0
Friday 6 Dec 2019 14:51

ملک ریاض فرشتہ ہے فرشتہ

ملک ریاض فرشتہ ہے فرشتہ
تحریر: سید اسد عباس

پاکستان بھر میں لنگر خانے، مساجد، فلاح و بہبود کے ساتھ ساتھ ٹھیکیداری سے گذر بسر کرنے والے فرشتہ صفت انسان (حاجی) ملک ریاض گذشتہ دنوں برطانیہ کے ایک قانونی ادارے کے ہاتھوں دھر لیے گئے۔ این سی اے نام کے اس ادارے نے ملک صاحب سے پوچھا کہ برطانیہ میں موجود ان کے اثاثوں کا سورس کیا ہے۔ ملک صاحب جیسا شریف اور خدا ترس انسان بھلا یہ پرچیاں شرچیاں کہاں سنبھالتا۔ وہ بھی انیس کروڑ پاونڈ کی پرچیاں، پس دھر لیے گئے۔ اب برطانیہ میں نہ تو جج حج کے لیے جانا چاہتے ہیں اور نہ ہی بیوروکریٹس کو یورپ میں عیاشی کرنے کا شوق ہے۔ نہ وہاں میڈیا کا ایئر ٹائم خریدنا ممکن ہے اور نہ ہی کوئی اور حیلہ کیا جاسکتا ہے یا ملک صاحب کی استطاعت سے یہ باہر تھا۔ لہذا ملک صاحب نے اسی میں عافیت جانی کہ این سی اے کے ساتھ کوئی تصفیہ کر لیا جائے۔ پس ملک صاحب اپنے غیر قانونی اثاثوں کو پاکستان حکومت کے سپرد کرنے پر تیار ہوگئے۔

کتنا بڑا احسان کیا ملک صاحب نے کہ بجائے اس مال کو برطانوی اداروں کے سپرد کرنے کے وہ ملک میں لے آئے، تاکہ یہ پیسہ ملک و قوم کی ترقی پر صرف ہوسکے۔ کوئی ملک صاحب سے پوچھے کہ بھاگوانو یہ پیسہ آپ نے لوٹا کیوں تھا؟ جب کالا دھن اکٹھا فرما رہے تھے، اس وقت آپ کو خیال نہ آیا کہ یہ غریبوں کا مال ہے اور میرے ملک کی دولت ہے، جسے میں لوٹ کر برطانیہ میں محلات تعمیر کر رہا ہوں۔ بہرحال ملک صاحب جیسا فرشتہ صفت بندہ اتنے حساب کتاب کہاں رکھتا ہے، اسے تو ٹویٹ کرنی آتی ہے اور پاکستانیوں کو چونا لگانا، لہذا انھوں نے یہ کام بخوبی انجام دیا اور لکھا میں اپنی ظاہر شدہ قانونی جائیداد بیچ کر 190 ملین پاؤنڈ کی رقم بحریہ ٹاؤن کراچی کے مقدمے میں جمع کرا رہا ہوں۔

ملک صاحب ایک نیکی اس سے قبل بھی کرچکے ہیں، وہ یہ کہ جب سپریم کورٹ میں کراچی بحریہ ٹاون مقدمے میں پھنس گئے تو سپریم کورٹ سے معاہدہ کیا کہ میں آپ کو قسطوں میں 460 بلین روپے کی ادائیگی کر دوں گا۔ اب برطانیہ سے آنے والی اس رقم کو انھوں نے اسی قسط کی ادائیگی قرار دیا ہے۔ حالانکہ جب برطانوی حکومت نے ان سے یہ پیسہ لے لیا اور ریاست پاکستان کو دے دیا تو پھر ملک صاحب کا اس پر کوئی حق نہیں ہے، ان سے پکڑی جانے والی رقم کو پاکستان میں دوبارہ ان کی ملکیت بنانا اور اسے سپریم کورٹ فنڈ میں ڈالنا بھی ایک بددیانتی ہے، جس کا سبب اور اس کے کرداروں کو جاننے کی ضرورت ہے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ برطانوی حکومت نے 31 جنوری 2018ء کو "ان ایکسپیلینڈ ویلتھ آرڈر" یعنی ایسی دولت جسی کی وضاحت نہ کی گئی ہو، کا قانون نافد کیا تھا، جس کے تحت برطانیہ میں مقیم غیر ملکی افراد سے برطانیہ میں ان کے اثاثوں کے بارے میں پوچھا جا سکتا ہے۔ برطانوی حکومت کے اندازوں کے مطابق برطانیہ میں ہر سال کالے دھن سے حاصل کی گئی تقریباً 90 ارب پاؤنڈ تک کی رقم کو سفید کیا جاتا ہے۔ برطانوی میڈیا اس قانون کو حکومت کی روس سے تعلق رکھنے والے مبینہ بدعنوان افراد کے خلاف کارروائی کرنے کے تناظر میں دیکھتا رہا ہے، لیکن یہ قانون دنیا کے دیگر ممالک کے ایسے شہریوں کے لیے بھی مشکلات کا باعث بن رہا ہے، جن کی برطانیہ میں جائیداد اور دیگر اثاثے ہیں۔

برطانیہ کے اس وقت کے وزیر برائے سکیورٹی بین والیس نے اخبار دی ٹائمز کو بتایا تھا کہ وہ امیر غیر ملکی افراد، جیسے روسی اشرافیہ، جو برطانیہ میں رہائش پذیر ہیں اور جن پر مبینہ بدعنوانی کے الزامات ہیں، انھیں اپنے پرتعیش طرز زندگی اور اسے جاری رکھنے کے ذرائع کے بارے میں وضاحت دینی ہوگی۔ بین والیس کے مطابق ایسے اثاثے جن کی مالیت پچاس ہزار پاؤنڈ سے زیادہ ہو اور ان پر شک ہو کہ وہ غیر قانونی طور پر حاصل کیے گئے ہیں، حکومت اس کے خلاف کارروائی کرسکتی ہے۔ اس قانون کے تحت سب سے پہلے آذربائیجان کے سرکاری بینکار جہانگیر حاجی ایوا کی بیوی ضمیرہ حاجی ایوا سے ان کے دولت کی وضاحت مانگی گئی تھی۔ ضمیرہ حاجی ایوا کا تعلق آذربائیجان سے ہے اور آذربائیجان کے سرکاری بینک کے اعلیٰ افسر جہانگیر ہاجیوا کی بیوی ضمیرہ ہاجیوا لندن میں شاہانہ طرز رندگی گزار رہی تھیں۔ اطلاعات ہیں کہ این سی اے کے ساتھ ہونے والے تصفیہ کے نتیجہ میں ملک ریاض کی یہ غیر قانونی رقم پاکستان کو موصول ہوگئی ہے۔

امید ہے کہ حکومت برطانیہ کا یہ ادارہ این سی اے بہت جلد دیگر ایسے پاکستانیوں کے گریبانوں میں ہاتھ ڈالے گا، جن کے اثاثوں کے سورس کا علم نہیں ہے۔ دولت کا یوں دنوں میں پلٹا کھانا پاکستانی عوام کے لیے کسی معجزے سے کم نہیں ہے، ہم لوگ آج تک سرمایہ بیرون ملک جاتا دیکھتے رہے ہیں، پہلی مرتبہ سرمایہ بیرون ملک سے پاکستان آیا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اس سرمایہ کو واپس لانے میں ملکی اداروں کا کوئی کردار نہیں ہے بلکہ یہ پیسہ گوروں نے ہمیں لوٹایا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ دولت عوام پر خرچ ہوتی ہے یا دوبارہ کالے دھن والوں کے کھیسوں کی نذر ہو جائے گی، جو ایک مرتبہ پھر یورپ کے کسی ایسے ملک میں یہ سرمایہ کاری کریں گے، جہاں برطانیہ جیسا قانون نہیں ہے۔
خبر کا کوڈ : 831182
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش