0
Tuesday 3 Dec 2019 22:30

پاراچنار، اساتذہ یونین کا احتجاج

پاراچنار، اساتذہ یونین کا احتجاج
رپورٹ: ایس این حسینی

اپر کرم کے علاقہ بغکی میں سرکاری سکول کے کلاس فور ملازم نے اپنے متعدد ساتھیوں کے ہمراہ حملہ کرکے سکول کے تین ٹیچرز کو زد و کوب کرکے شدید زخمی کر دیا۔ زخمی ٹیچرز کو فوری طور پر ہسپتال منتقل کر دیا گیا، تاہم ایک کی حالت نہایت نازک بتائی جاتی ہے۔ واقعے کے ردعمل میں اساتذہ یونین کی کال پر ضلع بھر کے تمام سرکاری سکولوں کو دو دن کیلئے بند کر دیا گیا، جبکہ ملزم کو گرفتار کرنے کے علاوہ نوکری سے بھی برطرف کر دیا گیا۔ پولیس ذرائع کے مطابق اپر کرم کے علاقے ہائی سکول بغکی میں 30 نومبر بروز ہفتہ سکول کے مالی مدثر حسین نے تکرار کے بعد ساتھیوں کے ہمراہ سکول ہذا کے ٹیچرز پر حملہ کیا اور تین اساتذہ کو شدید زخمی کر دیا۔ تینوں زخمی ٹیچرز مظہر علی، قنبر علی اور اسحاق علی کو ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ بعد ازاں شدید زخمی ٹیچر اسحاق علی کو تشویش ناک حالت میں پشاور منتقل کر دیا گیا۔

ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر محمد اقبال بنگش نے واقعے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے ملزم کو فوری طور پر نوکری سے برطرف کر دیا۔ اساتذہ یونین واقعے کے ردعمل میں ضلع بھر کے تمام سرکاری تعلیمی اداروں کو دو دن کیلئے بند کر دیا۔ اساتذہ نے واقعے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے گورنمنٹ اسرار شہید ہائی سکول سے احتجاجی ریلی نکالی اور پریس کلب تک مارچ کیا۔ جہاں احتجاجی مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے ہیڈ ماسٹر ایسوسی ایشن کے صدر مرجان علی، ٹیچرز ایسوسی ایشن کے صدر سید زاہد حسین، ایس ایس کے صدر سید میر حسین، لوئر کرم کے صدر اساتذہ رفیق اورکزئی اور پرنسپل مجید گل نے کہا کہ مذکورہ اساتذہ پر حملہ ان پر نہیں بلکہ ایجوکیشن پر حملہ ہے۔

رہنماؤں نے مطالبہ کیا کہ واقعے میں ملوث افراد کو قرار واقعی سزا دی جائے، تاکہ آئندہ اساتذہ کے خلاف کوئی اس قسم کے اقدام کا ارتکاب نہ کرے۔ اساتذہ رہنماؤں نے دیر کے ڈی ڈی او نواب علی کے قتل کی بھی شدید مذمت کی اور اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ اس قتل میں علاقے کا ایک ایم پی اے بھی ملوث ہے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ نواب علی کے قتل میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچائے۔ اساتذہ کے احتجاج سے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر محمد اقبال بنگش نے خطاب کرتے ہوئے واقعے پر رنج و غم کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ میرے برداشت سے باہر ہے کہ میرے استاد پر کوئی ہاتھ اٹھائے۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ تعلیم نے اس واقعے کا سخت نوٹس لیا ہے۔ اس موقع پر پریس کلب کے سامنے مین روڈ دو گھنٹے کیلئے ٹریفک کیلئے بند رہا۔

ریلی میں اپر کرم کے لگ بھگ ہزار بارہ سو اساتذہ کے علاوہ لوئر اور سنٹرل کرم سے بھی درجنوں اساتذہ اور ان کے رہنماؤں نے شرکت کی۔ مقررین نے سال 2019ء بالخصوص ماہ نومبر کو اساتذہ کیلئے نہایت منحوس قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس دوران دیر کے ایک ایجوکیشن افسر نواب علی کو قتل کیا گیا۔ جس میں ایک ایم پی اے بھی ملوث بتایا جا رہا ہے۔ انہوں نے ایم پی اے سمیت اس واقعے میں ملوث تمام ملزمان کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا۔ مقررین نے پیواڑ میں 13 نومبر کو ہونے والے حادثے پر نہایت افسوس کا اطہار کیا کہ فاٹا بالخصوص کرم کی تاریخ میں ایسا واقعہ پہلے کبھی رونما نہیں ہوا ہے۔ جس پر افسوس کے ساتھ ساتھ ہم اہلیان کرم نہایت شرمندہ ہیں۔ اس واقعے نے ایک طرف اگر گھر والوں کو شدید دکھ پہنچایا ہے تو دوسری جانب ہم جملہ اہلیان کرم کے سر شرمندگی سے خم ہیں۔ انہوں نے ارباب اختیار سے مطالبہ کیا کہ اس واقعے میں ملوث فرد، خواہ کتنا ہی بااثر اور طاقتور کیوں نہ ہو، کو جلد از جلد کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔

مقررین نے کہا کہ معلوم ہو رہا ہے کہ پیواڑ حادثے کے اصل کردار کلاس فور ملازمین ہی ہیں۔ انہوں نے بوغکی میں استاد پر ہونے والے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس سکول میں کلاس فور ملازمین کی جانب سے ہونے والا یہ اقدام کوئی پہلا اقدام نہیں، بلکہ اس سے پہلے بھی ہیڈ ماسٹر انعام علی صاحب نیز کئی دیگر اساتذہ کے ساتھ کئی بار بدتمیزی ہوئی تھی اور نوکر نے انہیں دھمکی دی تھی۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ واقعہ سے پہلے کلاس فور ملازمین اپنے فرائض منصبی سے بڑھ کر اپنی من مانی پر اتر آئے تھے، پرنسپل اور اساتذہ نے علاقے کے با اثر افراد، سادات اور ملک صاحبان کو بھی شکایت کی تھی۔ مگر انہوں نے بھی کوئی خاص کردار ادا نہ کیا اور گذشتہ روز ملزمان نے جب سکول کے باہر اساتذہ پر حملہ کیا تو دیگر ملازمین اس دوران صرف تماشا دیکھتے رہے۔

صدر اساتذہ نے محکمہ ایجوکیشن خصوصاً ڈی ای او، جو احتجاج میں بذات خود موجود بھی تھے، کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ہمارے مثبت مشوروں کو اگر مسترد نہ کیا جاتا اور ہمارے مثبت مشوروں پر معمولی سی بھی توجہ دی جاتی تو آج یہ واقعہ پیش نہ آتا۔ مقررین نے کرم میں موجود تمام تنظیموں بالخصوص انجمن حسینیہ اور تحریک حسینی کو بھی نشانہ تنقید قرار دیتے ہوئے کہا کہ کرم میں معمولی سی چڑیا مر جاتی ہے تو یہ لوگ احتجاج پر اتر آتے ہیں۔ آج جبکہ معماران قوم (اساتذہ) کی ہتک ہوئی ہے، ان لوگوں کے کانوں پر جونک تک نہیں رینگی۔ ایک ٹیلی فون کال کی بھی ان سے زحمت نہیں ہوئی۔ انہوں نے صحافی حضرات کو بھی ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ استاد کوئی معمولی مقام نہیں، جبکہ انہوں بالکل چپ سادھ لی ہے۔ ریلی کے آخر میں اعلان کیا گیا کہ واقعے کے سوگ میں اگلے دن منگل کو بھی سکول بند رہیں گے۔
خبر کا کوڈ : 830292
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش