0
Wednesday 4 Dec 2019 17:38

دادو میں جرگہ کا فیصلہ، 10 سالہ لڑکی گل سما سنگسار، والدین کا انکار، تحقیقات شروع

دادو میں جرگہ کا فیصلہ، 10 سالہ لڑکی گل سما سنگسار، والدین کا انکار، تحقیقات شروع
رپورٹ: ایس ایم عابدی

ضلع دادو پولیس نے 10 سالہ لڑکی کو مبینہ طور پر سنگسار کرنے کے الزام میں والدین سمیت 4 افراد کو گرفتار کیا ہے۔ پولیس کے مطابق واقعہ 21 اور 22 نومبر کی درمیانی شب ضلع دادو کے کیرتھر میں پہاڑی علاقے میں پیش آیا، جو صوبہ بلوچستان سے متصل ہے۔ 10 سالہ لڑکی کو سنگسار کرنے سے متعلق خبروں کے بعد ایس ایس پی دادو ڈاکٹر فرخ رضا نے واہی پانڈھی پولیس کو ہدایت کی کہ وہ افسوس ناک واقعے سے متعلق معلومات جمع کریں۔ واضح رہے کہ واقعہ ضلع دادو میں تعلقہ جوہی کے علاقے واہی پانڈھی میں پیش آیا ہے۔ واہی پانڈھی پولیس نے پہلے ایک مذہبی شخص کو حراست میں لیا، جنہوں نے لڑکی کی نماز جنازہ پڑھائی تھی اور پھر اس کی رہنمائی میں لڑکی کے والدین کے گھر پہنچے۔

دادو کے سینیئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) ڈاکٹر فرخ رضا نے بتایا کہ ہم حقائق کی مزید تحقیقات کر رہے ہیں، تاہم اب تک متاثرہ بچی کے والدین سمیت 3 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ بچی کے والدین کے علاوہ بھی ایک شخص کو گرفتار کیا گیا ہے، جس نے مقتولہ کی تدفین میں سہولت فراہم کی تھی۔ ایس ایس پی فرخ رضا نے بتایا کہ چاروں سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔ ایف آئی آر کے مطابق لڑکی کے والد، ان کے رشتہ دار اور 4 دیگر افراد نے بچی کے قتل کی سازش کی اور لڑکی کو پتھر مار مار کر قتل کر دیا گیا۔ ایف آئی آر میں کہا گیا کہ بعد ازاں ملزمان نے کفن خریدا اور اسے لک قبرستان کے قریب دفن کر دیا۔ ایس ایس پی فرخ رضا نے کہا کہ ہمیں واقعے کی تحقیقات کر رہے ہیں، کیونکہ لڑکی کی موت کی نوعیت کے بارے میں طرح طرح کے دعوے کئے جا رہے ہیں۔

مذکورہ واقعے کے بارے میں وہی پانڈھی سے تعلق رکھنے والے پیپلز پارٹی کے سندھ اسمبلی رکن صالح شاہ جیلانی نے بتایا کہ ہاں، (ایسا) میرے حلقے میں ہوا لیکن میں پولیس کا انتظار کر رہا ہوں کہ وہ واقعے کی کچھ تفصیلات شیئر کریں، کیونکہ مجھے اس حوالے سے صرف سوشل میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا ہے۔ دریں اثناء پولیس نے اسسٹنٹ سب انسپکٹر (اے ایس آئی) غلام قادر گوپانگ کی مدعیت میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 302، 201، 120-B کے تحت ایف آئی آر درج کرلی۔ ایس ایس پی نے لڑکی کے والدین کے حوالے سے بتایا کہ لڑکی حادثاتی طور پر پہاڑ پر لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے دم توڑ گئی تھی۔

بعد ازاں انہوں نے دادو کے سیشن جج کو بچی کی قبر کشائی کے لئے میڈیکل بورڈ کی تشکیل کے لیے صوبائی ہیلتھ سروسز کے ڈائریکٹر جنرل کو ہدایت دینے لیے تحریری درخواست کی گئی تھی۔ انہوں نے سیشن جج سے یہ درخواست بھی کی ہے کہ واہی پانڈو پولیس اسٹیشن کی حدود میں قبر کشائی کے مرحلے کی نگرانی کے لئے جوڈیشل مجسٹریٹ مقرر کیا جائے۔ قبل ازیں ڈی آئی جی کا کہنا تھا کہ لاش نکالنے کے بعد پوسٹ مارٹم کیا جائے گا، جس سے موت کے اصل محرکات کا تعین ہوگا۔ بتایا جاتا ہے کہ بچی کے اہل خانہ کا تعلق بلوچستان سے ہے، لیکن وہ کیرتھر کے پہاڑی علاقے سے سندھ اور بلوچستان کے سرحدی علاقے میں سفر کرتے رہتے ہیں اور اس راستے کے حوالے سے پولیس کا کہنا تھا کہ اس سے گزرنا مشکل ہے۔

میڈیکل بورڈ آج قبر کشائی کریگا
دادو میں 10 سالہ لڑکی گل سما کی مبینہ سنگساری کے معاملے پر میڈیکل بورڈ آج قبر کشائی کرے گا، تاکہ لڑکی کے پوسٹ مارٹم کا عمل مکمل ہوسکے۔ اس سلسلے میں ڈی آئی جی پولیس حیدر آباد رینج نعیم شیخ نے تصدیق کی کہ میڈیکل بورڈ کے اراکین قبر کشائی کے لئے واہی پانڈھی کے علاقے کی طرف روانہ ہوئے ہیں۔ اس 4 رکنی میڈیکل بورڈ کی سربراہی لیاقت یونیورسٹی ہسپتال سٹی برانچ کے میڈیکل سپنرنٹنڈنٹ کر رہے ہیں۔ یاد رہے کہ پولیس نے اسسٹنٹ سب انسپکٹر (اے ایس آئی) غلام قادر گوپنگ کی شکایت پر اس واقعے کی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کی تھی، جس میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302، 201 اور 120 بی کو شامل کیا گیا تھا۔ ایک سینیئر عہدیدار نے بتایا تھا کہ چونکہ لڑکی کو غیرت کے نام پر قتل کے الزامات کے باعث بغیر پوسٹ مارٹم کے دفن کیا گیا، لہٰذا قبر کشائی کا واحد طریقہ ایف آئی آر تھا، جو درج کرلی گئی، تاکہ لڑکی کی موت کی وجہ کا تعین کیا جاسکے۔ انہوں نے کہا تھا کہ پوسٹ مارٹم سے یقینی طور پر کچھ سوالات کے جواب ملیں گے۔

حقائق پتہ لگانے کی کوششیں
سینیئر عہدیدار نے مزید بتایا تھا کہ پولیس ابھی تک اس بات کا پتہ لگانے کی کوشش کر رہی ہے کہ آیا جرگہ منعقد ہوا تھا یا نہیں اور اس نے لڑکی کو سنگسار کرنے کا حکم دیا تھا یا نہیں۔ اس کے علاوہ پولیس ان رپورٹس کو بھی دیکھ رہی ہے کہ مبینہ جرگہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما کے بیٹے کی صدارت میں ہوا تھا۔ ڈی آئی جی نعیم شیخ نے صحافیوں کو بتایا کہ اس واقعے پر ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا، کیونکہ معاملہ تحقیقاتی مراحل میں ہے۔ علاوہ ازیں ڈی آئی جی پولیس حیدرآباد نعیم شیخ اور ڈویژنل کمشنر عباس بلوچ نے لڑکی کے زیر حراست والد علی بخش رند اور مولوی ممتاز لغاری اور ضلع کے تعلقہ جوہی کے علاقے واہی پانڈھی میں مقامی برادری سے ملاقات کی اور واقعے کے بارے میں حقائق کی تصدیق کی۔ لڑکی کے والد اس بات پر زور دے رہے کہ ان کی بیٹی قریبی پہاڑی سے ایک بھاری پتھر گرنے کے بعد اس وقت سلپ ہوئی جب وہ گھر کے باہر کھیل رہی تھی۔ واضح رہے کہ علی بخش اور ان کے اہل خانہ طویل عرصے سے خانہ بدوش کی طرح زندگی گزار رہے ہیں اور زندگی کے گزر بسر کے لئے وہ مویشیوں کا کاروبار کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ کیرتھر پہاڑ پر رہتے تھے، لیکن کچھ سال قبل ہی وہ شاہی مکان منتقل ہوئے تھے۔ انہوں نے براہوی زبان میں بات کی، جسے بعد ازاں ایس ایچ او واہی پاندھی تھانے نے سندھی میں ترجمہ کیا۔ لڑکی کے والد نے پولیس کو بتایا کہ میرے پاس قومی شناختی کارڈ (این آئی سی) نہیں، مجھے نہیں معلوم میں کہاں پیدا ہوا، کیونکہ میرے والدین خانہ بدوش کی طرح رہتے تھے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ گل سما کی نہ کسی سے شادی ہوئی تھی، نہ منگنی اور میں (تفتیشی افسران) کو گمراہ نہیں کر رہا۔ علاوہ ازیں علی بخش کی اہلیہ لیلن رند نے پولیس کی خاتون اہلکار کو بتایا کہ گل سما گردن کی ہڈی ٹوٹنے کے باعث انتقال کرگئی۔

دوسری جانب مقامی مسجد کے امام ممتاز لغاری کے مطابق انہیں 21 نومبر کی شام کو واہی پاندھی سے ایف آئی آر میں نامزد تاج رستامانی اور سمیع رند کی جانب سے شاہی مکان لے جایا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے قبرستان کے قریب رات گزاری جبکہ لڑکی کے اہل خانہ نماز جنازہ کے لئے اس کی میت کو اگلی صبح 8 بجے کے قریب لے کر آئے۔ بات کو جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جب لڑکی کو قبر میں اتارا جا رہا تھا تو میں نے اس کی لاش کو نہیں دیکھا، کیونکہ رند نے رسم کے مطابق پردہ کرا ہوا تھا اور میں نے (لاش کو دیکھنے) پر اصرار نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ لڑکی کی نماز جنازہ میں تقریباً درجن بھر افراد نے شرکت کی۔ واضح رہے کہ وہ علاقہ جہاں رند رہتے ہیں، وہ کیرتھر پہاڑی علاقے میں دادو شہر سے 40 کلومیٹر دور واہی پاندھی ٹاؤن سے 15 کلومیٹر فاصلے پر ہے۔
خبر کا کوڈ : 830762
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش