QR CodeQR Code

یہ عدالتیں ہیں کیا؟؟؟

6 Dec 2019 16:03

اسلام ٹائمز: کئی مقدمات ایسے ہیں، جن میں بیس سال کی عمر میں نوجوان گرفتار ہوا تھا، مگر جب اسے بے گناہ قرار دیا گیا تو وہ چالیس سال کا ادھیڑ عمر شخص بن چکا تھا۔ جب اسے پروانہ بے گناہی عطا ہوا تو اسوقت وہ کبھی اس پروانے اور کبھی ان گذرے بیس سالوں کو دیکھ رہا تھا کہ جو اس جیل کی اونچی دیواریں کھا گئی تھیں۔ اب تو اسے گاوں کا راستہ ہی بھول گیا تھا اور جن جن کو وہ گھر میں چھوڑ آیا تھا، اب انکی اکثریت اسکے انتظار کو چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے شہر خموشاں کی مقیم ہوچکی تھی۔


تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

چند سال پہلے سپریم کورٹ کے سامنے لوگوں نے عجیب منظر دیکھا، ایک خاندان کے چند افراد عدالت عالیہ کے سامنے سالگرہ منانے کا اہتمام کر رہے ہیں اور پھر انہوں نے بڑی سادگی کے ساتھ سالگرہ منائی۔ لوگوں نے پوچھا اور میڈیا بھی متوجہ ہوا کہ کچھ تو خاص بات ہے، جو یہ لوگ یہاں سالگرہ منا رہے ہیں، ورنہ یہ سالگرہ منانے کی جگہ نہیں ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے کس کی سالگرہ منائی ہے تو انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے مقدے کی سالگرہ منائی ہے۔ اس پر کچھ لوگوں نے قہقہہ لگایا اور کچھ نے سنجیدگی سے پوچھا کونسی سی سالگرہ ہے؟ اس پر انہوں نے کہا یہ مقدمے کی سینچری مکمل ہونے پر  منائی جا رہی ہے، یعنی اس مقدمے کو عدالت عالیہ میں چلتے ہوئے ایک سو سال گزر چکا ہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔

خبریں تواتر سے ملتی ہیں کہ معزز سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک مجرم کو بری کر دیا اور قرار دیا کہ اس پر لگایا جانے والا الزام جھوٹا تھا، اس لیے مجرم کو فوری رہا کر دیا جائے، مگر یہ پروانہ جب جیل میں پہنچا تو پتہ چلا یہ قیدی تو چند سال پہلے ہی اس قید کیا؟ زندگی کی قید سے بھی آزاد ہوچکا ہے۔ بقول مرزا اسداللہ خان غالب
کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا

کئی مقدمات ایسے ہیں، جن میں بیس سال کی عمر میں نوجوان گرفتار ہوا تھا، مگر جب اسے بے گناہ قرار دیا گیا تو وہ چالیس سال کا ادھیڑ عمر شخص بن چکا تھا۔ جب اسے پروانہ بے گناہی عطا ہوا تو اس وقت وہ کبھی اس پروانے اور کبھی ان گذرے بیس سالوں کو دیکھ رہا تھا کہ جو اس جیل کی اونچی دیواریں کھا گئی تھیں۔ اب تو اسے گاوں کا راستہ ہی بھول گیا تھا اور جن جن کو وہ گھر میں چھوڑ آیا تھا، اب ان کی اکثریت اس کے انتظار کو چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے شہر خموشاں کی مقیم ہوچکی تھی۔

عدالتی نظام کسی بھی معاشرے کی ترقی اور فلاح میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ زندہ معاشرے اپنے عدالتی نظام سے پہچانے جاتے ہیں، عدالتی نظام جس قدر مستحکم ہوگا، معاشرہ بھی اسی قدر مستحکم ہوگا۔ عدالتی نظام ایسا ہونا چاہیئے، جس سے مجرم خوف کھائے اور عام آدمی کو انصاف کی امید ہو۔ مشہور قول ہے کہ معاشرے کفر سے قائم رہ سکتے مگر نا انصافی سے مٹ جاتے ہیں۔ اسلامی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو خاتم الانبیاءﷺ نے انصاف کے پیمانے طے فرما دیئے اور سیرت قائم فرما دی کہ جو ذاتی دشمن ہے، اسے معاف کیا جا سکتا ہے بلکہ معاف کرنے کی ترغیب دی گئی، مگر جو قانون کا مجرم ہو، اسے ہر صورت میں سزا دینے کی  حوصلہ افزائی کی گئی۔

کوئی بڑے سے بڑا چوہدری سردار نبی اکرمﷺ کے انصاف سے اس لیے نہیں بچ سکتا تھا کہ وہ کسی بڑے خاندان سے تعلق رکھتا ہے یا اس کے پاس مال و دولت بہت زیادہ ہے۔ مشہور واقعہ ہے کہ کسی صحابی نے بنو مخذوم کی چور عورت کو سزا نہ دینے کی سفارش کی۔ رسول کریم ﷺ نے (ان کی بات سن کر) فرمایا کہ "تم اللہ کی حدود میں سے ایک حد کے بارے میں سفارش کرتے ہو؟" اور پھر آپﷺ کھڑے ہوئے خطبہ دیا اور (حمد و ثناء کے بعد اس خطبہ میں) فرمایا کہ "تم سے پہلے لوگ جو گذرے ہیں، ان کو اسی چیز نے ہلاک کیا کہ ان میں سے کوئی شریف آدمی (یعنی دنیاوی عزت و طاقت رکھنے والا) چوری کرتا تو وہ اس کو (سزا دیئے بغیر) چھوڑ دیتے تھے اور اگر ان میں سے کوئی کمزور و غریب آدمی چوری کرتا تو سزا دیتے تھے، قسم ہے اللہ کی! اگر محمد (ﷺ) کی بیٹی فاطمہؑ بھی چوری کرے تو اس کا ہاتھ کاٹ ڈالوں۔

عدل و انصاف کا قتل دو طرح سے ہوتا ہے، ایک تو عدل و انصاف کے خلاف فیصلہ دیا جائے، قاضی یا نظام حقدار کو حق نہ دلوائے بلکہ ظالم و غاصب کا طرفدار بن کر اس کے حق میں فیصلہ دے دے۔ یہ بھی ظلم ہے، اس سے بھی انسانی معاشرہ دوام نہیں پا سکتا۔ دوسرا یہ کہ انصاف میں غیر ضروری تاخیر کر دی جائے، یہ تاخیر بھی  دراصل لوگوں کو عدل سے دور رکھ کر کیا گیا ظلم ہے، جو معاشرے میں عدم استحکام پیدا کرتا ہے۔ ہماری عدالتیں بڑی طاقتور ہیں۔ یہ ایک مقبول عوامی لیڈر کو سزائے موت دے دیتی ہیں اور اسے پھانسی پر چڑھا دیا جاتا ہے۔ ایک منتخب وزیراعظم کو صرف عدالت کے برخواست ہونے تک کی سزا دیتی ہیں اور بعد میں اسی جرم میں  وزیراعظم کے عہدے سے ہٹا دیتی ہیں۔ یہی عدالت تیسری بار کے منتخب وزیراعظم کو چلتا کرتی ہیں اور اسے واپس بلا کر جیل بھیج دیتی ہیں۔ یہ ان کی طاقت ہی ہے کہ حکومت آرمی چیف کی مدت ملازمت میں اتنی ہی توسیع کرسکتی ہے، جتنی کی یہ حکومت کو اجازت دیتی ہیں۔

ویسے انصاف فراہم کرنے والے نظام کو کبھی کبھی پہیے بھی لگتے ہیں، کسی بڑے آدمی کا استاد گرفتار ہوگیا تھا اور اگلے دن سرکاری چھٹی تھی، اس دن عدالتیں کھلوا کر ان کی ضمانت منظور کروائی گئی تھی۔ یہ پہیے کہاں سے لگے ہیں؟ اور ایسا انصاف جو چھٹی کے دن بھی ہو کر رہے، وہ صرف ایسے معاشرے میں ممکن ہے، جہاں انصاف کے ترازو الگ الگ ہوں۔ امیر کے لیے الگ انصاف ہو اور غریب کے لیے الگ انصاف ہو۔ انصاف فراہم کرکے اس ملک پر احسان کیجئے اور ظلم و جبر کی چکی میں پسے لوگوں کو تھوڑا سانس لینے کا موقع دیجئے۔ یاد رکھیئے انصاف سے محروم معاشرے میں ترقی کا تصور بھی حرام ہے اور اس کے نتیجے میں وہ بدامنی جنم لیتی ہے کہ سیالکوٹ کی ماں عدالت عالیہ سے باعزت بری ہونے والے قاتل کو خود اپنے ہاتھ سے قتل کر دیتی ہے اور انصاف کے نام پر قائم نظام پر سوالات چھوڑ جاتی ہے۔


خبر کا کوڈ: 831183

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/831183/یہ-عدالتیں-ہیں-کیا

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org