0
Monday 16 Dec 2019 14:52

مقصد تعلیم کے حصول کیلئے نظام تعلیم میں اصلاحات کی ضرورت

مقصد تعلیم کے حصول کیلئے نظام تعلیم میں اصلاحات کی ضرورت
تحریر: شیخ فدا علی ذیشان
سیکرٹری جنرل ایم ڈبلیو ایم ضلع سکردو
 
خالق کائنات نے انسان کو مختلف صلاحیتوں کا مجموعہ بنایا ہے، ہر پیدا ہونے والا بچہ انسان بننے کی صلاحیت لے کے پیدا ہوتا ہے، مگر ہرمرنے والا انسان نہیں مرتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان کمال پذیر اور تعلیم پذیر پیدا ہوتا ہے، کمال یافتہ یا تعلیم یافتہ پیدا نہیں ہوتا ہے۔ انسان تعلیم اور کمال کے حصول کی صلاحیت کے ساتھ پیدا ہوتا ہے، باکمال نہیں پیدا ہوتا ہے، جو باکمال پیدا ہوتا ہے وہ یا نبی یا امام ہوتا ہے۔ جس طرح ہر انسان پاک و صاف فطرت کے ساتھ پیدا ہوتا ہے، تقوٰی و فجور دونوں کی صلاحیت لے کر پیدا ہوتا ہے، "فالھمھا فجورھا و تقوا ھا" کا مصداق پیدا ہوتا ہے۔ ویسے ہی ہر انسان خاص اور مخصوص صلاحیت اور استعداد کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ لہٰذا جس خاص صلاحیت کے ساتھ خداوند عالم نے اسے خلق فرمایا ہے اس خاص صلاحیت کو بروقت جانچنا چاہیئے تاکہ اس انسان کو اسی خاص میدان میں بھیج دیا جائے، تاکہ اس کی وہ خاص صلاحیت نکھر کر سامنے آ جائے اور وہ اسی میں بے مثال کارنامہ انجام دے سکے۔ لہٰذا دنیا میں وہی شخص کامیاب ہوتا ہے جو بروقت اپنے اندر موجود صلاحیت کے مطابق اگے بڑھتا ہے اور آگے نکلتا ہے۔
 
خدا نے ہر انسان میں کوئی نہ کوئی خاص استعداد و صلاحیت ودیعت کی ہے، جس کی شناخت بروقت ہونا ضروری ہے تاکہ یہ شخص اس خاص میدان کا انتخاب کرے اور اس میدان میں بہترین نام بھی کمائے اور اپنی صلاحیت کا لوہا بھی منوائے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس انسان کی اس خاص صلاحیت کو کون جانچے اور کون اس انسان کو اس خاص صلاحیت کے مطابق کام کرنے پے مجبورکرے تاکہ وہ اس خاص میدان کا نابغہ روزگار ہو؟ یہاں سے نظام تعلیم و تربیت کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ انسان کی مخفی صلاحیتوں کو کیسے اجاگر کیا جائے؟ اور کیسے پتہ لگایا جائے کہ کس انسان کو کس میدان کے لئے خلق کیا گیا ہے؟۔ بس اسی مختصر تمھید سے ہی تعلیم وتربیت کا مفھوم اور مقصد واضح ہوتا ہے کہ تعلیم صرف چند لوگوں کی لکھی ہوئی کتابوں کو رٹوانا نہیں ہے۔ صرف چند فارمولے ہی سکھانا ہے اور نہ ہی چند ڈگری کے حصول کا نام ہے، بلکہ تعلیم ایک خاص چیز، خاص سمت اور خاص شناخت کا نام ہے۔
 
یوں تو مختلف اہل علم نے تعلیم کی مختلف تعاریف کی ہیں۔ ان تمام تعریفات کا خلاصہ یہ ہے کہ تعلیم کا مقصد چند الفاظ اور فارمولے سکھانا نہیں ہے، بلکہ انسان میں موجود اس کی صلاحیت کو جانچ کر اس انسان کو اسی خاص میدان کے لئے تیار کرنا ہے، تاکہ وہ انسانی سماج میں ایک نمایاں کارنامہ انجام دے، جس کا فائدہ خود اس انسان کو دنیا اور آخرت دونوں میں ہو اور اس کا فائدہ پوری انسانیت کو بھی ہو۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک کا نظام تعلیم اس ہدف کو حاصل کر رہا ہے یا نہیں؟ یعنی نظام تعلیم میں کوئی ایسا نظام موجود ہے، جس سے طلبا میں موجود صلاحیتوں کو جانچ کر اس طالبعلم کو اسی میدان کے لئے تیار کیا جائے؟ اس عمل میں کسی قسم کی کوئی تفریق موجود نہ ہو بلکہ تمام طلباء جو قوم کی امانت ہیں استاد اور اداروں میں حقیقت یہ ہے کہ اس سوال کا جواب نفی میں ہے کیونکہ اس ملک میں طبقاتی نظام رائج ہے جس کی وجہ سے تعلیمی اداروں کو بھی تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک گورنمنٹ سکول اور کالج جس میں قوم کے غریب طلبا و طالبات زیور علم و تربیت سے آراستہ ہوں گے دوسرا پرائیویٹ سکول و کالج جس میں قوم کے اشراف کے بچے زیور علم سے پیراستہ ہوں گے۔

پھر پرائیویٹ سکول و کالج کے بھی کئی ذیلی ادارے ہیں، جہاں عام بچوں کا تصور بھی ممکن نہیں ہے، تیسرا دینی مدرسہ جہاں قوم کے عام بچے پڑھیں گے۔ پرائیویٹ اداروں نے معیاری تعلیم کا بیڑہ اٹھایا تو ہے مگر اس میں بھی معیار کو اتنا بلند رکھا ہے کہ کریم اور اچھے بچوں کو ہی لینا ہے بلکہ اچھے بچوں کو داخلہ دینے کے بعد بھی سینڈاپ پیپرز میں رہ جائے تو ان کو پرائیویٹ امیدوار کے طور پر پیپرز دینا پڑتا ہے، نتیجہ اس کا رزلٹ سو فیصد آتا ہے۔ اس کے مقابلے میں گورنمنٹ اداروں میں نارمل بچے جاتے ہیں اور ایک کلاس میں سو سے زیادہ طلبا ہوتے ہیں اور جہاں ایک کلاس میں سو سے زیادہ طلبا ہوں، وہاں کوالٹی ایجوکیشن کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ہے۔ جہاں ٹھوڑی سی سختی کی جائے تو سیاسی مداخلت شروع ہو جاتی ہے۔ اور اگر سینڈاپ پیپرز کے ذریعے اچھے بچوں کو الگ کرکے سوفیصد رزلٹ لانے کی کوشش کی جائے تو شوروغل شروع ہوتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ خراب نتائج والے اداروں کے ہیڈ کو سزا دی جائے گی۔ ارے خراب نتائج پر ہیڈ کو سزا دی جائے اور منصوبوں سے لاکھوں کے حساب سے کمیشن کھانے والوں کو اور ٹھیکوں کو بھیج کر ٹھیکہ داروں سے کمیشن کھانے والوں کو تختہ دار پے لٹکایا جائے تو ملک کی تقدیر بدل جائے۔

مگر اس ملک کی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ پانچ سال کے لئے جو بھی منتخب ہوتا ہے یا منتخب کیا جاتا ہے، وہ پانچ سال اپنے اپ کو مطلق العناں حاکم سمجھتا ہے۔۔۔۔ارے بات کہیں اور چلی گئی اور بات ہماری ہو رہی تھی، نظام تعلیم اور تعلیم پر۔ اور وہ ہی ہو رہی تھی کہ تعلیم کا مطلب چند الفاظ اور فارمولے ہی سیکھانا نہیں بلکہ ہر طالب علم کی پوشیدہ اور مخفی خاص صلاحیتوں کو جانچنا اور اس کو اسی خاص شعبے میں کامیاب کرنا اور یہ شناخت کلاس 5thتک معلوم کرلی جانی چاہیئے اور ترقی یافتہ ممالک میں یہ سب کچھ ہوتا ہے۔ جبکہ پاکستان کے موجودہ نظام تعلیم میں ایک طالب علم کو ماسڑ کرنے کے بعد بھی معلوم نہیں ہوتا ہے کہ اس کی مخفی صلاحیت کیا ہے؟ اور مجھے کس خاص مقصد کے لئے خداوند عالم نے خلق فرمایا ہے خصوصا سرکاری تعلیمی اداروں میں جن کے اساتذہ بہت قابل اور بہترین صلاحیتوں کے مالک ہونے کے باوجود ان کے اپنے بچے وہاں نہیں پڑھتے ہیں بلکہ ان کے بچوں کے لئے پرائیویٹ اداروں کاانتخاب کیا جاتا ہے۔ سرکاری سکولز میں چونکہ قوم کے بچے ہوتے ہیں اور ایک کلاس میں سو سے زیادہ بچے ہوتے ہیں۔ لھٰذا ہر بچے کی صلاحیت کو جانچنا ناممکن ہے اور حکومت کی ترجیحات میں بھی شامل نہیں ہے، لھذا تعلیم کا اصلی اور حقیقی مقصد حاصل نہیں ہوتا ہے۔
 
اب جب یہ پتہ چلاکہ تعلیمی اداروں سے تعلیم کا بنیادی ہدف حاصل نہیں ہو رہا ہے تو ارباب اقتدار اور صاحبان اختیار مندرجہ ذیل اصلاحات کریں:
1۔ تمام تعلیمی اداروں میں سیاسی مداخلت بند کی جائے بلکہ اس ادارے میں موجود ہیڈ اور تمام اسٹاف کو مکمل اختیار دیا جائے اور وہ سب ادارے کی بہتری کے لئے اقدامات اٹھانے میں مکمل بااختیار ہوں۔
2۔ ارباب اختیار بلاتعصب حلقہ ان اداروں کی بنیادی ضروریات کو مہیا کریں اور ایک کلاس میں 30 طالبعلم سے زیادہ نہ رکھنے کا پابند کیا جائے۔
3۔ تمام سرکاری اور انتظامی امور کے عھدہ داروں کو اس بات پے پابند کیا جائے کہ ان کے بچے بھی سرکاری تعلیمی اداروں میں ہی زیور علم سے آراستہ ہوں گے جس طرح کے پی کے میں عمران خان نے کیا تھا۔ اب اس کو ملک بھر میں کیا جائے۔
4۔ تعلیمی اداروں اور ملک میں موجود طبقاتی نظام کا خاتمہ کیا جائے اور ان تین تقسیم کا مکمل خاتمہ ہو، اس طرح کہ جو بچہ جس ادارے میں تعلیم حاصل کرے وہاں دونوں تعلیم حاصل کریں، علم بھی ملے اور تربیت بھی۔ آداب و اخلاقیات سے بھی مزین ہوں۔ جب تک نظام تعلیم مسلمانوں کے ہاتھ میں تھا تب تک دینی اور دنیاوی تقسیم نہ تھی۔ اور یہ تصور تھا کہ تعلیم و تربیت ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ لہٰذا تعلیم کا بنیادی مقصد "بچوں کی پوشیدہ صلاحیتوں کو جانچ کر اس کو اسی خاص صلاحیت میں اپنے لئے اور معاشرے کے لئے ایک سودمند فرد بنانا" ہے تاکہ وہ دنیا اور آخرت دونوں میں کامیاب ہو جائے۔
خبر کا کوڈ : 830591
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش