0
Wednesday 11 Dec 2019 07:34

مغربی معاشرے کی ایک جھلک

مغربی معاشرے کی ایک جھلک
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس

انسان جس قدر ترقی کر رہا ہے، وہ اتنا ہی سہل پسند اور سہولیات کا عادی بن رہا ہے۔ دنیا میں انسانوں کی ایک بڑی تعداد سہولیات کے حصول کے لیے نئی سے نئی اشیاء خریدتی ہے اور اپنے گھر کو ان جدید اشیاء کے ذریعے آرام دہ بنانے کی کوشش کرتی ہے۔ سہولیات کے حصول کے ساتھ دوسری ضرورت گھروں کو خوبصورت اور جدید ترین وسائل سے مزین کرنا بھی خاندانوں کی مجبوری بنتا جا رہا ہے۔ انسان سکون اور سجے سجائے گھر کے حصول کے لیے محنت اور زحمت اٹھاتا ہے کہ اسے اپنا اصل مقصد بھول جاتا ہے اور وہ ایک مشین کی طرح رات دن سرمایہ کے حصول کے لیے اتنا مصروف ہو جاتا ہے کہ حقیقی آرام و سکون اور قدرتی خوبصورتی اور زیبائی سے دور ہو جاتا ہے۔ مغربی معاشرے جس دوڑ میں مشغول ہیں، اس کا کوئی انجام نہیں۔ اس دوڑ میں شریک کھلاڑی دوڑتے رہیں گے، لیکن منزل تک نہیں پہنچ پائیں گے۔ آج کا مغربی معاشرہ کس طرف جا رہا ہے اور اس میں زندگی سے بے زاری اور خودکشی کا رجحاں کیوں بڑھ رہا ہے، اس کا مختصر جائزہ لیتے ہیں، لیکن آغاز کرتے ہیں ایک دوست کے یادگار واقعہ سے۔

ہمارا دوست کہتا ہے، میں کینڈا کی سیر کے دوران اس ملک کے دارالحکومت ٹورنٹو گیا۔ میں جہاں قیام پذیر تھا، اس کے قریب ایک بڑا ہی خوبصورت پارک تھا اور اس پارک کے ساتھ ایک دریا بھی بہہ رہا تھا، جس نے اس علاقے کی خوبصورتی اور زیبائی کو چار چاند لگا دیئے تھے۔ اس دریا کے اوپر ایک پل بنایا گیا تھا، جس کے نیچے پانی کی تند و تیز لہریں کناروں سے ٹکڑا کر حسین و دلکش ماحول پیدا کرتی تھیں۔ میں جتنے دن ٹورنٹو میں رہا، ہر روز اس پارک میں جاتا اور اس پل کے اوپر چہل قدمی کرکے لطف اندوز ہوتا۔ ایک روز ایک مقامی شہری نے مجھے سوال کیا کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ یہ خوبصورت پل کس حوالے سے زیادہ معروف ہے۔ میں نے نفی میں جواب دیا تو اس نے کا کہنا تھا کہ ٹورنٹو کے مایوس افراد کی اکثریت اس پل سے کود کر خودکشی کرتی ہے۔ میں یہ سن کر حیران رہ گیا کہ کینڈین نوجوان اس خوبصورت پل کو خودکشی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

قارئین یہ یادگار واقعہ سن کر معروف امریکی مصنف مائیکل سنائیڈر یاد آجاتے ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک مقالے میں لکھا ہے کہ جس چیز کے لوگ زیادہ ضرورت مند ہیں، وہ زندگی کے حقیقی مفہوم کا ادراک ہے۔ خودکشی مغربی معاشرے کے مسائل میں سے ایک بڑا مسئلہ ہے، جس میں ہر روز اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق سالانہ آٹھ لاکھ افراد خودکشی کرتے ہیں۔ البتہ یہ وہ اعداد و شمار ہیں، جن میں خودکشی کرنے والا موت کے منہ میں چلا جاتا ہے، وگرنہ ایک بڑی تعداد کو خودکشی کے بعد بچا لیا جاتا ہے۔ ایک عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ اعداد و شمار سے بیس گنا زیادہ افراد خودکشی کا اقدام کرتے ہیں، لیکن کسی نہ کسی وجہ سے زندہ بچ جاتے ہیں۔ مغربی معاشرے میں خودکشی کے بحران کو تفصیل سے جاننے کی ضرورت ہے۔ معاشرے میں شاہد ہی کوئی فرد ہو، جس کو خودکشی کا مطلب نہ پتہ ہو۔ ماہرین نفسیات کے مطابق خودکشی ایک نفسیاتی مسئلہ ہے، جس میں انسان اپنی سوچ و فکر کے مطابق ایک ایسی بند گلی میں پہنچ جاتا ہے، جہان سے موت کی طرف جانے والے راستے کے علاوہ کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔

خودکشی کرنے والا حقیقت میں اپنے آپ کو مایوسی اور ناکامی کی آخری منزل پر تصور کرنے لگتا ہے، مستقبل سے ناامیدی اور آئندہ سے مایوس خودکشی کی بنیادی وجوہات ہیں۔ عالمی ادارے کے سروے کے مطابق دنیا میں ہر انیس گھنٹوں میں ایک فرد خودکشی کا ارتکاب کرتا ہے۔ دنیا میں موت کی پہلی آٹھ وجوہات میں ایک خودکشی ہے۔ عورتوں کے مقابلے میں مردوں میں خودکشی کا رجحان زیادہ ہے اور خودکشی کا یہ رجحان 15 سے 35 سال کی عمر میں نسبتاً زیادہ ہوتا ہے۔ عام طور پر زندگی کے اس دورانیے میں انسان کو زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ فرانس میں مقامی افراد کینسر سے زیادہ خودکشی سے ہلاک ہوتے ہیں۔ فرانس میں سالانہ تقریباً دو لاکھ افراد خودکشی کرتے ہیں۔ خودکشی کرنے والوں میں اکثریت 15 پندرہ سے 20 بیس سال کی لڑکیوں کی ہے۔ فرانس کی وزارت صحت کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق 2017ء سے لے کر اب تک فرانس میں خودکشی کی شرح میں بائیس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ دوسری طرف ماہرین کا کہنا ہے کہ کہ اعداد و شمار اس سے کہیں زیادہ ہیں، جو فرانسیسی حکومت جاری کرتی ہے۔

میڈیا نے 27 مارچ 2018ء کے ایام سے متعلق بعض دلچسپ رپورٹس نشر کی ہیں۔ ان ایام میں لندن کے ایک علاقے میں ایک عمارت کی چھت پر 84 انسانی مجسمے اس انداز سے رکھے گئے تھے، جن کو دیکھنے والا یہ محسوس کرتا تھا کہ یہ انسانی مجسمے ابھی زمین پر گر جائیں گے۔ ایک مجسمہ ساز نے اس عمارت پر 84 انسانی مجسمے نصب کیے تھے، جو ان افراد کی یاد میں تھے، جو ہر ہفتے اس علاقے میں خودکشی کا ارتکاب کرتے تھے۔ معروف مجسمہ ساز مارجینکز نے عوام کو معاشرے میں بڑھتی ہوئی خودکشیوں کی کارروائیوں کی طرف متوجہ کرنے کے لیے یہ نمائش ترتیب دی تھی۔ برطانیہ میں ہر سال 4500 افراد خودکشی کا ارتکاب کرتے ہیں۔ برطانیہ میں زیادہ خودکشی کرنے والے افراد کی اوسط عمر 45 سال بتائی گئی ہے۔ برطانیہ کو دنیا میں اس حوالے سے منفرد اعزاز حاصل ہے، کیونکہ یہ دنیا کا واحد ملک ہے، جس نے خودکشی کو روکنے کے لیے باقاعدہ وزارت تشکیل دی اور اس کا باقاعدہ وزیر بھی نامزد کیا۔

برطانوی حکومت کے اس اقدام سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ برطانیہ میں خودکشی کے رجحان میں کس قدر تیزی سے اضافہ ہوا رہا ہے۔ جب کوئی حکومت خودکشی کے اقدام کی روک تھام کے لیے وزارت خانہ تشکیل دینے پر مجبور ہوگئی ہے تو یقیناً اس ملک میں خودکشی ایک بڑے سماجی مسئلے میں تبدیل ہوچکی ہے۔ برطانیہ میں خودکشی کا یہ بڑھتا ہوا رجحان مغربی طرز زندگی کا ایک جلوہ ہے۔ برطانیہ میں آخر ایسی کونسی مشکلات ہیں، جو عوام بالخصوص 40 سے 45 سال کے فرد کو خودکشی جیسے انتہائی اقدام پر مجبور کر دیتی ہیں۔ امریکہ بھی برطانیہ سے پیچھے نہیں 2017ء میں امریکہ میں 47000 افراد نے خودکشی کا ارتکاب کیا۔ یہ تعداد ان امریکی فوجیوں سے سات گنا زیادہ ہے، جو افغانستان اور عراق کی جنگ میں ہلاک ہوئے۔ امریکہ میں بیماریوں کے کنٹرول کے ادارے سی ڈی سی کے مطابق 2000ء سے 2016ء تک امریکہ میں خودکشی کرنے والوں کی عمر 16 سے 64 سال تک تھی اور گذشتہ چند برسوں میں فعال اور سرگرم افراد میں خودکشی کے رجحان میں 34 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

مائیکل اسنائیڈر لکھتے ہیں " اس کے باوجود کہ ہمارا یعنی امریکہ کا طرز زندگی اور معیار زندگی دنیا کے دیگر ممالک سے غیر معمولی بالا ہے، لیکن اس کے باوجود امریکہ کو ایک خوش باش ملک قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ہم محموعی طور پر انٹرٹینمنٹ کی دنیا میں غرق ہونے والی قوم ہیں اور اپنی گذشتہ نسلوں سے بہت کم شاد و خوشبخت ہیں۔ سماجی و نفسانی ماہرین کی آراء کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ خودکشی کے شرح میں اضافہ صرف اعداد و شمار نہیں بلکہ یہ کسی معاشرے کی ذہنی، فکری اور نظریاتی سطح کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ مغربی معاشروں میں مربوط نفسیاتی مشکلات اور روحانی پیچیدگیوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ خودکشی کی کوشش کے باوجود زندہ بچ جانے والوں کی اکثریت کا یہ کہنا ہے کہ ہم مرنا نہیں چاہتے تھے، لیکن زندگی سے بھی دل اچاٹ ہوگیا تھا۔

اب یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ ممالک جو فلاح و بہبود، سہولیات اور مادی وسائل سے مالا مال ہیں، وہاں خودکشی کی شرح میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے۔ اس سوال کا جواب شاید ان افراد کے خیالات سے سامنے آجائے، جنہوں نے خودکشی کا ارتکاب کیا، لیکن ہلاک ہونے سے بچ گئے۔ تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ جن معاشروں میں سماجی سکیورٹی و سلامتی خطرے سے دوچار ہے، وہاں خودکشی کی شرح زیادہ ہے۔ اس حوالے سے خاندان کے افراد میں باہمی محبت و وفاداری کا فقدان، بےروزگاری، اقتصادی مشکلات، منشیات کا استعمال، شراب نوشی، معاشرتی اقدار سے بے توجہی، طلاق، بچوں پر تشدد وغیرہ ایسے اقدام ہیں، جو معاشرے میں سماجی عدم سلامتی کی علامات ہیں۔ مذکورہ اقدام کا نتیجہ افسردگی، ڈپریشن، مایوسی اور مستقبل میں زندگی سے ناامیدی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ جب انسان اس طرح کے سماجی و روحانی بحران میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اپنے آپ کو زندگی کی بند گلی میں محسوس کرتا ہے تو خودکشی کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔

خودکشی کی کوشش کرنے والوں کی اکثریت کا یہ کہنا ہے کہ روحانی، نفسیاتی دبائو اس بات کا باعث بنا کہ مجھ میں مسائل کے حل کی صلاحیت ناپید ہوگئی اور میرے پاس شکست کے علاوہ کوئی راستہ نہ رہا اور اس شکست کا نتیجہ خودکشی تھا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مغربی طرز فکر میں ظاہری مادی اشیاء پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے اور باطنی و روحانی اقدار کو مکمل طور پر فراموش کر دیا جاتا ہے۔ مغربی تمدن نے روحانی اور سپرئیول موضوع پر توجہ نہ دے کر انسان کو سوچ و فکر کی بند گلی میں دھکیل دیا ہے۔ مغربی طرز زندگی میں جسمانی آرام و سکون کی طرف تو توجہ دی گئی ہے، لیکن روحانی و معنوی آسودی کو مکمل طور پر نظرانداز کر دیا گیا ہے۔ معروف مصنف اریک فروم اپنی کتاب "اپنے لیے زندگی" میں لکھتا ہے کہ آج کا انسان آرام و سکون کا احساس نہیں کرتا اور عام طور پر حیرانی و پریشانی کی کیفیت میں سرگرداں رہتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ وہ اپنی سرگرمیوں سے بے ہودگی اور ان کے فضول ہونے کا احساس کرنے  لگتا ہے۔

مغربی طرز زندگی اور ان کے تہذیب و تمدن کا اصلی بحران روحانیت سے دوری اور روحانی و معنوی سکون سے بے بہرہ ہونا ہے۔ انسان کا انسان سے رابطہ، انسان کا اپنے خالق حقیقی سے رابطہ، دوسرے انسانوں سے رویہ اور اپنے آپ کو دوسرے کے لیے فائدہ مند قرار دینا وغیرہ ایسے سوال ہیں، جس کا مغربی معاشرے کے فرد کے پاس جواب نہیں۔ مغربی معاشرہ ہیومن ازم یعنی اپنی ذات کو ہر چیز کا مرکز و محور سمجھتا ہے، وہ صرف وہی کام انجام دیتا ہے، جو اس کی زات کے لیے فائدہ مند ہو۔  اس طرز زندگی نے مغرب کے انسان کو لذت پسند، انفرادیت کا شوقین اور دین و مذہب سے گریزان کر دیا ہے۔ اس طرح کا طرز زندگی سماجی بحرانوں کا باعث بنتا ہے اور سماجی بحران کا آخری نتیجہ خودکشی کی صورت مین ظاہر ہوتا ہے۔ پس خودکشی کا اصل محرک سماجی بدامنی، نفسیاتی خوف، روحانیت سے دوری، خالق ہستی سے عدم رابطہ اور اپنی ذات کے دائرہ میں محدود رہنا ہے۔ ماہرین نفسیات اس بحران کا حل ایک ایسی ہستی سے رابطے کو مضبوط بنانے میں قرار دیتے ہیں، جو ہر جگہ، ہر حالت اور سخت ترین بحرانوں میں امید کی کرن ہو۔

خداوند عالم سے عشق و محبت زندگی کو حقیقی مفہوم عطا کرتا ہے اور انسان کے روحانی و معنوی خلا کو پر کرتا ہے۔ اس کے ذریعے انسان زندگی کے مختلف مواقع میں کامیابیاں حاصل کرتا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے بقول امریکہ اور اس طرح کے دیگر ممالک میں پیسہ، فوجی طاقت، سائنس و ٹیکنالوجی اور علم کے باوجود اس لیے روحانی و معنوی آسودگی میسر نہیں، کیونکہ یہ معاشرے خداوند عالم اور عالم روحانیت سے بے بہرہ ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے گام دوم نامی دستاویز میں جس جدید اسلامی تمدن کے احیاء اور تشکیل کی بات کی ہے، اس کے لیے روحانیت، معنویت اور اخلاق کو انسان کی انفرادی اور اجتماعی روش کو صحیح سمت دینے کا محرک قرار دیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں، مادی وسائل کی کمی کے باوجود روحانیت و معنویت اور اخلاق کی موجودگی انسانی زندگی کو بہشت میں تبدیل کر دیتی ہے اور اس کی عدم موجودگی سے تمام مادی وسائل کے باوجود زندگی جہنم ہو جاتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 832057
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش