1
Wednesday 11 Dec 2019 17:05

خواجہ شجاع عباس ہم سے بچھڑ گئے(2)

خواجہ شجاع عباس ہم سے بچھڑ گئے(2)
تحریر: ثاقب اکبر
 
عجیب شخص رخصت ہوا کہ جس کے غم میں وہ بھی دلفگار ہیں، جنھیں زندگی بھر اس کی کسی بات سے اتفاق نہ رہا، ایسے میں ان کے رنج و الم کا کیا اندازہ جنھوں نے یہ گواہی دی: "لا نعلم منہ الا خیرا" یا اللہ! ہم تو اس سے خیر کے علاوہ کچھ جانتے ہی نہیں۔ گویا انہوں نے زندگی بھر اس کے وجود سے خیر ہی کو پھوٹتے دیکھا اور خوشبو ہی کو بکھرتے محسوس کیا۔ سبوخ سید صحافت کی دنیا میں جانا پہچانا نام ہے، انہوں نے یوں مرحوم کا ذکر کیا: "خواجہ شجاع عباس صاحب سے کافی نشستیں رہیں۔ زبردست آدمی تھے۔ تاریخی حوالے انہیں کافی از بر تھے۔ مجھے کبھی ان سے اتفاق نہ ہوسکا، لیکن زندگی میں کسی سے اتفاق ہونا ضروری تو نہیں۔" غالبا پانچ چھ برس پہلے ایک روز شجاع عباس کے ساتھ برادرم امجد عباس، ندیم عباس، فرنود عالم اور مجاہد علوی کے ہمراہ بیٹھک ہوئی، جس میں تفصیلی گفتگو ہوئی۔ ہماری فون پر بھی لمبی لمبی بحثیں ہوتی تھیں۔ آخر میں بحث ڈرائی فروٹ کی طرف مڑ جاتی تھی۔ تلخ گفتگو بھی آخر میں لطیفوں پر ختم ہو جاتی۔ انہوں نے کئی بار گشتابہ کھانے کی دعوت دی لیکن وقت نے موقع ہی نہیں دیا۔
 
آج افسوسناک خبر ملی کہ اْن کا وقت پورا ہوگیا۔ دل خون سے بھر گیا۔ وہ اْس پار کے کشمیری تھے اور معروف جہادی گروہ حزب المومنین سے تعلق رکھتے تھے اور حزب المومنین کے کمانڈر بھی تھے۔ کشمیریوں کے لیے وہ کْڑھتے رہتے تھے اور کشمیر کے لیے ان کا دل ہمیشہ دھڑکتا تھا۔ شاید ان کا دل ستر دن پہلے ہی دھڑکنا بند ہوگیا تھا، لیکن ہمیں خبر آج ملی ہے۔ خواجہ شجاع عباس کے علم و فضل کے داد دینے والے بعض ایسے بھی ہیں، جو ان کی زندگی کے تمام پہلوئوں کو اور نشیب و فراز کو نہ جانتے تھے۔ ان کے نقطہ ہائے نظر اور علمی اظہارات کو فقط فیس بک پر ملاحظہ کرتے تھے۔ ان میں سے نامور استاد اور قابل احترام دانشور پروفیسر ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی بھی ہیں، انھوں نے لکھا: "فیس بک سے معلوم ہوا کہ جناب شجاع عباس رحلت فرما گئے. پہلی صدی ہجری کی تاریخ، آثار اور روایات پر گہری نظر رکھتے تھے۔ آج معلوم ہوا کہ ان کا تعلق کشمیر سے تھا۔ پچھلے دنوں موجودہ حکومت کی کشمیر پالیسی کے حوالے سے ان سے فیس بک پر مکالمہ بھی رہا۔ کشمیر کے بارے میں ان کا نقطہ نظر پاکستان کی مقتدرہ سے ہم آہنگ تھا، جس سے مجھے اختلاف تھا اور ہے۔ تاہم یہ سب زندوں کے مسائل ہیں۔ میری ان سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی، لیکن میرے اندازے کے مطابق ہنوز جوان تھے، اللہ تعالیٰ غریق رحمت فرمائے۔"
 
کشمیر کے مظلوموں کی آزادی کے لیے آخری وقت تک کچھ نہ کچھ کرتے رہے۔ اس سلسلے میں ایک محقق کی حیثیت سے بھی وہ اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہے تھے۔ انہوں نے بہت سے تاریخی حقائق اکٹھے کیے تھے، جنھیں وہ مختلف مواقع پر بیان کرتے رہتے۔ بعض اجتماعات میں بھی انہوں نے تحریک پاکستان اور آزادی کشمیر کی جدوجہد کے بارے میں چشم کشا حقائق پیش کیے۔ اسلامی جمہوریہ ایران میں مقیم سید ابن حسن نقوی نے روز وفات پر یہ سطور قلم بند کیں: "تحریک آزادی کشمیر کے مخلص کارکن اور ماہنامہ پیام اسلام آباد کے سابق ایڈیٹر برادر شجاع عباس کی وفات کی خبر ملی ہے۔ برادر شجاع عباس ایک علم دوست اور متحرک شخصیت تھے۔ ہمارا تعارف فیس بک پر ہی ہوا۔ نکتہ نظر کے اختلاف کے باوجود انہیں ہمیشہ بااخلاق، مودب اور حقیقت کی تلاش میں محنت کرتے ہی پایا۔ آج کل کشمیری بھائیوں کی صعوبتوں پر بہت پریشان رہتے تھے۔ اکثر جب رابطہ کرتے تو کہتے ہمیں اپنی اپنی ڈومین میں کشمیری بھائیوں کے لیے کام کرنا چاہیئے۔

میں نے انہیں ایک مشورہ دیا تھا کہ اگر وہ مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی کے تناسب کو متاثر کرنے کے بھارتی اقدامات کے کچھ شواہد دیں تو ہم اسے مرجعیت دینیہ کے نوٹس میں لاتے ہیں اور ان سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ کشمیری مسلمانوں کو ہندوؤں کے ہاتھوں زمینیں فروخت نہ کرنے کی تاکید کریں۔ ان کے بقول وہ اس پر کام کر رہے تھے۔ آخری دفعہ پرسوں شام 8 بجے انہوں نے رابطہ کیا اور آر ایس ایس کے حوالے سے ایک دستاویز بھیجی تھی، جس کے بارے میں ان کی رائے تھی کہ اگر دیگر زبانوں (خصوصاً مسلمانوں کی زبانوں عربی و فارسی) میں ترجمہ کروایا جائے تو کافی مفید رہے گا۔ آج ابھی کچھ دیر پہلے اچانک اطلاع ملی کہ شجاع عباس بھائی حرکت قلب بند ہو جانے کی وجہ سے اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے ہیں۔ انتہائی دکھ ہوا۔ انسان کا کمزور ترین رشتہ سانسوں کے ساتھ رشتہ ہے۔ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔ خدا مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔"
 
استاد دانشگاہ ڈاکٹر سید عون ساجد نے مختصر لیکن خوبصورت اور شناسائی سے بھرپور خراج تحسین پیش کیا: "دانش و آگہی کی الجھی ڈور سلجھانے والا ایک اور مخلص دل و دماغ بھی رخصت ہوا۔ علم دوست، علم شناس دوست، بھائی شجاع عباس کی ناگہانی وفات حسرت آیات پر مغموم دل سے لواحقین کی خدمت میں تسلیت و تعزیت عرض ہے، اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور پسماندگان کو صبر عطا فرمائے۔" بہت سے احباب نے اس سانحۂ جاں سوز پر اپنے جذبات کا اظہار اشعار میں کیا ہے، بعض اہل سخن نے تازہ شعر کہے ہیں اور بعض نے اساتذہ کے بر محل اشعار کو اپنے اظہار جذب و نظر کے لیے وسیلہ قرار دیا ہے۔ ان میں سے پروفیسر ڈاکٹر جواد ہمدانی بھی ہیں، جو فارسی زبان کے لائق قدر استاد ہیں۔ انہوں نے مولانا جلال الدین رومی جنھیں علامہ اقبال کے توسط سے برصغیر کے لوگ ’’مرشد رومی‘‘  کے عنوان سے بھی یاد کرتے ہیں، کی ایک حسب حال غزل فیس بک پر اپنے پیغام کے ساتھ جاری کی ہے، پیغام ملاحظہ کیجیے: "بہت ہی مخلص دوست اور صاحب علم کشمیری حریت پسند ساتھی خواجہ شجاع عباس آج صبح راہی دار البقاء ہوگئے۔ جیسے ہی آنکھیں چھلکنے لگتی ہیں، پیر روشن ضمیر مولانا کی آواز کانوں میں گونجنے لگتی ہے:
 
بہ روز مرگ چو تابوت من روان باشد
گمان مبر کہ مرا درد این جہان باشد
برای من مگری و مگو دریغ دریغ
بہ دوغ دیو درافتی دریغ آن باشد
جنازہ ام چو ببینی مگو فراق فراق
مرا وصال و ملاقات آن زمان باشد
مرا بہ گور سپاری مگو وداع وداع
کہ گور پردہ جمعیت جنان باشد
فروشدن چو بدیدی برآمدن بنگر
غروب شمس و قمر را چرا زبان باشد
تو را غروب نماید ولی شروق بود
لحد چو حبس نماید خلاص جان باشد
کدام دانہ فرورفت در زمین کہ نرست
چرا بہ دانہ انسانت این گمان باشد
کدام دلو فرورفت و پر برون نامد
ز چاہ یوسف جان را چرا فغان باشد
دھان چو بستی از این سوی آن طرف بگشا
کہ ھای ھوی تو در جو لامکان باشد
 
برادر عزیز بشارت قریشی جو امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے سابق مرکزی صدر ہیں اور شاعری سے بھی شغف رکھتے ہیں، انہوں نے اپنے جذبوں کو ’’آہ برادر بزرگوار.. شجاع عباس!‘‘ کے زیر عنوان یوں منظوم کیا ہے:
عشق کا، ادراک کا، کتنا حسیں تھا امتزاج
علم کا، تحقیق کا، سر پہ سجا رکھا تھا تاج
وہ نفاست کا، شرافت کا، گراں مایہ مزاج
چھوڑ کر سب کو اچانک چل دیا چپ چاپ آج
سہیل عابدی ہمارے عزیز دوست ہیں، کبیر والا کے رہنے والے ہیں، اچھا شعر کہتے ہیں۔ اہل دل کے قدردان ہیں، پھر خواجہ شجاع عباس کے قدردان کیوں نہ ہوں۔ چند سطریں انہوں نے بھی سپرد قلم کی ہیں:
سوچتا ہوں کہ دُھلیں گے یہ اندھیرے کیسے
لوگ رخصت ہوئے اور لوگ بھی کیسے کیسے
مجاہد تحریک آزادی کشمیر، عظیم دانشور، داعی اتحاد امت مسلمہ خواجہ شجاع عباس مرحوم کو آج 7 دسمبر کو بوقتِ شب آہوں اور سسکیوں کے کہرام میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ افسوس آج ہم نے خواجہ صاحب جیسے محقق، دانشمند، حریت رہنما، مجاہد، خالص پاکستانی، عظیم انسان کو کھو دیا ہے۔
 
راقم نے بھی ان کے جذبے کا استقبال کرتے ہوئے دو مصرعے کہے:
ملنے والے ہی بچھڑ جائیں تو میلے کیسے
چاند بجھ جائے تو تاروں کے جھمیلے کیسے
یاد آیا کہ مفتی امجد عباس کی ایک پوسٹ پر راقم نے خواجہ شجاع عباس کے لیے یہ دو مصرعے بھی عرض کیے تھے:
محبتوں کے امین تھے وہ
سراپا علم و یقین تھے وہ
البتہ پہلا شعر جو ان کے لیے دل سے اٹھا، زبان پر آیا اور نوکِ قلم پر آیا، وہ یہ تھا:
رخصت ہوا جو درد کا ساتھی رہا سدا
اور جاتے جاتے زندگی کا درد دے گیا
ایک اور شعر بھی دیکھیے:
عباس تھا، شجاع تھا خواجہ نہیں رہا
اب دوستوں میں کوئی بھی ویسا نہیں رہا
 
معروف عالم اور محقق مفتی محمد فاروق علوی نے بھی خواجہ شجاع عباس کو دیار غیر سے خراج تحسین پیش کیا، وہ مفتی امجد صاحب کی پوسٹ پر لکھتے ہیں: "بہت صدمہ ہوا، بہت علمی شخصیت تھے، دو سال قبل جب پاکستان جانا ہوا تھا تو اسلام آباد سے فون پر ان سے بات ہوئی تھی، ملاقات کا پروگرام طے ہوا لیکن بوجوہ نہ ہو پائی۔ اللہ تعالیٰ انھیں اپنے جوار رحمت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ ان سے بہت اچھا علمی رابطہ رہتا تھا۔ ہم ایک بہت ہی علم دوست، نڈر اور سچے ساتھی سے محروم ہوگئے ہیں۔ ان کا نام بھی شجاع تھا اور واقعی بڑی شجاعت سے بات کرتے تھے، شجاع عباس واقعی اسم بامسمی تھے۔" علی اصغر عمران نے بھی خوب خراج عقیدت پیش کیا ہے، لکھتے ہیں: "میں ان سے 1994ء سے متعارف تھا، زندگی میں آج پہلی بار ان کی تصویر کی زیارت ہوئی ہے۔ میری دلی خواہش تھی کہ کبھی ان کی زیارت نصیب ہو، لیکن شاید میرے گناہ آڑے آئے اور میں اس مجاہد فی سبیل اللہ کی زیارت سے محروم رہا۔"

ایک اور جگہ لکھتے ہیں: "واقعاً کمال انسان تھا، سری نگر سے چلا، نئی جگہ آکر نام پیدا کیا، نظریات کی بنیاد پر ان سے اختلاف کیا۔ جس کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا، اس لیول پر جا کر علوم دینیہ اور عربی پر دسترس حاصل کرنا، پھر عقل استعمال کرکے سوچ کے لیے نئے نئے زاویئے دینا، صدیوں سے جذباتیت کے تلے دبے عوامی بن گئی حقیقتوں کو دلیل سے رد کر دینا، دین یا اپنے راہنما ہونے کے سٹیٹس کو ذریعہ معاش بنانے کے بجائے اپنا بزنس کرنا، مجھے لگتا ہے شجاع بھائی کی زندگی میں قدم قدم پر پُراسراریت موجود ہے، جسے اب منظر عام پر آنا چاہیے، عجیب انسان تھا!" ایک سوال کے جواب میں وہ مزید کہتے ہیں: "میں اس وقت امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن میں تھا اور خواجہ صاحب حزب المومنین کے کمانڈر تھے، ان کا لٹریچر ہم میں تقسیم ہوتا تھا، تب سے ان سے غائبانہ عشق تھا۔ خواجہ شجاع عباس کو شہرت کی طلب نہ منصب کی خواہش، نہ ستائش کی پرواہ اور نہ دولت کی ہوس، عجیب انسان تھے۔"

علی عباس (انجینئر) نے تصویر بنوانے کے شوق سے مستغنی ہونے کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے: "مجھے علم تھا کہ وہ اپنی تصویر بنوانے کے ہرگز شوقین نہیں تھے بلکہ ایک طرح سے گریزاں رہتے تھے، اس لیے میں نے ان کو کبھی بھی تصویر بنوانے کی زحمت نہ دی تھی، اگرچہ میری ان سے تیس سال سے زیادہ کی آشنائی تھی۔" مرحوم کو خراج عقیدت پیش کرنے والوں کو کہاں تک شمار کروں، ان کی زندگی کے ہزار روشن پہلوئوں کو احباب نے مختلف انداز سے پیش کیا ہے۔ اخبارات نے کالم لکھے ہیں، سرکاری اور نجی ٹی وی چینلوں نے خبریں نشر کی ہیں، سوشل میڈیا ان کے لیے حروف ستائش سے معمور ہے، دوست احباب، اپنے پرائے سب ان کے لیے خیر کے جذبوں سے لبریز عبارتیں سپرد قلم کر رہے ہیں۔ ان میں سے ایک سید ہادی ہمدانی ایڈووکیٹ کی مختصر عبارت بھی لائق توجہ ہے، لکھتے ہیں:
پیڑ اسی احساس سے مرتے جاتے ہیں
سارے پرندے ہجرت کرتے جاتے ہیں
مرحوم خواجہ شجاع عباس، بہت سی محفلوں میں انہیں سنا۔ کئی بار پڑھا۔ ایک بار مجلسِ بصیرت سے اکٹھے نکلے تو ان کو آئی ٹین ڈراپ کیا۔ راستے بھر میں آیت اللہ محسنی کی کسی کتاب پر علمی گفتگو کرتے رہے۔ آخری بار اسی برس کے محرم میں ملی یکجہتی کونسل کے پروگرام میں’’ تہذیبِ کربلا‘‘ پر بات کرتے پایا۔ آج عالمِ شباب میں انہوں نے اس غیر مستقل گھروندے جسے ہم دنیا کہتے ہیں، کو الوداع کہا۔ دعا ہے بارگاۂ ایزدی میں شفاعت محمدؐ و آل محمد ان کا مقدور بنے۔ آمین"
 
شوکت حسین صفدری جنھیں ہم شاہد بھائی کے نام سے جانتے ہیں، تمام مجاہدین میں شاید برادر شجاع عباس سے سب سے زیادہ قریب تھے۔ ایثار پیشہ اور وفادار ساتھی تھے۔ بہت غم و اندوہ میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ الفاظ میں اپنا دکھ بیان نہیں کرسکتے۔ میں نے سینے سے لگایا، تسلی کے دو لفظ کہے، پیشانی چومی تو کہنے لگے: میں آج یتیم ہوگیا ہوں۔ خدا جانے اور بھی ایسے کتنے ہوں گے، جن کی یہی کیفیت ہوگی دو جملے شاہد بھائی کے بھی ملاحظہ کیجیے: "میرے بڑے بھائی، شفیق، استاد، رہنماء اور حزب المومنین کے بانی آج ہمیں اکیلا کرکے دنیا سے چلے گئے، انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ شجاع عباس ایک بہادر کشمیری آزادی پسند رہنما تھے، جنھوں نے اس مقصد کیلئے اپنی زندگی کے قیمتی سال وقف کر دیئے۔ ان کی عمر47 سال تھی۔ وہ ایک ممتاز مذہبی سکالر بھی تھے۔
 
شجاع عباس کی بوڑھی ماں اور پیر سال والد نے سرینگر میں یہ خبر کیسے سنی ہوگی اور برہمن جبر و استبداد کی شکار وادی میں کس نے ان سے کیسے اظہار تعزیت کیا ہوگا۔ خواجہ محمد قاسم جو شجاع عباس کے والد ہیں، کبھی کبھی پاکستان آتے رہے ہیں، ہماری ان سے کئی یادگار ملاقاتیں اور نشستیں رہی ہیں۔ ان کے بڑے بھائی جو ایڈووکیٹ ہیں، سرینگر ہی میں ہوتے ہیں، ان کا نام خواجہ تصدق حسین ہے، دوسرے ڈاکٹر تفضل حسین ہیں۔ وہ لندن میں ہوتے ہیں۔ انہی کے لیے ممکن تھا کہ وہ پاکستان آتے اور یہاں اپنے عزیزوں سے مل کر غم بانٹتے۔ چنانچہ وہ 9 دسمبر کو پاکستان پہنچے۔ انہوں نے شجاع بھائی کی مجلس سوئم میں شرکت کی، ہر کوئی انہیں گلے لگا کر نذرانہ محبت پیش کر رہا تھا اور آنسوئوں بھری آنکھوں کے ساتھ اظہار غم کر رہا تھا۔ شجاع عباس کی دو بیٹیاں ہیں اور ایک بیٹا، جو ابھی چودہ برس کا ہے، بہنوں سے چھوٹا ہے، ان کی والدہ محترمہ جو ہماری بھابھی ہیں اور ہمیں بہت عزیز ہیں، لاہور کے قدیمی کشمیری خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ انہوں نے بڑی وفاداری، ہمت اور حوصلے کے ساتھ اپنے شریک حیات کے ساتھ زندگی کی اونچ نیچ کو پاٹا ہے۔ شجاع عباس ایک طویل عرصہ کمر کے درد میں مبتلا رہے۔ مشکل سے بیٹھ پاتے تھے، اس کے باوجود ان کی فعالیت اور جدوجہد کی داستان زبان زبان پر ہے۔ کچھ آپ سطور بالا میں پڑھ بھی چکے ہیں۔

ان کے دو ماموں زاد برادر اعجاز حسین رضوی اور کفایت حسین رضوی بھی کشمیر کے مجاہدین میں شامل ہیں اور انہی کی طرح ہجرت کرکے پاکستان آگئے تھے۔ اب یہیں پر آباد ہیں۔ اللہ ان کی اور دیگر مجاہدین کی حفاظت فرمائے، وہ ہم میں سے ہیں اور ہم ان میں سے ہیں۔ دل تو شجاع عباس کا ذکر کرتے کرتے تھکتا ہی نہیں۔ جی چاہتا ہے کہ میں کہوں اور لوگ سنا کریں اور لوگ ان کا ذکر چھیڑیں اور میں برستی آنکھوں سے سنتا رہوں، لیکن مولا علیؑ یاد آتے ہیں، جنھوں نے جناب فاطمۃ الزہراؑ بنت رسولؐ کی قبر سے رخصت لیتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف روئے سخن کرتے ہوئے کہا تھا: "انا للّٰہ و انا الیہ راجعون، اب یہ امانت پلٹا لی گئی، گروی رکھی ہوئی چیز چھڑا لی گئی، لیکن میرا غم بے پایاں اور میری راتیں بے خواب رہیں گی، یہاں تک کہ خداوند عالم میرے لیے بھی اسی گھر کو منتخب کرے، جس میں آپؑ رونق افروز ہیں۔
 
اسی خطبے کے آخر میں یہ الفاظ بھی ہیں: "آپ دونوں پر میرا سلام رخصتی ہو، نہ ایسا سلام جو کسی ملول و دل تنگ کی طرف سے ہوتا ہے۔ اب اگر میں (اس جگہ سے) پلٹ جائوں تو اس لیے نہیں کہ آپ سے میرا دل بھر گیا ہے اور اگر ٹھہرا رہوں تو اس لیے نہیں کہ میں اس وعدہ سے بدظن ہوں، جو اللہ نے صبر کرنے والوں سے کیا ہے۔ جب آنحضرتؐ ،حضرت فاطمۃ الزہراؑ اور امام علیؑ جیسی ہستیاں اس بے ثبات دنیا سے رخصت ہوگئیں تو پھر اور کسی کی کیا حیثیت ہے۔ خواجہ شجاع عباس نے اپنی جدوجہد کی، اپنے حصے کا کام کیا اور ہم سے جدا ہوگئے۔ ضرور ان سے رحمت دو عالمؐ کی شفاعت کے صدقے میں ملاقات ہوگی۔ ہمیں بھی اللہ توفیق دے کہ ہم اس کے راستے میں ثبات قدم کے ساتھ آگے بڑھتے رہیں، یہاں تک کہ اللہ ہمیں قبول فرمائے اور جوار حق میں جگہ بخشے۔
۔۔۔۔۔۔۔ختم شد۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 832119
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش