0
Tuesday 3 Dec 2019 15:10

طلباء سیاست اور اس کے اثرات

طلباء سیاست اور اس کے اثرات
تحریر: ارشاد حسین ناصر
 
کافی عرصہ سے طلباء سیاست میں کسی قسم کی گرمی یا شعلہ افشانی دیکھنے یا سننے میں نہیں آرہی تھی، بلکہ ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی بہتات اور سیمیسٹر سسٹم نے طلباء سیاست کو ایک لحاظ سے دفن کر دیا ہے۔ اب تعلیم اتنی مہنگی ہوگئی ہے کہ کسی کو سیاست سے کیا لینا دینا۔ بس پڑھائی، گریڈ کا حصول اور میرٹ پر پورا اترنے کا جنون کسی کو یاد ہی نہیں دلاتا کہ طلباء بھی سیاست کے اکھاڑے کے اہم کھلاڑی ہوا کرتے تھے، مگر پھر ہم نے دیکھا کہ یکا یک اس میں گرمی پیدا ہوگئی۔ لاہور جسے تحریکوں کا شہر کہا جاتا ہے، یہی سے کچھ طلباء نے اس جمود کو توڑا اور ہر سو طلباء کے تذکرے ہونے لگے۔ لاہور میں پروگریسو اسٹوڈنٹس کلیکٹو اور اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے نام سے اٹھنے والی طلباء تحریک پر مختلف قسم کی آراء او رتبصرے جاری ہیں، طلباء کے نام سے اٹھنے والی اس تحریک نے سوشل میڈیا سے الیکٹرانک و عالمی میڈیا کی توجہ بھرپور طرح سے حاصل کی ہے۔

اس کی شروعات ایک عالمی پروگرام فیض میلہ سے شروع ہوئیں، جہاں سے ان طلباء نے لوگوں کی توجہ حاصل کرکے ان نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں نے ایک دفعہ سب کو اپنی جانب متوجہ کر لیا تھا، جس میں انہوں نے اپنے پروگرام طلباء یکجہتی مارچ کیلئے ایک منفرد انداز سے کمپین کی تھی، اسی وجہ سے ان کے طلبہ یکجہتی مارچ پر ہر ایک کی نظر تھی کہ یہ لوگ کیا کرتے ہیں۔ اگرچہ یہ لوگ اپنے نعروں اور انداز سے ہی ان کی فکری پہچان ہو رہی تھی، مگر مارچ کے روز یہ لوگ ذرا کھل کر سامنے آئے۔ مارچ میں اپنے ساتھ بعض دیگر طبقات کو ملا کر ان لوگوں نے اپنی نظریاتی وابستگی کا بھرپور اظہار کیا، یہ مارچ ان کا پہلا پاور شو تھا، جس پر اگر طلباء کی مہر لگی رہتی تو ان کے حق میں بہتر ہوتا، مگر ایسا نہیں ہوا۔ ان لوگوں نے بہت سے طبقات جن میں ٹریڈ یونینز اور کچھ پولیٹیکل پارٹیز بھی شامل تھیں، کو اپنے ساتھ ملا لیا، جس سے ان کا وہ تاثر زائل ہوگیا کہ یہ فقط طلباء کی ایک تحریک ہے، جو طلباء کے غصب شدہ حقوق کی بازیابی کیلئے سامنے آئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان نوجوانوں نے اپنے آپ کو کھل کے لیفٹیسٹ ثابت کیا، اپنے نعرو بلکہ اپنے رنگ و روپ سے بھی اور نظریات کے اظہار سے بھی یہ خود کو سرخے ثابت کرتے نظر آئے، ایشیا سرخ ہے، کے نعر ے آج کے نہیں بلکہ یہ کافی پرانے نعرے ہیں، جو ایک لحاظ سے دم توڑ چکے تھے۔
 
یہ ایک حقیقت ہے کہ پروگریسو اسٹوڈنٹس کلیکٹو کی طرف سے طلباء کے حقوق کیلئے مطالباتی پمفلٹ میں جو مطالبات لکھے گئے ہیں، ان سے ہر ایک کو اتفاق ہے اور یہ شائد سب ہی طلباء تنظیموں کا مطالبہ ہے، چاہے وہ دائیں بازو سے ہوں یا بائیں بازو سے۔ طلباء کی سلب شدہ آزادی کا حصول ہر ایک تنظیم کے منشور کا حصہ ہے، مگر سرخ انقلاب کے نعرے کسی نظریہ کی نشاندہی کرتے ہیں، یہ سیکولر بھی نہیں بلکہ ایک دوسرے نظام سے وابستگی کی علامت ہیں۔ یہ سوشلسٹ انقلاب کی بات ہو رہی ہے، دنیا اس سے بہت آگے جا چکی ہے، ماضی میں ان نظریات کی حامل تنظیمیں، جن میں نیشنل سٹوڈنتس فیڈریشن، پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن ہوا کرتی تھی، کافی فعال تھیں، مگر عالمی حالات میں تغیر و تبدیلی اور پاکستان میں یکے بعد دیگرے آمریت کے باعث یہ اور اس طرح کی دیگر تنظیمیں دم توڑ گئیں اور ان کی جگہ آمریت کی گود سے نکلی نام نہاد اسلامی جماعتوں نے لے لی، جنہیں اعلیٰ تعلیمی اداروں سمیت ملک کے سیاسی عمل داری میں حصہ دار بنایا گیا۔

جس سے یہ نقصان ہوا کہ ملک کا باشعور طبقہ سیاست سے دور ہوگیا اور بونے قسم کے لوگ سیاسی مدار کے طور پہ سامنے آگئے، جنہوں نے لوٹ مار کا بازار گرم کیا، آمریت کی سپورٹ کے بدلے یہ مراعات لیتے رہے اور ملک ترقی سے میلوں دور ہوتا گیا، جبکہ سیاسی نظام میں بھی مسلسل خرابیاں جڑ پکڑ گئیں، یہ خرابیاں ستر برس گزر جانے کے بعد اس قدر قوی اور مضبوط ہوگئیں کہ اب ہر سو چور ڈاکو، لٹیرے ہی دکھائی دیتے ہیں۔ موجودہ حکمران اگرچہ احتساب کے نعرے اور شفافیت کی بنیاد پر میدان میں اترے تھے اور لوگوں کو ایسے خواب دکھائے تھے کہ کرپشن کا خاتمہ کریں گے، مگر بدقسمتی سے ان کی روش بھی اگلوں سے مختلف نہیں تھی، جو جو کرپٹ تھا، اس نے اپنے لئے پی ٹی آئی میں جائے پناہ سمجھی اور دو رنگا جھنڈا گلے میں ڈال کے پاک صاف ہوگیا، یہ اس ملک کی بدقسمتی ہے کہ اس کیساتھ کوئی بھی مخلص نہیں۔
 
اس میں کوئی شک نہیں کہ طلباء سیاست پر پابندی سے ہمارے ملک کو وہ قیادت نہیں مل سکی، جس نے ملکی ترقی اور نظام کی مضبوطی کیلئے کام کرنا تھا اور تعلیمی اداروں میں ہونے والی سیاسی تربیت کو عملی میدان سیاست میں ملکی ترقی میں کردار ادا کرنا تھا، اسی وجہ سے ہم کہتے ہیں کہ طلباء کے جمہوری حقوق پر ڈاکہ زنی نہ کی جائے، انہیں کالجز اور یونیورسٹیز میں یونین سازی کا حق دیا جائے۔ یہ ایک جائز مطالبہ ہے، مگر ہم اس کیساتھ ساتھ یہ بھی چاہتے ہیں کہ تعلیمی اداروں کا ماحول پرامن رہے اور سیاسی جماعتوں کی مداخلت کے بغیر یہ یونین سازی ہو، تاکہ سیاست دان اور قبضہ مافیا طلباء کی قوت سے ناجائز فائدہ نہ اٹھا سکیں۔
بدقسمتی سے ماضی میں طلباء تنظیموں اور بعض قبضہ گروہوں نے طلباء تنظیموں کے نام پر تعلیمی اداروں کے ماحول کو اس قدر خراب کیا کہ والدین اور عمومی لوگوں نے کانوں کو ہاتھ لگائے، کیونکہ بعض جگہوں پر خونریزی کیساتھ ساتھ ایسے ایسے قبضہ گروپس وجود میں آگئے، جو اجرتی قاتل کے طور پر بھی کام کرتے تھے اور سیاسی شخصیات کے ہاتھوں میں بھی کھلونا بنے ہوئے تھے۔

اس کے بعد ہمارے تعلیمی نظام میں ایک ایسا انقلاب آیا، جس نے سب کچھ ہی تلٹ پلٹ دیا، پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی بہتات اور سرکاری تعلیمی اداروں میں معیار تعلیم کی گراوٹ سے عام غریب کے بچے اعلیٰ اور جدید تعلیم سے محروم رہنے لگے، دور دراز اور دیہاتی ایریاز اور بڑے شہروں میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں ملنے والی سہولیات اور وسائل سے معاشرہ تقسیم ہو کر رہ گیا۔ اس دوران طلباء حقوق کے نام پر موہوم سی آوازیں سنائی دیتی رہیں، مگر یہ کمزور و نحیف و نزار آوازیں طاقتور مافیاز کے سامنے دب کر رہ گئیں اور تفاوت میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا گیا۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ طلباء اس قوم کا مستقبل ہیں، ان کی سیاسی تربیت اور ملکی پارلیمانی نظام کیلئے ضروری ہے کہ تعلیمی اداروں میں یونین سازی کا حق دیا جائے اور ان کے ریگولر الیکشنز کروائے جائیں، تاکہ قبضہ گروپنگ نہ پنپ سکے۔ اس طرح ہماری پارلیمان کو مستقبل میں ایسے باشعور لیڈرز میسر آسکیں، جن کی سیاسی تربیت ہوئی ہو اور جو ملک کی سیاست سے پہلے سے واقف اور وارد میدان  ہوں۔ افسوس کہ لاہور میں کئے جانے والے طلباء مارچ کے شرکاء و قائدین پر ایف آئی آر کاٹی گئی ہے، یہ ایک غیر جمہور رویہ ہے، جو ایک جمہوری دور میں روا رکھا گیا ہے، اس کی مذمت کی جانی چاہیئے۔ یہ ایف آئی آر حکمرانوں کی غیر سنجیدگی کی علامت ہے۔
خبر کا کوڈ : 830572
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش