0
Monday 2 Dec 2019 13:40

طلبہ یونینز بحالی کیسے ممکن ہوگی؟

طلبہ یونینز بحالی کیسے ممکن ہوگی؟
تحریر: توقیر کھرل

یونیورسٹیز میں طلبہ تنظیمیں غریب اور متوسط طبقے کی سیاسی نرسریاں سمجھی جاتی تھیں، جہاں سے ملک کو سیاسی قیادت ملتی تھی۔ لیکن جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں طلبہ اور مزدور یونینوں پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کے بعد 1988ء میں بینظیر بھٹو نے طلبہ یونین سے پابندی ہٹانے کا اعلان کیا، لیکن تین سال کے اندر یونین سازی کو اس بنیاد پر عدالت میں چیلنج کر دیا گیا کہ یہ تشدد کو فروغ دیتی ہیں۔ بالآخر 1993ء میں سپریم کورٹ نے یونین پر پابندی عائد کر دی۔ جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت کے بعد جب 2008ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنے پہلے خطاب میں طلبہ یونین کی بحالی کا اعلان کیا، لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔

پاکستان میں جامعات میں طلبہ تنظیموں پر پابندی کی ایک وجہ طلبہ گروہوں میں تصادم کو بھی قرار دیا جاتا ہے، لیکن طلبہ یونینز پر پابندی سے جامعات میں مکالمہ کی فضا ختم ہوئی اور شدت پسندی میں اضافہ ہوا ہے۔ گذشتہ تین دہائیوں سے طلبہ یونین پر پابندی سے طلبہ تعلیمی اداروں کے آئین کے تحت حاصل ہونیوالے بنیادی حقوق و اختیار سے محروم ہیں۔ جس کے لئے طلباء آواز بلند کرتے رہتے ہیں۔ گذشتہ ہفتے ملک کے دیگر شہروں کی طرح لاہور میں بھر ترقی پسند طلبہ کی جانب سے جامعات میں طلباء یونینز بحالی اور طلباء حقوق کیلئے مارچ کئے گئے۔ ملک میں دائیں اور بائیں طرف کی طلبہ تنظیموں کا حقوق کے لیے بڑھتا ہوا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔

طلباء کی اپنے حقوق کے جدوجہد کی تحریک کے بارے میں وزیراعظم پاکستان کا طلباء یونینز کی بحالی کے لئے بیان بھی خوش آئند ہے، جس میں طلباء یونینز کی بحالی کی غرض سے بین الاقوامی تعلیمی اداروں میں رائج بہترین نظام سے استفادہ کرتے ہوئے جامع اور قابل عمل ضابطہ اخلاق ترتیب دینے کا عزم کیا ہے۔ لیکن انہوں نے بھی اس خدشہ کا اظہار کیا ہے کہ بدقسمتی سے پاکستان کی جامعات میں طلبہ یونینز میدان کارزار کا روپ دھار گئیں ہیں اور جامعات میں دانش کا ماحول مکمل طور پر تباہ ہو کر رہ گیا۔ یونین بحالی کے لئے سرگرم عمل طلباء تنظیموں کو ریاست کے ان خدشات کو بھی دور کرنا ہوگا، جو اور اس بات پر اتفاق کرنا ہوگا کہ اگر طلباء یونینز بحال ہو جاتی ہیں تو سیاسی طاقتوں کو طلباء کی سیاست سے دور کر رکھ کر صرف طلباء کے مسائل کے حل کے لئے عملی اقدامات اور جدوجہد کی جائے گی۔

سیاسی، لسانی تقسیم کو طلباء سیاست سے دور کھا جائے تو یونیورسٹیز میں تشدد سمیت تمام خدشات کو دور کیا جاسکتا ہے۔ باہر کی سیاسی لسانی لڑائیاں تعلیمی اداروں میں نہ جائیں تو یقینی طور پر طلبہ یونینز بحالی میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے، کیونکہ طلباء کے ساتھ ساتھ ملک کی تمام سیاسی پارٹیاں اس پر متحد ہیں کہ طلبا یونینز بحال ہونی چاہئیں۔ یہ امر پاکستان کی سلامتی، سیاست اور سماج کے لئے اچھا قدم ثابت ہوسکتا ہے۔ وزیراعظم پاکستان نے بھی ٹویٹ میں ضابطہ اخلاق کے مطابق طلبہ یونینز بحال کرنے کے عزم کا اظہار تو کیا ہے، لیکن سابقہ حکومتوں کی طرح عملی اقدامات اٹھاتے ہوئے الیکشنز کا اعلان کرنا چاہیئے، بصورت دیگر یہ اعلانات فقط لولی پاپ ہی تصور کئے جائیں گے۔
خبر کا کوڈ : 830362
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش