0
Tuesday 3 Dec 2019 16:33

میں غیر تقلیدی ہوں!

میں غیر تقلیدی ہوں!
تحریر: سید توکل حسین شمسی
 
جو بندہ خدا پر اعتقاد رکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ قیامت آکر رہنی ہے، پھر دھماکہ ہوگا اور سب کچھ جو پہلے دھماکے کے نتیجے میں بڑا منظم نظام چل پڑا تھا، سب تباہ ہو جائے گا۔ یہ سورج چاند ستارے، یہ کھیت کھلیان، یہ پہاڑ، یہ بہتے دریا، چرند پرند غرض ہماری خوبصورت زمین، یہ کہکشائیں سب تباہ ہو جائیں گی۔ یہ آپ کا آئیڈیا ہے، اندازہ ہے، پھر ایک آئیڈیا ہمارے ذہن میں بھی آتا ہے، جب دوسرا دھماکہ ہوا تو ہوسکتا ہے کہ یہ نظام پہلے سے بھی زیادہ منظم ہو جائے، پرامن تر ہو جائے۔ پھر کوئی کرپشن نہ رہے، جنت و جہنم ہو، ایک طرف نیک لوگوں کے لیے نظام ہوں، دوسری طرف برے لوگوں کے لئے اہتمام، اس دھماکے کے بعد جو اچھے برے کا نظام ساتھ ساتھ چل رہا ہے، وہ دوسرے دھماکے کے بعد جدا جدا ہو جائے۔ ہر نظام کے اپنے اپنے تقاضے ہیں۔ اس نظام میں ہماری ذمہ داری کیا ہے؟ جو بندہ، خدا پر ایمان اور بروز قیامت پر یقین رکھتا ہے، اسے بلوغ کی چیک پوسٹ پر آتے ہی احکام الہیٰ کی پیروی کرنا پڑے گی، ورنہ جرمانہ عذاب و ہلاکت کی صورت میں ادا کرنا پڑے گا۔ اس رستے پر آتے ہی آپ کو کچھ حکم نامے ملیں گے، یہ کریں، وہ نہ کریں، عبادت کرنی ہے، روزہ رکھنا ہے، حج پر جانا ہے، زکوۃ دینی ہے، غیبت نہیں کرنی، چوری نہیں کرنی، بدکاری نہیں کرنی، کئی موڑ کئی گھاٹیاں، دھند۔

ایسے میں زیادہ تر لوگ اپنے سے آگے جانے والی ٹریفک دیکھتے ہیں، ان کی رفتار سے سمجھ جاتے ہیں اور اپنا راستہ طے کر لیتے ہیں۔ موٹروے پر اکثر سردیوں میں دھند ہوتی ہے تو گاڑیوں کو ایک لائن میں لگا کر چلا دیا جاتا ہے، ایک دوسرے کی لائٹ دیکھ کر رستہ چلتے ہیں، ریڈ لائٹ پر کراس نہیں کرنا، پیلی لائٹ پر تیار رہو، سبز پر چل پڑو، اس سارے عمل کو تقلید کہتے ہیں۔ آپ کو اچھی نہ بھی لگے، لیکن کرنا پڑے گی۔ دوسرے بندے وہ ہوتے ہیں، جن کو راستے کے اتار چڑھاؤ کا پتہ ہوتا ہے، وہ خود جا سکتے ہیں، اپنے آپ کو قانونِ الہیٰ کا پابند بنا کر ہلاکت و تباہی سے بچا سکتے ہیں، بڑے محتاط ہیں، بسم اللہ کسی کے پیچھے نہ چلیں، لیکن احتیاط کرنی پڑے گی، تقلید نہیں کرنی، ان کو ایک بک لٹ کی بھی ضرورت نہیں۔ نماز جعفریہ توضیح سے ان کا کام اوپر ہے۔ اپنے لیے ان کا انتخاب نہ کریں، قرآن و روایت سے غیر تقلیدی بن جائیں، بعض بڑی بڑی کتابیں بھی ان کے لیے نہیں ہوتیں، کیونکہ ان کے مقدمے میں صاحب کتاب نے لکھا ہوتا ہے، یہ تقلید والوں کے لئے میرے فتوے کے مطابق ہے۔ اصول کافی ہی کیوں نہ ہو، لکھنے والے محمد بن یعقوب کلینی ہی کیوں نہ ہوں، انہوں نے بھی جلد 1 صفحہ 5 پر لکھا ہے، یہ اپنے دوست کے لیے لکھی ہے، جس کی درخواست تھی کہ کوئی کتاب ہو، جس کی پیروی کرکے احکام الہیٰ پر عمل کر سکوں۔ تو انہوں نے بیس سال زحمت اٹھائی اور عظیم کتاب تحریر فرمائی۔
 
تیسرے وہ لوگ جو کلینی جیسے ہوتے ہیں، جو اپنا وظیفہ شرعی بھی جانتے ہیں اور دوسروں کو بھی راہ دیکھا سکتے ہیں۔ جو سالہا سال محنت کرتے ہیں، جن کو  معصوم کا لہجہ سمجھ آتا ہے، جن کو آیات و روایات سے حلال و حرام سمجھ آتا ہے،  جن کو فتویٰ جیب سے نہیں بلکہ قرآن و اہلبیت سے لینے کی عادت ہوتی ہے، جو آپ سے آپ کے امام کا حکم، الہیٰ قانون بتانے کی فیس نہیں لیتے۔ جن کے بدن پر آج بھی اس فیشن کے دور میں چودہ سو سال پرانا اولڈ فیشن لباس ہے، کیونکہ وہ ان کے امام کا لباس ہے۔ وہ لباس میں بھی اپنے امام کی تقلید کرتے ہیں، پھر امام کے الفاظ، اوامر و نواہی کا کتنا پاس رکھتے ہونگے۔ اس لیے ان کو مجتہد کہتے ہیں، اس لیے وہ نائب امام ہوتے ہیں۔ اگر تمہیں ان کی نہیں ماننی تو کوئی بات نہیں، صاحب احتیاط ہو جاؤ یا خود مجتہد ہو جاؤ، پھر ہونا ایسے کہ تمہارا لباس بھی مولا والا ہو، پھر  تمہاری گفتگو بھی مولا والی ہو، پھر تمہاری زندگی میں کوئی بات بھی قرآن و سنت معصومین (ع) کے خلاف نہ ہو۔ اسلام نے تین گروہ بنائے ہیں، تم مقلد کیوں بنتے ہو، آو کوشش کرو اور صاحب احتیاط بن جاؤ، تھوڑی اور کوشش کرو، مجتہد بن جاؤ، کوشش کو ہی تو اجتہاد کہتے ہیں۔
 
 غیر تقلیدی یعنی مجتہد، غیر تقلیدی یعنی محتاط۔ دوسرے لفظوں میں مجتہد، لیکن یہ ایسے غیر تقلیدی یا مجتہد بننا چاہتے ہیں، جن کو امام کا لباس ٹائر دیکھتا ہے، جن کو بیویاں چہرے پر داڑھی رکھنے نہیں دیتیں، جو نہ صورت میں، نہ سیرت میں، نہ لباس میں اپنے امام کے مقلد ہیں، اس پر کہتے ہیں کہ ہم تقلید نہیں کرتے، حتیٰ حضرت معصوم کی بھی، کیونکہ ان کی اطاعت ہوتی ہے، جبکہ اطاعت تقلید سے بھی آگے کی منزل ہے، پھر تیرا انداز مطیعوں جیسا کیوں نہیں، امام غیروں سے بھی نرمی سے بات کرتے تھے، تم اپنوں سے الجھے کیوں ہو،  وہ کفار کی بھی عیادت کرتے تھے، تم اپنوں کی تیمارداری سے بے زار کیوں ہو۔ امام مصلوں پر زندگی گزارتے تھے، مسجدوں میں سب سے پہلے آتے تھے اور سب سے آخر میں جاتے تھے، تجھے مسجدوں سے روکتا کون ہے؟ امام تجھے احکام الہیٰ کی طرف سچائی، امانتداری کی طرف، عدل و انصاف کی طرف، مظلوم کی حمایت کی طرف، حلال خوری کی طرف، بے لوث خدمت کی طرف بلاتے ہیں، تجھے امام کی آواز سنائی کیوں نہیں دیتی۔
 
آج تو کہتا ہے کہ غیر معصوم کی تقلید نہیں کرتا، کیا تجھے اویس قرنی یاد نہیں، کیا تو نے ان کے متعلق نہیں پڑھا کہ انہوں نے نہ نبی (ص) کو دیکھا تھا نہ علی (ع) کو، رسول خدا (ص) کے دیدار سے محروم پلٹ گئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا، میں اس کا نور دیکھ رہا ہوں، اویس قرنی نے دین کس سے لیا تھا، جاننے والوں سے، غیر معصوم، دین بتانے والوں سے، پھر ان کی تقلید کی۔ شاید آج کا غلام، اپنے آپ کو اویس قرنی سمجھنے والا، کتنے ہی احکام میں عشق اویس قرنی سے استدلال کرتا ہے، ان کے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دندان مبارک شہید ہونے پر اپنے دندان شہید کر دینے پر سبحان اللہ کہتا ہے، بھول جاتا ہے کہ اویس قرنی نے دین، رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غیر معصوم نائبین سے لیا تھا، دوسرے لفظوں میں آج کا عاشق غیر مقلد کیوں نہیں پوچھتا؟؟؟ اس نے غیر معصوم سے دین لیا تھا، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کا نور کیوں نظر آیا تھا۔؟؟؟
 
 رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مصعب بن عمیر کو مدینہ والوں کے لیے استاد بنا کر بھیجا، تاکہ وہ ان کو دین کی تعلیم دیں، نماز پڑھنا اور قرآن پڑھنا سیکھائیں۔ جو لوگ ان غیر معصوم نائبین سے دین سیکھ کر کلمہ پڑھ کر، نمازیں پڑھ کر، دنیا سے چلے گئے، تو کیا ان کا دین قبول نہیں ہے، کیونکہ انہوں نے دین غیر معصوم سے لیا تھا؟ اس لیے کہ انہوں نے غیر معصوم کی تقلید کی تھی؟ مدینہ کی گلیوں کا عاشق، کیوں مدینہ والوں سے سوال نہیں کرتا؟  تم نے مصعب سے کیوں دین سیکھا تھا، وہ تو غیر معصوم تھا؟؟ نعوذ باللہ کیوں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غیر معصوم کو بھیجا تھا؟؟ اور مدینہ والوں سے غیر معصوم کی تقلید کروائی تھی۔؟

 
 دیکھنا، غور کرنا، آج کا یہ غیر مقلد، اپنی بیٹی کا نکاح ہاتھ میں نماز جعفریہ اٹھا کر پڑھ رہا ہوتا ہے، جس کے صفحہ اول پر لکھا ہوتا ہے بمطابق فتاویٰ۔۔ یہی آج کا غیر مقلد جب دعائیں پڑھتا ہے تو مفاتیع سے، جب خطبہ جمعہ پڑھتا ہے تو تحفہ العوام سے، مسئلہ بیان کرتا ہے تو توضیح سے، جو بامطابق فتاوہ لکھی جاتی ہیں۔ یہ تجھ سے صرف اندھی تقلید کروانا چاہتا ہے۔ کیا معصومین (ع) کے دور میں ان کے غیر معصوم نائبین موجود نہیں تھے؟ کیا شاہ عبدالعظیم حسنی امام ھادی (ع) و امام تقی (ع) کے نائب نہیں تھے؟ کیا امام ھادی (ع) نے ابن حماد سے نہیں فرمایا تھا؟ جاؤ اپنے مسائل عبدالعظیم حسنی سے پوچھنا، وہ شہر رے میں ہمارے نائب و امانت دار ہیں۔
 
اگر ان مراجع عظام اور نائبین امام (ع) کو دین اسلام سے جدا کر دیا جائے تو معذرت  کے ساتھ پھر تیرے مذہب کی کوئی کتاب موجود نہیں، ایک آن لائن لائبریری ہے، جس کا نام کتاب خانہ قائمیہ ہے، جس میں اٹھارہ ہزار چھ سو پچاسی کتب ہیں، جو سب مذہب شیعہ خیر البریہ سے ہیں، جن کے لکھنے والوں میں ایک بھی غیر تقلیدی نہیں یا مجتہد ہیں یا مقلد ہیں۔ اگر تم غیر تقلیدی ہو تو پھر تمہارے نکاح کا طریقہ کیا ہے؟ پھر تمہارے مرحومین کی تدفین کیسے ہوتی ہے؟ کئی ایسا تو نہیں کچھ میٹھے بولوں کی مٹھاس سے تجھے ایک خیالی مذہب کا پیرو بنادیا گیا ہے، کہیں تجھے استعمال کرکے ایک نئے فرقے کی بنیاد تو نہیں رکھی جا رہی۔ خدارا ! سوچ لے۔ اصحاب، معصومین علیهم السلام سے اپنا عقیدہ بیان کرتے، تایید کرواتے۔ اگر تیرا اپنا عقیدہ ہے اور میرا اپنا، پھر تیرا میرا علی علیہ السلام سے کیا تعلق؟ عقیدہ وہی جو معصومین علیهم السلام نے سمجھایا، جو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قرآن کی صورت میں نازل ہوا اور بس۔
خبر کا کوڈ : 830579
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش