0
Friday 6 Dec 2019 10:12

یورپی ٹرائیکا اور امریکی دباؤ

یورپی ٹرائیکا اور امریکی دباؤ
اداریہ
ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام کے بارے میں امریکہ یا یورپ اور ایران کے درمیان مذاکرات اور سفارتی جنگ اتنی قدیمی ہوگئی ہے کہ کسی کو شاید اس کی صحیح تاریخ کا بھی علم نہ ہوگا کہ کس طرح سے پہلا اجلاس یا نشست کب منعقد ہوئی تھی۔ مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ امریکہ نے ایک بے بنیاد بہانہ اور الزام لگا کر ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام کو عالمی امن کے لیے خطرہ بنا کر پیش کیا اور اسکے بعد وسیع پیمانے پر پروپیگنڈا شروع کر دیا۔ اس خواہ مخواہ کے شور و غل میں یورپ نے سفارتی طریقے سے اس خود ساختہ مسئلہ کو حل کرنے کا اعلان کیا اور یورپی ممالک بالخصوص برطانیہ آگے بڑھا۔ کئی برسوں کی لاحاصل سفارتکاری کے بعد اس موضوع کو پانچ جمع ایک ممالک کے پلیٹ فارم سے حل کرنے کی کوشش شروع کی گئی۔ پانچ جمع ایک ممالک کے پلیٹ فارم میں سکیورٹی کونسل کے پانچ ممبران کے علاوہ جرمنی کو شامل کیا گیا اور چند برسوں کی محنت شاقہ کے بعد ایک معاہدہ پر سب نے اتفاق کیا۔ اس معاہدے کو Joint Comprehensive Plan Of Action یعنی JCPOA کا نام دیا گیا، جس پر باراک اوبامہ کے دور میں امریکہ نے بھی دستخط کیے۔ اس معاہدے کو بعد میں اقوام متحدہ کے ادارے سلامتی کونسل میں لے جایا گیا اور ایران کے خلاف پابندیوں کے خاتمے کے تناظر میں قرارداد نمبر 2231 منظور کی گئی۔

معاہدے کی منظوری اور سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 کے بعد جب وائٹ ہاوس میں بڑبولے، تاجر پیشہ ڈونالڈ ٹرامپ صدر امریکہ کی حیثیت سے براجمان ہوئے، تو انہوں نے اس معاہدے سے نکلنے کا اعلان کر دیا۔ ٹرامپ کے اعلان کے بعد معاہدے پر دستخط کرنے والے تین یورپی ممالک فرانس، برطانیہ اور جرمنی کی ٹرائیکا نے بظاہر ٹرامپ کے اس فیصلے کو ناپسندیدہ نظروں سے دیکھا، لیکن اس معاہدے کو عملی جامہ پہنانے میں لیت و لعل سے کام لینا شروع کر دیا۔ معاہدے کا بنیادی ہدف ایران کو ایٹم بم بنانے سے روکنا اور اسکے جواب میں ایران پر عائد پابندیوں کا خاتمہ تھا۔ ایران نے JCPOA کے تحت اپنی ذمہ داریاں ادا کیں، جس کا ثبوت ایٹمی توانائی کے عالمی ادارے  IAEA کی متعدد رپورٹیں ہیں۔ لیکن دوسری طرف یورپی ٹڑائیکا نے صرف کھوکھلے وعدے کیے اور بینکنگ، انشورنس اور تیل کی ایکسپورٹ کے حوالے سے عائد پابندیوں کو ختم کرنے کے لیے رتی بھر کوشش نہ کی۔ تازہ ترین خبروں کے مطابق یورپی ٹرائیکا نے نہ صرف عالمی ایٹمی معاہدے پر عمل درآمد کرنے میں کسی قسم کی پیشرفت نہیں کی، بلکہ گذشتہ روز امریکہ کے دباؤ کے نتیجے میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل گوٹریش کو خط لکھ کر ایران کے دفاعی میزائل پروگرام کو مشکوک بنانے کی کوشش کی ہے۔

فرانس، برطانیہ اور جرمنی پر مشتمل یورپی ٹرائیکا دو دن پہلے نیٹو کے سربراہی اجلاس میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرامپ پر منفی جملے اور پھبتیاں کس رہی تھی، لیکن ایران کے خلاف متحد ہو کر اقوام متحدہ کو ایران کے خلاف اقدام کے لیے مراسلے بھیج رہی ہے۔ آج ایک بار پھر یہ حقیقت آشکار ہوگئی ہے کہ مغرب اور امریکہ آپس میں ایک دوسرے کے خلاف دست بگریباں ہوسکتا ہے، لیکن ایران اور اسلام کے خلاف متحد و جسدِ واحد کی طرح ہے۔ یورپی ٹرائیکا کے اس اقدام کے جواب میں ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے اپنے ٹوئیٹ میں امریکہ اور یورپی ٹرائیکا کے مطالبے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے صرف اتنا کہا ہے کہ امریکہ اور یورپ سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 1929 اور 2231 کے درمیان فرق کو غور سے پڑھیں، قرارداد 2231 ایران کو میزائل ٹیکنالوجی سے روک نہیں رہی، بلکہ اس میں ایسے میزائلوں پر پابندی کی بات کی گئی ہے، جو ایٹمی وار ہیڈ لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہوں، جبکہ ایران کے بیلسٹک میزائل سسٹم میں یہ صلاحیت موجود نہیں ہے، لہٰذا قرارداد 2231 اس پر صادق نہیں آتی۔
خبر کا کوڈ : 831098
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش