QR CodeQR Code

امریکہ میں فائرنگ کے بڑھتے واقعات، حل کیا ہے؟

6 Dec 2019 21:30

اسلام ٹائمز: اب اتنا ہے کہ سکولوں میں جانیوالے طالب علم، دفاتر میں جانیوالے ملازمین، بزنس مین اور اسی طرح سماج کے دیگر متحرک کردار اپنے ہی ہم وطن امریکیوں سے خوف زدہ ہیں کہ نہ جانے کب، کون، کہاں اور کس وقت گن نکال کر فائرنگ شروع کر دے۔ امریکی سماجیات، نفسیات اور بین الادیان مکالمہ کی حمایت کرنیوالے علماء کو اس حوالے سے اپنے سماج کی رہنمائی کیلئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے۔ حتیٰ کہ بین المذاہب سیمینارز، بین السماج رحجانات اور دیگر ثقافتوں سے آشنائی کیلئے امریکہ کے اندر کانفرنسز اور سیمینارز کرائے جائیں۔ جہاں بالخصوص اس کمیونٹی کے افراد کو اظہار خیال کا موقع دیا جائے، جس سے امریکی سماج کے جارحیت پسند، کج فہم نفرت کرتے ہیں۔


تحریر: طاہر یاسین طاہر

انسانی سماج کے مختلف مدارج ہیں۔ تہذیبوں کے اتار چڑھائو کا مطالعہ ہمیں ان مدارج کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ مثلاً چار ہزار سال پہلے کے انسانی سماج میں جو روایات، رواج اور قبائلی تفاخر تھا، وہ رفتہ رفتہ ختم ہونے لگا، لیکن ان سماجی تفاخر، قبائلی انا اور دیگر حرکیات کے بدلے انسان نے سماج میں ایسی ہی چیزوں کی جگہ بنائی، جو ان سے ملتی جلتی تھیں اور اب تک برقرار ہیں۔ چار ہزار سال پہلے بھی انسان دوسرے انسان کے خون کا پیاسا تھا اور آج بھی انسان اپنے جیسے انسان کا خون بہا کر اپنی طاقت کا اظہار کرتا ہے۔ یہ بات عجیب ہے کہ گاہے اس طاقت کا اظہار نسلی تفاخر کے تحت کیا جاتا ہے، تو کبھی بلکہ اکثر جارحیت پسندی کا یہ اظہار یا اس کے محرکات مذہبی جذبات ہوتے ہیں۔ یہ جذبات انسان کے منفی رویوں یا رحجانات کو مہمیز کرتے ہیں، تعصب کے خلیاتی نظام کو طاقتور بناتے ہیں اور نتیجہ میں بے گناہوں کی جان چلی جاتی ہے۔ یہ افسوس ناک عمل اکیسویں صدی میں بھی ہو رہا ہے اور آج سے چار ہزار سال قبل بھی ہوتا تھا۔ البتہ طریقہ کار میں بہت فرق آیا ہے۔

اس میں کلام نہیں کہ یورپ و امریکہ میں مسلمانوں کو متشدد، انتہاء پسند اور دہشت گرد سمجھا جاتا ہے۔ اس حوالے سے باقاعدہ انجمنیں مسلم کشی کے مکروہ کاروبار کے لیے وجود پا چکی ہیں۔ مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کے واقعات تو آئے روز یورپ و امریکہ میں "آزادیء اظہارِ رائے" کے نام پرپیش آتے ہیں۔ مثلاً گذشتہ دنوں ناروے میں ایک ملحد نے دانستہ مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے اور قرآن مجید کی توہین کرنے کے لیے منظم مہم چلائی اور قرآن پاک کو جلانے کی ناپاک جسارت کی۔ جب وہ (نعوذ بااللہ) یہ کام کرنے لگا تو ایک مسلم نوجوان نے مجمع میں سے چھلانگ لگائی اور قرآن سے اپنی محبت کا ثبوت دیتے ہوئے مسلمانوں کی آنکھ کا تارہ بن گیا۔ اس واقعہ کے حوالے سے یہ بھی رپورٹ ہوا ہے کہ ملحد کو روکنے کے لیے پولیس موجود تھی۔ لیکن وہی کہ وہاں آزادی اظہار رائے جیسی "بیماری" نے پورے انسانی سماج کو مفلوج کیا ہوا ہے۔ اظہار انسان کا بنیادی حق ہے، مگر یہ کسی کی دل آزادی، کسی کی توہین اور الٰہی ادیان کی بے حرمتی کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیئے۔

یہ سوال اپنی جگہ بڑا اہم ہے کہ مسلم ہوں یا غیر مسلم، انفرادی حیثیت میں ہوں یا منظم مسلح تنظیم کی شکل میں، اپنے جیسے دوسرے انسانوں کو قتل کرنے کے درپے کیوں ہو جاتے ہیں؟ مسلمانوں کے متشدد، کالعدم گروہ تو سامراج کے ساتھ ساتھ اپنے ہی کلمہ گو بھائیوں کو بھی اپنے بارود کی زد پر لے لیتے ہیں، کیونکہ کسی نے ان کی ایسی ذہن سازی کی ہوتی ہے کہ ان کا ہدف جنت میں "ان کی منتظر حوریں ہوتی ہیں۔ لیکن میرا سوال یہ ہے کہ ان غیر مسلم امریکیوں کو کیا ہوگیا ہے؟ یہ کیوں آئے روز سکولوں، کالجوں، عوامی اجتماعات اور دیگر مقامات پر انفرادی حیثیت سے فائرنگ کرکے "دل و دماغ" کے منفی جذبات کی تسکین کرتے ہیں۔؟

القاعدہ کیوں بنی؟ داعش کی تشکیل و تخلیق کا مقصد کیا ہے؟ النصرہ فرنٹ کے اہداف کیا ہیں؟ الشباب؟ بوکو حرام کے مقاصد کیا ہیں؟ شدت پسند تنظیموں پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار اور لکھاری اس حوالے سے بہت کچھ جانتے ہیں اور اپنے کالمز، انٹرویوز اور بلاگز میں اس حوالے سے آگاہ بھی کرتے رتے ہیں۔ ایک مسئلہ مگر جو شدت سے سامنے آ رہا ہے، وہ امریکہ میں پیش آنے والے فائرنگ کے واقعات ہیں۔ حالانکہ امریکہ دہشت گردی کے نام پر لڑی جانے والی جنگ کی کمان کرتے ہوئے اس جنگ کو امریکہ سے ہزاروں میل دور، شام، عراق، افغانستان، لبنان، لیبیا، یمن وغیرہ میں لڑ رہا ہے۔ یہ موضوع بحث طلب ہے کہ مذکور علاقوں میں کون سی تنظیمیں واقعی دہشت گرد ہیں اور کون سی تنظیمیں یا گروہ مدافعتی ہیں۔ لیکن صد حیف کہ ہمارا میڈیا بھی یک رخے تجزیئے و تبصرے شائع کرتا ہے۔ ورنہ میری سمجھ میں آنے والی بات، امریکی سکولوں، کالجز اور دیگر مقامات پر ہونے والی دہشت گردی کے پیچھے امریکی سماج کی نفیساتی الجھنیں اور وہ منفی پروپیگنڈا ہے، جو عشروں سے کیا جا رہا ہے۔

عالمی میڈیا کے مطابق "امریکی ریاست فلوریڈا میں نیول بیس پر فائرنگ کے نتیجے میں ایک شخص ہلاک ہوگیا، جبکہ حملہ آور کو مار دیا گیا۔ ایس کیمبیا کاؤنٹی شیرف کے دفتر سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری بیان میں کہا گیا کہ "ہم تصدیق کرتے ہیں کہ نیول ایئر اسٹیشن پینساکولا میں کوئی حملہ آور موجود نہیں ہے اور اسے ہلاک کر دیا گیا ہے۔ فائرنگ کے واقعے کے بعد نیول بیس کو بند کر دیا گیا، جبکہ امریکی بحریہ کی طرف سے فائرنگ سے ایک شخص کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی گئی۔ امریکی بحریہ کے ٹوئٹر پر جاری بیان میں کہا گیا کہ "حملہ آور کے علاوہ ایک اضافی ہلاکت کی تصدیق کی جاتی ہے، جبکہ فائرنگ سے زخمی ہونے والوں کو مقامی ہسپتالوں میں منتقل کیا جا رہا ہے۔ امریکی بحریہ کی "بیس" میں عمومی طور پر تقریباً 16 ہزار فوجی اہلکار اور 7 ہزار سے زائد عام شہری موجود ہوتے ہیں، جبکہ یہ فلائٹ اسکواڈرن کا اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کا گڑھ ہے۔

دریں اثناء صرف دو روز قبل امریکی بحریہ کے ایک اہلکار نے ریاست ہوائی میں واقع تاریخی فوجی اڈے پرل ہاربر میں فائرنگ کرکے 2 افراد کو ہلاک کر دیا، بعد ازاں حملہ آور نے خود کو بھی گولی مار لی۔ امریکی بحری اڈے کے ترجمان نے میڈیا کو بتایا کہ سکیورٹی فورسز نے مقامی وقت کے مطابق دوپہر اڑھائی بجے ہونے والی فائرنگ کی اطلاعات پر ردعمل دیا تھا اور فوجی اڈہ کئی گھنٹوں تک لاک ڈاؤن رہا تھا۔ فائرنگ کا یہ واقعہ ایسے وقت پیش آیا ہے، جب پرل ہاربر پر 7 دسمبر 1941ء کو ہونے والے حملے کو 78 برس مکمل ہونے میں محض 3 روز باقی ہیں، اس روز جاپان نے پرل ہاربر پر حملہ کیا تھا، جس کے بعد امریکا جاپان کے خلاف اعلان جنگ کرتے ہوئے جنگ عظیم دوم میں شامل ہوگیا تھا۔

یہ امر بڑا حیرت افروز ہے کہ گذشتہ چند سالوں سے سکولوں، کالجز، یونیورسٹیوں، کلبوں، گھروں میں منعقدہ پارٹیوں نسلی، لسانی و مذہبی تعصبات کی بنا پر امریکہ میں انفرادی فائرنگ کے واقعات کی شدید لہر اٹھی ہے۔ اوباما دور میں بھی اس معاملہ کو ریاستی سطح پر اٹھایا گیا تھا کہ سرعام اسلحہ کی خرید و فروخت کے  حوالے سے کوئی ضابطہ کار طے کیا جائے گا۔ مگر ابھی تک امریکہ جیسا ملک اس حوالے سے کوئی ایسا لائحہ عمل، قانون یا ضابطہ نہیں بنا سکا، جس پر عمل کیا جا سکے۔ البتہ اب اتنا ہے کہ سکولوں میں جانے والے طالب علم، دفاتر میں جانے والے ملازمین، بزنس مین اور اسی طرح سماج کے دیگر متحرک کردار اپنے ہی ہم وطن امریکیوں سے خوف زدہ ہیں کہ نہ جانے کب، کون، کہاں اور کس وقت گن نکال کر فائرنگ شروع کر دے۔ امریکی سماجیات، نفسیات اور بین الادیان مکالمہ کی حمایت کرنے والے علماء کو اس حوالے سے اپنے سماج کی رہنمائی کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے۔ حتیٰ کہ بین المذاہب سیمینارز، بین السماج رحجانات اور دیگر ثقافتوں سے آشنائی کے لیے امریکہ کے اندر کانفرنسز اور سیمینارز کرائے جائیں۔ جہاں بالخصوص اس کمیونٹی کے افراد کو اظہار خیال کا موقع دیا جائے، جس سے امریکی سماج کے جارحیت پسند، کج فہم نفرت کرتے ہیں۔


خبر کا کوڈ: 831209

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/831209/امریکہ-میں-فائرنگ-کے-بڑھتے-واقعات-حل-کیا-ہے

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org