0
Tuesday 10 Dec 2019 15:12

بحریہ ٹاؤن تصفیہ فنڈز کے حصول کیلئے وفاق اور سندھ حکومت آمنے سامنے

بحریہ ٹاؤن تصفیہ فنڈز کے حصول کیلئے وفاق اور سندھ حکومت آمنے سامنے
رپورٹ: ایس ایم عابدی

سندھ کابینہ کی ہدایت پر صوبے کے اعلیٰ قانونی افسر سپریم کورٹ میں نئی درخواست دائر کریں گے، جس میں استدعا کی جائے گی کہ بحریہ ٹاؤن کراچی سے جمع کروائے گئے فنڈز کے حصول کے لئے زیر التوا پٹیشن کو سماعت کے لئے مقرر کیا جائے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے بحریہ ٹاؤن کی جانب سے جمع کروائی گئی رقم کے حصول کے لئے اگست میں درخواستیں دائر کی تھیں۔ سندھ حکومت نے عدالت عظمٰی کے حکم پر بحریہ ٹاؤن کی جمع کروائی گئی رقم اور مستقبل میں اس مد میں کی جانے والی ادائیگیاں سندھ حکومت کو منتقل کروانے کے لئے ایڈووکیٹ جنرل (اے جی) سلمان طالب الدین کے ذریعے اگست میں سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ کابینہ اجلاس کے بعد صوبائی وزیر محنت سعید غنی نے بتایا کہ سندھ کابینہ نے ایڈووکیٹ جنرل کو سپریم کورٹ میں نئی درخواست دائر کرنے کی ہدایت کی اور کابینہ نے یہ فیصلہ بھی کیا کہ مذکورہ رقم صوبے میں پانی کی فراہمی بہتر بنانے کے لئے استعمال کی جائے گی۔

اس حوالے سے ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ عدالت عظمیٰ میں پہلے سے دائر درخواست اب تک سماعت کے لئے مقرر نہیں ہوسکی جس پر کابینہ نے انہیں ہدایت کی اس کارروائی کو تیز کرنے کی کوشش کریں اور اب وہ عدالت عظمیٰ میں ایک اور درخواست دائر کریں گے۔ سندھ حکومت کی جانب سے فنڈز کے حصول کی کوششیں اس وقت تیز ہوئیں جب برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) نے ملک ریاض کے خاندان سے 19 کروڑ پاؤنڈز کی خطیر رقم برآمد کرکے اسے سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں منتقل کردیا۔ اس سے قبل اگست میں جمع کروائی گئی درخواست میں ایڈووکیٹ جنرل نے موقف اختیار کیا تھا کہ سپریم کورٹ نے 21 مارچ کو بحریہ ٹاؤن کو ہدایت کی تھی کہ وہ کراچی میں 16 ہزار 896 ایکڑ زمین کے لئے حکومت سندھ کو (بیعانہ) ڈاؤن پیمنٹ ادا کرے۔

درخواست کے متن کے مطابق مالی سال 19-2018ء میں فیڈرل ٹیکس کلیکشن میں کمی کے باعث وفاقی حکومت کو سنگین مالی بحران کا سامنا تھا جس کی وجہ سے حکومت سندھ کو بجٹ میں مختص 6 کھرب 5 ارب 60 کروڑ روپے کے بجائے 30 جون تک صرف 4 کھرب 39 ارب روپے دیئے گئے یعنی 1 کھرب 12 ارب روپے کم اور قابلِ تقسیم وفاقی محصولات کے 5 کھرب 8 ارب روپے روپے کے نظرثانی شدہ تخمینے کے مقابلہ میں 74 ارب 99 کروڑ روپے کا خسارہ ہوا۔ درخواست میں کہا گیا کہ حکومت سندھ کو مالی سال 19-2018ء میں پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ کے لئے مختص شدہ 14 ارب 26 کروڑ 60 لاکھ روپے کی رقم کے مقابلے صرف 9 ارب 90 کروڑ روپے ملے جس سے نہ صرف وہ منصوبے خطرے میں پڑ گئے جن کا کام تکمیل کے مراحل میں تھا بلکہ ان کا کام بھی متاثر ہوا جو ابھی شروع ہی کئے گئے تھے۔

ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے موقف اختیار کیا کہ عدالت عظمیٰ متعلقہ اداروں کو ہدایت کرے کہ نہ صرف بحریہ ٹاؤن کی جانب سے سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں جمع کروائی گئی ڈاؤن پیمنٹ سندھ حکومت کو منتقل کی جائے بلکہ مستقبل کی بھی تمام ادائیگیاں سندھ حکومت کو دی جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت نے سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی میں بحریہ ٹاؤن سے ملنے والی تمام رقم شفاف طریقے سے ترقیاتی منصوبوں میں خرچ کرنے کا عزم کیا ہے جس کی نگرانی وزیراعلیٰ سندھ کی سربراہی میں بنائی گئی ایک کمیٹی کرے گی۔ یاد رہے کہ 21 مارچ 2019ء کو سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے عدالت عظمیٰ کے 4 مئی 2018ء کو دیئے گئے فیصلے کے اطلاق کے لئے بحریہ ٹاؤن کی جانب سے 4 کھرب 60 ارب روپے کی پیشکش قبول کی تھی۔ فیصلے میں کہا گیا تھا مذکورہ زمین سندھ حکومت نے ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو اضافی ہاؤسنگ اسکیم کی تعمیر کے لئے دی تھی لیکن ایم ڈی اے نے اپنی طرف سے زمین بحریہ ٹاؤن کے حوالے کردی تھی۔

دوسری جانب وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے ملک ریاض کے اہل خانہ اور برطانوی حکومت کے درمیان ہونے والے تصفیے سے ملنے والے 19 کروڑ پاؤنڈ پر واضح کیا ہے کہ اس رقم کو وفاقی حکومت سماجی بہبود کے لئے استعمال کرے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ تصفیے کے معاہدے میں ون ہائیڈ پارک کی فروخت اور اس سے حاصل رقم اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو منتقل کرنا بھی شامل ہے، یہ رقم سپریم کورٹ آف پاکستان کے نیشنل بینک اکاؤنٹ میں منتقل کئے گئے۔ شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے سماجی بہبود اور غریبوں پر خرچ کرنے کے لئے اس رقم کو حاصل کرنے کے لئے سپریم کورٹ میں درخواست دی ہے۔
خبر کا کوڈ : 831900
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش