہیں؟
تحریر: طاہر یاسین طاہر

موضوعات بے شمار ہیں، عراق میں ہونے والے پرتشدد مظاہروں اور پھر عراقی وزیراعظم کے مستعفی ہونے کے اعلان سمیت، لندن مین پاکستانی نژاد شہری کے حملہ آور ہونے جیسے موضوعات قلم کی کمان اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں۔ ملکی داخلی صورتحال سے جڑے "کرنٹ افیئر" کی اصطلاح والے موضوعات الگ سے دامن کھینچتے ہیں۔ لیکن پنجاب پولیس کے اے ایس آئی کے ہاتھوں سابق کونسلر کا قتل پنجاب پولیس کی بالخصوص بے لگامی کا خطرناک رحجان ہے۔ چونکہ یہ واقعہ میرے شہر اور میرے گائوں کا ہے، اس لیے یہ المناک سانحہ اپنی دردناکی کے سبب میری توجہ کا زیادہ حق دار بنا۔ اگرچہ پولیس ناکوں پر پیش آنے والا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ صرف راولپنڈی/اسلام آباد کے چیکنگ ناکوں پر ایسے کئی واقعات پیش آچکے ہیں، جو شہریوں کی ہلاکت پر منتج ہوئے۔

میری ذاتی رائے ہے کہ جب کسی ناکے پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار، کسی موٹر سائیکل سوار، یا کسی کارسوار کو رکنے کا اشارہ کریں تو، شہریوں کو قانون کے احترام میں رکنا چاہیئے۔ نہ رکنے سے شبہات جنم لیتے ہیں اور پولیس شدید ردعمل کا مظاہرہ کرتی ہے، جس پر پورا سماج بعد ازاں احتجاج کرتا ہے۔ فیض آباد سے اسلام آباد داخل ہوں تو ایک بڑا چیکنگ پوائنٹ ہے، اسی طرح کشمیر ہائی وے سے جی نائن کراچی کمپنی کی طرف ٹرن لیں تو وہاں بھی پولیس چوکی موجود ہے۔ جی نائن والی پولیس چوکی پر تو گاہے کوئی موٹر سائیکل سوار رکنے کے بجائے پولیس پر فائرنگ کرکے بھاگ جاتا ہے۔ رالپنڈی کے کچھ علاقوں میں بھی ایسا ہوچکا ہے۔ تھانے صادق آباد راولپنڈی کی حدود میں بھی دو چار واقعات ایسے ہوئے کہ موٹر سائیکل سواروں نے رکنے کے بجائے پولیس پر فائرنگ کی اور بھاگ گئے۔ اسی طرح بسا اوقات موٹر سائیکل سواروں پر بالخصوص جب وہ چیکنک پوائنٹ پر نہیں رکتے ،اور بھاگتے ہیں تو پولیس بھی ان پر فائرنگ کر دیتی ہے۔

یہ معاملے کا ایک رخ ہے، جو بڑے اور گنجان شہروں میں عموماً پیش آتے ہیں۔ لیکن میری معلومات کی حد تک شمالی پنجاب میں بالخصوص ایسا کبھی نہیں ہوا، دیہی علاقے میں کسی چیکنگ پوائنٹ پر پولیس والوں نے شہری کو گاڑی یا موٹر سائیکل نہ روکنے کے باعث گولی ماری ہو۔ مقتول سابق کونسلر وحید انجم کلر سیداں کے نواحی گائوں سہوٹ کا رہائشی تھا، وحید انجم اس دور میں کونسلر بنا، جب اقتدار قاف لیگ کے ہاتھ میں تھا۔ مقتول کوئی دو چار سال پہلے اغوا بھی ہوا تھا، جس کی تفصیلات منظر عام پر نہ آسکیں، بلکہ اس حوالے سے جتنے منہ اتنی باتیں والی کہاوت ہے۔

گذشتہ سے پیوستہ رات پولیس کی پہلی ایف آئی آر، جو کانسٹیبل حبیب الرحمان کی مدعیت میں درج ہوئی، کے مطابق،"سنیپ چیکنگ کے لیے پولیس نے بینک چوک کنوہا" میں ناکہ لگایا ہوا تھا۔ جس میں عمران خالد، ٹی/ اے ایس آئی، تقدیس اختر، اے ایس آئی، اظہر ،محمود C/1756 مسلح SMG، عاطف شہزاد C/5840 مسلح SMG، "بینک چوک کنوہا"میں موجود تھے کہ بوقت سوا دس بجے رات، سیاہ رنگ کی کرولا گاڑی "گوجر خان روڈ" کی جانب سے آئی، جسے آگے کھڑے کانسٹیبل اظہر محمود نے رکنے کا اشارہ کیا، مگر ڈرائیور نے گاڑی نہ روکی، آگے کھڑے عمران خالد نے ٹارچ سے گاڑی کو رکنے کا اشارہ کیا، لیکن ڈرائیور نے گاڑی اوپر چڑھانے کی کوشش کی، لیکن عمران خالد چھلانگ لگا کر سائیڈ پر ہوگیا، لیکن میں (یعنی کانسٹیبل حبیب الرحمان) گاڑی کی زد میں آگیا اور گاڑی مجھے گھسیٹتے ہوئے دور تک لے گئی کہ آگے کھڑے تقدیس اختر، اے آئی ایس نے میری نیچے گری ہوئی رائفل اٹھا کر فائر کیا اور گاڑی رک گئی، تو عمران اے ایس آئی، اظہر محمود اور عاطف کانسٹیبل نے مجھے گاڑی کے نیچے سے نکالا۔ دیکھا تو ڈرائیور گولی لگنے سے زخمی ہوگیا تھا، عمران خالد اے ایس آئی مجھے اور وحید انجم کو ایک پرائیویٹ گاڑی روک کر ٹی ایچ کیو ہسپتال کلر سیداں لے آئے۔"

واقعہ پر پردہ ڈالنے کے لیے پولیس نے یہ پہلی"کارروائی ڈالی" اور مقتول کے خلاف ہی پرچہ دے دیا۔ بعد ازاں عوامی دبائو پر پولیس نے مقتول کے عزیز "حبیب الرحمان" کی مدعیت میں اسی واقعہ کے خلاف ایک دوسرا پرچہ درج کیا، جس کے مطابق دو گاڑیوں میں مقتول اور اس کے عزیز اپنے گھر سہوٹ کی جانب جا رہے تھے کہ پولیس نے گاڑی روکنے کا اشارہ کیا، مقتول نے گاڑی روکی تو پولیس نے سابق کونسلر پر فائرنگ شروع کر دی۔ کلر سیداں پولیس نے اے ایس آئی، تقدیس اختر/عمران خالد، کانسٹیبلان، حبیب، اظہر محمود اور عاطف شہزاد کے خلاف مقدمہ درج کرکے حبیب اختر اور اظہر محمود کو گرفتار کر لیا۔" اس واقعہ کے یقیناً اسباب ایسے ہیں، جن کی جوڈیشل انکوائری نہایت ضروری ہے۔ نامزد ملزم اے ایس آئی تقدیس اختر، واقعہ سے ایک دو دن پہلے مقتول وحید انجم کے گھر میں رات کے کھانے پر مدعو تھا، پولیس کی پہلی ایف آئی آر کے مطابق گاڑی گوجر خان روڈ کی جانب سے آرہی تھی، جبکہ مقتول نے مرنے سے پہلے جو ہسپتال میں بیان دیا کہ وہ "جسوالہ" سے اپنے گائوں کی طرف جا رہا تھا، یعنی گوجر خان روڈ ایک دوسری سمت ہے اور جسوالہ سے آیا جائے تو یہ بالکل سیدھا راستہ بنتا ہے۔

دونوں صورتوں میں جہاں ناکہ لگا ہوا تھا، وہاں روڈ کی حالت اس قدر خستہ ہے کہ گاڑی کسی بھی صورت تیز رفتار نہیں چلائی جا سکتی۔ ایک سوال یہ بھی کہ اگر پولیس کانسٹیبل گاڑی کے ساتھ گھسیٹا گیا تو یقیناً اسے گہری چوٹیں آنی چاہئیں اور اسے کسی ہسپتال میں داخل ہونا چاہیئے، مگر وہ تو حوالات میں ہے؟ اس واقعہ کی سب سے تشویش ناک بات، مقتول کی گاڑی پر نہ فائر کا نشان ہے، نہ گاڑی کے اندر خون کا کوئی دھبہ۔ صرف بائیں سائیڈ کا فرنٹ شیشہ ٹوٹا ہے، جو واقعہ کو مشکوک بناتا ہے۔ کیونکہ مقتول کو میٖڈیکل رپورٹ کے مطابق "دو فائر" لگے۔ SHG رائفل کے دو فائر لگے ہوں تو کیا خون نہیں بہتا؟ اور فائر بھی جسم کے اوپر والے حصہ میں لگے، اصولاً مقتول کا پوسٹ مارٹم ٹی ایچ کیو کلر سیداں میں ہونا چاہیئے تھا، لیکن پولیس نے ورثاء کی اجازت کے بغیر ڈی ایچ کیو راولپنڈی سے پوسٹ مارٹم کرا لیا اور پھر ورثاء کو مطمئن کرنے کے لیے اگلے دن لاش ٹی ایچ کیو ہسپتال کلر سیداں پوسٹ مارٹم کے لیے شفٹ کرائی، جہاں پتہ چلا کہ پوسٹ مارٹم تو پہلے ہی ہو چکا ہے۔ جس کے بعد ورثا اور اہلیان علاقہ مزید مشتعل ہوگئے اور لاش کو روات جی ٹی روڈ پر رکھ کر شدید احتجاج کیا۔

اگرچہ پولیس کے اعلیٰ افسران نے عوامی دبائو میں آکر ایس ایچ اور تھانہ کلر سیداں سمیت نامزد ملزمان کو معطل کر دیا ہے، لیکن میری دانست میں معطلی کوئی سزا نہیں ہوتی۔ سماج میں انصاف نہیں ہوگا تو انارکی پھیلے گی اور انارکی کا سادہ مطلب خانہ جنگی ہوتا ہے۔ جنھیں خانہ جنگی کی سمجھ نہیں، وہ کسی ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر عراق/ افغانستان/ شام کے حالات دیکھ سن لیں۔ میں اپیل کرتا ہوں کہ قانونی موشگافیوں کے پیچ و خم میں الجھے بغیر، اس کیس کی تفتیش میرٹ پر کی جائے۔ سی پی او، آر پی او ، ڈی پی او، آئی جی نہیں، بلکہ سماجی حیات کے زندہ کردار، ان ہوٹلوں/چائے خانوں، بیکریوں اور شادی ہالوں کو بے نقاب کریں، جہاں سے پولیس کو مفت کھانا ملتا ہے اور بدلے میں ان ہوٹلوں/چائے خانوں کو ہوٹل کاروبار کی آڑ میں، منفی سرگرمیاں، کرنے کی "غیر اعلانیہ" اجازت دی جاتی ہے۔

بہت افسوس سے تحریر کر رہا ہوں کہ کرپٹ پولیس افسران کی پسندیدہ جگہ تھانہ کلر سیداں ہی رہی، کیونکہ یہاں نام نہاد "سماجی و سیاسی رہنما" پولیس کو ہر وہ سہولت دیتے ہیں، جو پولیس کو مطلوب ہوتی ہے۔ وحید انجم کا قتل پولیس کے ظالمانہ رویے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس سانحہ کی جزئیات کو ترتیب دے کر واقعہ کی جوڈیشل انکوائری کرائی جائے کہ دو روز قبل مقتول کا مہمان بننے والا اے ایس آئی مقتول کا قاتل کیوں بن گیا؟ محسن نقوی نے کیا خوب ترجمانی کی ہے:
قتل چھپتے تھے کبھی سنگ کی دیوار کے بیچ
اب تو کھلنے لگے مقتل بھرے بازار کے بیچ
خبر کا کوڈ : 829932
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش