0
Saturday 7 Dec 2019 22:47

خیبر پختونخوا میں تشیع کے حل طلب مسائل

خیبر پختونخوا میں تشیع کے حل طلب مسائل
رپورٹ: ایس اے زیدی

بلاشبہ پاکستان تحریک انصاف کو پاکستانی عوام نے سابقہ حکمران جماعتوں سے تنگ آکر مینڈیٹ دیکر اقتدار سنبھالنے کا موقع دیا، خاص طور پر صوبہ خیبر پختونخوا میں لگاتار دوسری مرتبہ پی ٹی آئی کا حکومت میں آنا اس جانب اشارہ ہے کہ کے پی کے، کے عوام نے اس جماعت سے کچھ زیادہ ہی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔ اگر ماضی کے دریچوں میں جھانکا جائے تو اس صوبہ میں ہر مرتبہ نئی جماعت کی حکومت آئی ہے، یعنی کس سیاسی جماعت کو خیبر پختونخوا کے عوام نے لگاتار دوسری مرتبہ اقتدار سنبھالنے کا موقع فراہم نہیں کیا۔ تاہم پی ٹی آئی کو لگاتار دوسری مرتبہ حکمرانی کا موقع ملا ہے۔ اب یہاں عوام کی مشکلات اور دیرینہ مسائل حل کرنا بھی محمود خان کی حکومت کا فریضہ ہے۔ خیبر پختونخوا میں آباد شیعہ آبادی کا رجحان بھی گذشتہ انتخابات میں واضح طور پر تحریک انصاف کی طرف تھا اور انہیں یہی امید تھی کہ عمران خان کی سربراہی میں ان کی حکومت ہمارے وہ مسائل کرسکتی ہے، جو عرصہ دراز سے حل طلب ہیں۔

شائد یہی وجہ تھی کہ خیبر پختونخوا میں شیعہ ووٹ زیادہ تر پی ٹی آئی کو گیا۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ اس حوالے سے اب تک تحریک انصاف کی حکومت نے صوبہ کی شیعہ آبادی کو مایوس کیا ہے۔ پی ٹی آئی کے اس دور حکومت میں تشیع سے مربوط مسائل اور معاملات حل ہونے کی بجائے مزید الجھتے ہی نظر آئے ہیں، گو کہ امن و امان کی صورتحال میں مجموعی طور پر بہتری تو آئی ہے، تاہم اس سے ہٹ کر ڈیرہ اسماعیل خان میں کوٹلی امام حسین علیہ السلام، پاراچنار میں بالش خیل کی زمینوں کا معاملہ، کوہاٹ میں کے ڈی اے شیعہ مسجد اور امام بارگاہ کی بندش، ہنگو میں سالانہ یوم عاشورہ کا جلوس اور شاہوخیل کی آباد کاری، اورکزئی میں روحانی پیشوا میر انور شاہ کے مزار کی بندش، شیڈول فورتھ اور لاپتہ افراد کا مسئلہ اپنی جگہ موجود ہے۔ یہاں درج بالا مسائل کی کچھ تفصیل بیان کی جاتی ہے۔

1۔ کوٹلی امام حسین علیہ السلام:
ڈیرہ اسماعیل خان میں 327 کنال 9 مرلہ اراضی کا مسئلہ آج تک کوئی حکومت سنجیدگی سے حل نہیں کرسکی، ڈیرہ کے شیعہ عوام کیلئے یہ معاملہ زندگی، موت کا مسئلہ ہے۔ موجودہ وفاقی وزیر علی امین گنڈاپور نے اپنی الیکشن کمپین کے دوران شیعہ ووٹرز سے اس یقین دہانی پر ووٹ لیا تھا کہ اگر وہ کامیاب ہوئے اور پی ٹی آئی کی حکومت آئی تو وہ یہ مسئلہ ذاتی دلچسپی لیکر حل کروائیں گے، تاہم مقامی شیعہ رہنماوں کی جانب سے مسلسل رابطوں اور احتجاجی کیمپ لگانے سمیت ہر دستیاب فورم پر آواز اٹھانے کے باوجود اس جانب تاحال کوئی توجہ نہیں دی گئی۔

2۔ بالش خیل اراضی معاملہ:
پاراچنار کے علاقہ بالش خیل میں ہزاروں ایکٹر پر پھیلی شیعہ زمینوں پر آج بھی قبضہ ہے، مقامی شیعہ قیادت نے پاک فوج کے موجودہ اور سابق بریگیڈئیرز اور سول انتظامیہ کیساتھ بارہا اس معاملہ کو ڈسکس کیا، جرگے کئے، تاہم یہ مسئلہ بھی آج تک حل طلب ہے۔ واضح رہے کہ ضلع کرم میں سابقہ ادوار میں بعض لڑائیاں زمینوں اور پانی کے مسائل سے شروع ہوکر فرقہ وارانہ رنگ اختیار کر گئیں، جس کی وجہ سے ہزاروں افراد کی جانیں ضائع ہوئیں۔ اس مسئلہ کی حساسیت اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت محکمہ مال کے ریکارڈ کے مطابق بالش خیل کی زمینوں کا مسئلہ حل کرے، بصورت دیگر یہ معاملہ امن و امان کی صورتحال خراب کرسکتا ہے۔

3۔ کے ڈی اے کوہاٹ:
کوہاٹ میں شہری علاقہ کے ڈی اے میں وسیع شیعہ آبادی ہونے اور پشاور ہائیکورٹ کے واضح احکامات کے باوجود ضلعی انتظامیہ شیعہ نمازیوں کو مسجد میں نماز تک ادا کرنے نہیں دے رہی، انتظامیہ نے امام بارگاہ و مسجد کو سیل کر رکھا ہے، جس کہ وجہ سے شیعہ نمازی مسجد کے باہر کھلے آسمان تلے نماز ادا کرنے پر مجبور ہیں۔ اس حوالے سے صوبائی سطح تک حکومت سے شیعہ علمائے کرام نے رابطہ کیا، تاہم نامعلوم وجوہات کی بناء پر مسئلہ اب تک حل نہیں کیا گیا۔ واضح رہے کہ مدینہ کی ریاست قائم کرنے کا دعویٰ کرنے والے حکمرانوں کی موجودگی میں یہ مسئلہ ملک میں اپنی نوعیت کا منفرد مسئلہ ہے۔

4۔ ہنگو سالانہ جلوس و شاہو خیل آبادکاری:
ہنگو میں اس مرتبہ یوم عاشورہ کے جلوس کے شرکاء پر بلاجواز ایف آئی آرز کا اندراج کیا گیا، کئی سالوں سے برآمد ہونے والے جلوس میں حسب روایت محض سٹیج لگانے پر بزرگ عالم دین علامہ خورشید انور جوادی سمیت درجنوں شیعہ عزاداروں پر ایف آئی آر کاٹی گئی اور پھر کالعدم جماعت کو شہر میں کھلے عام اشتعال انگیزی پھیلانے اور امن و امان کی صورتحال خراب کرنے کی اجازت دی گئی۔ اس کے علاوہ 2008ء میں طالبان کی جانب سے شیعہ آبادی شاہو خیل میں گھروں، مساجد اور امام بارگاہوں کو مسمار کیا گیا، یہاں کے مکین آج تک دربدر ہیں اور اپنے علاقہ میں واپس نہیں آسکے۔ ہر دور حکومت میں ان متاثرہ لوگوں کی آبادکاری کی یقین دہانیاں کرائی گئیں، تاہم آج تک شاہو خیل کے شیعہ شہری اپنے گھروں کی تعمیر اور واپسی کے منتظر ہیں۔

5۔ سید میر انور شاہ کے مزار کی بندش:
سید میر انور شاہ کا مزار اورکزئی میں ہے، ان کے مریدوں کی ایک بڑی تعداد ضلع کرم، کوہاٹ اور ہنگو میں بھی موجود ہے، حکومت نے عرصہ دراز سے روحانی پیشوا سید میر انور شاہ کے مزار کو عقیدت مندوں کیلئے بند کر رکھا ہے، جس پر مختلف علاقوں میں بسنے والے شاہ صاحب کے مرید سراپا احتجاج ہیں۔ اس حوالے سے مختلف مواقع پر احتجاجی مظاہرے بھی ہوتے رہے ہیں، تاہم حکومت نے اس مسئلہ کی جانب کوئی توجہ نہیں دی۔ سید اقبال میاں، سید وصی سید میاں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سکھوں او ہندوؤں کو بھی اپنے مقدس مقامات پر حاضری دینے کی اجازت ہے اور امن قائم ہونے کے باوجود میاں بزرگوار کے مزار پر حاضری پر پابندی سمجھ سے بالا تر ہے۔

6۔ شیڈول فورتھ اور لاپتہ شیعہ افراد:
عرصہ دراز سے ملک کے دیگر علاقوں کی طرح خیبر پختونخوا سے بھی کئی شیعہ نوجوانوں کو ریاستی اداروں نے بغیر کسی مقدمہ کے جبری طور پر لاپتہ کر رکھا ہے، ان میں سے بعض جوان تو واپس آئے ہیں، تاہم اب بھی کئی لاپتہ ہیں، اس حوالے سے شیعہ نمائندہ جماعتوں نے آواز بھی بلند کی ہے، اور ان کا کہنا ہے کہ اگر کوئی شہری کسی منفی سرگرمی میں ملوث بھی ہے تو اسے منظر عام پر لاکر باقاعدہ کیس چلایا جائے، اس طرح پراسرار طور پر لاپتہ کرنا غیر قانونی ہے۔ علاوہ ازیں خیبر پختونخوا میں بھی پنجاب کی طرز پر شریف اور محب وطن شیعہ عمائدین، علمائے کرام اور شہریوں کو شیڈول فورتھ کا سامنا ہے۔ صوبائی حکومت نے شیعہ قائدین کیساتھ ملاقاتوں کے دوران اس حوالے سے نظرثانی کی یقین دہانی تو متعدد مرتبہ کرائی ہے، تاہم اس پر عملدرآمد نہیں ہوسکا۔ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اپنے شیعہ ووٹرز کے مینڈیٹ کا خیال کرتے ہوئے یہ مسائل فوری طور پر حل کرے، بصورت دیگر خیبر پختونخوا کے شیعہ پی ٹی آئی کی تبدیلی کا نعرہ لیکر آنے والے حکومت سے متنفر ہوسکتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 831419
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش