0
Saturday 30 Nov 2019 22:09

خیبر پختونخوا میں کرپشن اور بدعنوانی کی جڑیں ابھی بھی ختم نہیں ہوئیں، وزیراعلٰی کا اعتراف

خیبر پختونخوا میں کرپشن اور بدعنوانی کی جڑیں ابھی بھی ختم نہیں ہوئیں، وزیراعلٰی کا اعتراف
رپورٹ: ایس علی حیدر

خیبر پختونخوا کے وزیراعلٰی محمود خان نے یہ بات تسلیم کر لی ہے کہ صوبہ سے کرپشن اور بدعنوانی کی جڑیں ختم نہیں ہوئی ہیں، بلکہ کرپشن کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔ انہیں اس بات کا احساس ہے کہ بدعنوانی کی کہیں نہ کہیں بو آرہی ہے، اس لئے انہوں نے کرپشن کے خلاف بھرپور مہم شروع کرنے کی منظوری دیدی ہے۔ اعلٰی سطحی اجلاس کے دوران وزیراعلٰی خیبر پختونخوا محمود خان نے کرپشن سے متعلق شکایات کیلئے کال سنٹر، ای ٹینڈرنگ اور ای بلنگ سے اتفاق کیا ہے۔ یہ پورے ملک کی بڑی بدقسمتی ہے کہ کرپشن کی جڑیں بہت گہری ہوچکی ہیں، جس کو جڑ سے اکھاڑنے کیلئے سخت ترین قانون سازی کی ضرورت ہے۔ وزیراعلٰی کو جس طرح کرپشن کی موجودگی پر تشویش ہے، اسی طرح ان سے زیادہ وزیراعظم کرپشن سے متعلق فکر مند ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینک دینگے، لیکن ایسا نہ ہوسکا۔

نیب کے ایک سابق چیئرمین نے ایک تقریب سے خطاب کے دوران کہا تھا کہ پاکستان میں روزانہ 12 ارب روپے کی کرپشن ہو رہی ہے، وہ تقریر عمران خان کے ذہن میں تھی، اس لئے ان کا خیال تھا کہ ان کے اقتدار میں آنے کے بعد جب روزانہ کی 12 ارب روپے کرپشن کا خاتمہ ممکن ہوسکے گا تو ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا۔ عمران خان وزیراعظم بنے سے قبل کہتے رہے کہ ملک کا سربراہ ایماندار ہوتا ہے تو نیچے کے لوگ کرپشن کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلٰی محمود خان کو اس بات کا احساس ہے کہ کرپشن کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ جس کا خاتمہ نیب، اینٹی کرپشن اور ایبلشمنٹ جیسے اداروں کے بس کی بات نہیں، اس لئے وہ کرپشن کے خاتمے سے متعلق چین کی مثالیں دے رہے ہیں۔ چین میں کرپشن پر سزائے موت ہے، اس لئے وہاں کوئی کرپشن کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔

اب پوری قوم کو یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ موجودہ دور حکومت میں بھی کرپشن ہو رہی ہے، کرپشن ختم نہیں ہوئی، تاہم اس میں کمی دیکھی گئی ہے۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ملک کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ بدعنوانی اور بے ایمانی ہے، جہاں انصاف بِکتا ہو، جہاں سرکاری اداروں میں میرٹ کی دھجیاں اڑائی جاتی ہوں، کرپشن اور بدعنوانی کی جڑیں گہری اور مضبوط ہوں تو وہاں ترقی کا خواب دیوانے کی بھڑک ہے۔ وزیراعلٰی محمود خان اگر صوبہ سے کرپشن کو ختم کرنے میں مخلص ہیں تو آغاز پٹواریوں سے کیا جائے، پٹوار خانے کرپشن کے گڑھ ہیں۔ پشاور میں نیب زده اور برطرف ہونے والا پٹواری سعید خان ایک مافیا کا سربراہ ہے، وہ پٹواریوں کا سرغنہ ہے۔ اب وہ پٹواری نہیں مگر اس کے باوجود وہ کرپشن کا بے تاج بادشاہ ہے۔ اس کے کہنے پر پٹواریوں کی تقرری اور تبادلے ہوتے رہتے ہیں۔

صوبہ بھر میں کاغذات مال میں تبدیلی کرنا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ اگر وزیراعلی کرپشن کے خاتمے میں مخلص ہیں تو وہ لینڈ مافیا کی سرپرستی کرنے والے پولیس افسران کے خلاف تادیبی کارروائی کریں۔ اگر صوبہ کے سربراہ اور چیف ایگزیکٹو کرپشن کے خاتمے کیلئے پرعزم ہیں تو غیر معیاری ترقیاتی کام کرنے والے کنٹریکٹرز اور متعلقہ ڈیپارٹمنٹس کے افسران کے خلاف کارروائی کریں۔ جن ترقیاتی کاموں اور فائلوں میں رشوت نہ ہو ان کاموں کو کوئی ہاتھ نہیں لگاتا، جس کی وجہ سے صوبہ کی ترقی کا عمل سست روی کا شکار ہے۔ کئی سال قبل تعمیر ہونے والی عمارتوں کو اس لئے استعمال میں نہیں لایا جا رہا ہے کہ وہاں بقایا جات کی ادائیگیاں نہیں ہو رہی ہیں۔

وزیراعلٰی کی نیت پر کرپشن کے خاتمے سے متعلق شک نہیں کیا جاسکتا، لیکن بدقسمتی سے آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے، جب تک سرکاری اداروں کے سربراہان کی تقرری اور تعیناتی میرٹ پر نہیں ہوتی اور ان کا قبلہ درست نہیں کیا جاتا، تب تک صوبہ میں کرپشن کے خاتمے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے گا۔ واضح رہے کہ پرویز خٹک کے دور حکومت میں ویسل بلور کا قانون منظور ہوا، جس کے تحت کرپشن کی نشاندہی کرنے پر برآمد ہونے والی رقم میں سے نشاندہی کرنے والوں کو 30 فیصد حصہ ملتا ہے، لیکن نہ جانے وہی قانون زمین بوس ہوا، قانون موجود ہے لیکن آج تک کسی نے کرپشن کی نشاندہی نہیں کی۔

اسی طرح ارکان صوبائی اسمبلی حکومتی عہدیداروں اور وزراء پر اپنا کاروبار کرنے پر پابندی عائد کی گئی، اس حوالے سے قانون سازی بھی کی گئی، وہ قانون اور ایکٹ بھی بے اثر ہوا۔ صوبہ سے کرپشن کے خاتمے کیلئے موثر حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے گذشتہ 5 سالہ دور حکومت میں کرپشن ہوتی رہی اور موجودہ دور میں بھی ہو رہی ہے، وزیراعلٰی نے تبادلوں اور تعیناتیوں کا عمل شفاف بنانے کی بات کی ہے، لیکن صوبہ میں کہیں بھی میرٹ پر تبادلے اور تقرریاں نہیں ہو رہی ہیں۔ اگر میرٹ پر کام ہوتا تو شاید صوبہ ترقی کرتا، صوبہ میں اہم اور کلیدی عہدوں پر افسران کی تقرری میرٹ پر نہیں سفارش پر ہوتی ہے۔ پورے صوبہ میں کہیں میرٹ پر تقرری اور تعیناتی نظر نہیں آرہی ہے، جس کی وجہ سے بہت سے ایماندار افسران کھڈے لائن ہیں۔
خبر کا کوڈ : 829988
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش